جب لڑکوں کا ریپ ہوتا ہے


حال ہی میں سوئس حکومت نے اس حوالے سے اپنے ملک میں قانونی اصلاحات کو بدلنے کے لئے تجاویز پیش کی ہیں جب کہ دوسرے ممالک میں اب بھی اس حوالے سے کھل کر بات نہیں کی جارہی۔ چناں چہ یہ طے نہیں ہوپایا کہ ایسی صورت میں کہ جب کسی مرد کی عصمت دری ہو تو قانونی طور پر واضح زبان استعمال کی جائے تاکہ ایک مرد اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے لئے قانونی مدد حاصل کرسکے۔ مردوں کے ساتھ اینل ریپ اور خواتین کے ساتھ وجائنل ریپ
(anal rape of a man and vaginal rape of a woman )
دونوں ہی گھناؤنے جرم ہیں، جن میں سے ایک جُرم کے لیے قانون نہ ہونا ظلم ہے۔

جنیوا کی سماجی ڈیموکریٹک پارلیمنیٹری لارنس فیلمین رائیل کے مطابق جب کسی شخص کا بنیادی جنیاتی عضو دوسرے شخص کے جسم میں داخل ہو، چاہے وہ اینل میں ہو ویجائینا میں یا منہ میں، اور اس سب میں دوسرے فریق کی مرضی شامل نہ ہو تو ایسے صورت حال کو عصمت دری کے جرم میں شامل کیا جانا ضروری ہے۔ اب چاہے یہ مرد کے ساتھ ہو یا عورت کے ساتھ دونوں صورتوں میں جرم ہے۔ ساتھ ہی وہ کہتی ہیں کہ منہ کے ذریعے زبردستی جنیاتی عضو کے داخل کرنا بھی ریپ کے زمرے میں آتا ہے۔ بہرحال اس پر بحث جاری ہے اور اُمید ہے کہ اس حوالے سے قانون اپنی واضح اصطلاح پیش کرے گا۔

پاکستان کے قانون کے مطابق ایسا سیکس جس میں مرد کا مرد سے عورت کا عورت سے یا مرد کا جانور سے یا عورت کا جانور سے جرم ثابت ہو غیر فطری سیکس یا غیرفطری جرم unnatural offence کے زمرے میں آتا ہے، جس کی سزا PPC 377 کے تحت عمر قید، دس سال قید یا کم سے کم دو سال قید ہے۔ دو سال قید کی کم سزا اس صورت میں ہوتی ہے جب معاملہ جانور کے ساتھ جرم کرنے کا ہو ایسے میں ظاہر ہے جانور بول نہیں سکتا لہٰذا کم سزا دی جاتی ہے۔

خواتین کے ریپ کے حوالے سے پاکستان میں قانون وہی کہتا ہے جو بین الا اقوامی قوانین میں کہا گیا۔ اور اس کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کا قانون بنایا گیا تھا لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز کے مطابق فقط ڈی این اے ٹیسٹ کے بنیاد پر سزا نہیں ہوسکتی۔ ڈی این اے کو ”ضمنی“ شہادت کے تصور کیا جائے گا۔

ایسے کیس بھی PPC 377 کے تحت ہی دیکھے جاتے ہیں۔ اگر کوئی مرد اپنے ساتھ زیادتی کا مقدمہ دائر کرتا ہے تو اس کے لئے ریپ نہیں بلکہ غیر فطری جبری سیکس کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اور ظاہر ہے ایسے کیسز میں یہ ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے کہ جرم کرنے والا کون تھا۔ دوسری طرف پاکستانی قوانین کے مطابق زنا PPC 376 میں آتا ہے جس کی سزا عمر قید یا موت ہے۔ دونوں قوانین کو دیکھا جائے تو مردوں کے ساتھ زیادتی کا کوئی الگ سے قانون ہمیں یہ واضح بات نہیں ملتا۔

آبروریزی کی اصطلاح کبھی کبھی جنسی حملے کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہے۔ اس کی نفسیاتی وجہ معاشرے میں وہ موجود وہ گھٹن ہے جس میں مرد کو طاقت ور اور عورت کو کمزور دکھایا اور سمجھا جاتا ہے۔ نتیجتاً مرد اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر عمر بھر خاموش رہتا ہے اور یہ خاموشی اس کی تمام زندگی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ نفسیاتی ماہرین کے مطابق ایسے مرد جنھیں بچپن میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ اپنی زندگی میں نہایت ہائیپر سیکچوئل ثابت ہوتے ہیں یا درندگی کی حد تک سیکس کرنا چاہتے ہیں۔

ایسا نہیں کہ یہ سب وہ خوشی سے کرتے ہیں۔ اکثر مرد اپنی اس حیوانی خواہش کی وجہ سے حد درجہ پریشان رہتے ہیں اور خود پر قابو پانا چاہتے ہیں لیکن ایسا کرنا ان کے اختیار سے باہر ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے پارٹنر اپنی شریکِ حیات کو بھی تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں اور اگر شریکِ حیات سے مطلوبہ خواہش پوری نہ کرسکیں تو پھر دوسری عورتوں میں سکون تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا کال گرلز سے تعلقات استوار کرتے ہیں۔

ایسے مرد اپنی اولاد لڑکے ہوں یا لڑکیاں دونوں کے معاملے میں شدید تحفظات رکھتے ہیں، جس سے ان کے بچے خود اعتمادی سے محروم ہوکر معاشرے میں خود کو اَن فِٹ محسوس کرتے ہیں۔ عالمی سطح بشمول پاکستان میں اس بات کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنسی جرائم کو صنف کی بنیاد پر طے نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ مردوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2