ہم ایک دوسرے کے خلاف کیوں ہیں؟ ‎


یہ صرف ایک واقعہ ہے اس جیسے ہزاروں واقعات گذشتہ 40 برسوں میں پاکستانی معاشرے نے دیکھے اور ان کے اثرات کو محفوظ کیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان میں رہنے والے افراد اور ان کے اذہان پر ان واقعات کا کوئی اثر مرتب نہ ہوا ہو۔ لیکن ہمارے کسی تجزیہ نے آج تک اس ٹراما کو موضوع نہیں بنایا جو اس بدنصیب معاشرے نے گذشتہ چالیس برسوں میں اپنے دل و دماغ پر جھیلا ہے۔ کسی تجزیہ نے اس قوم کے مزاج اور ذہنی حالت پر اس ٹراما کے اثرات کا سراغ لگانے کی کوشش بھی نہیں کی۔

آپ سب جانتے ہیں کہ جس صورتحال کی جانب مندرجہ بالا سطور میں اشارہ کیا گیا ہے وہ انسانی ذہن پر ایک خاص طرح کے اثرات مرتب کرتی ہے۔ نفسیاتی امراض کے تشخیصی نظام میں اس کو پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر یا PTSD کہا جاتا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں کے ابتدائی درجوں کے طلباء نہ صرف اس اصطلاح سے واقف و آگاہ ہیں بلکہ اس کی علامات بھی اب انٹرنیٹ پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ دنیا کے جن علاقوں میں جنگ یا اس سے ملتی جلتی صورت حال ہے وہاں PTSD کی شرح بڑھنے کی تصدیق کی تحقیقات فراہم کرچکی ہیں۔ ذرا اس اصطلاح پر غور فرمائیں ”پوسٹ ٹرامیٹک“ یعنی یہ ٹراما پیدا کرنے والے واقعے کے بعد پیدا ہونے والی نفسیاتی کیفیت کو بیان کرتی ہے۔ اس نفسیاتی کیفیت کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کیفیت کا شکار فرد یہ گمان کرتا ہے کہ ٹراما پیدا کرنے والی صورتحال دوبارہ ضرور رونما ہوگی۔ مثلا اگر کسی ایک سڑک پر سے گزرتے ہوئے حادثہ ہونے کی صورت میں برسوں گزرجانے کے باوجود بھی فرد اس سڑک سے گزرتے ہوئے خوف محسوس کرتا ہے کہ کہیں حادثہ دوبارہ نہ ہوجاے۔ پاکستان کی صورتحال پر غور فرمائیں یہاں یہ ”پوسٹ ٹرامیٹک“ صورتحال نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس معاشرے کا ٹراما ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ چار عشروں پر محیط واقعات کا شاخسانہ ہے۔ میں ماہرین کی کانفرنسز میں یہ استدلال پیش کرچکا ہوں کہ پاکستان میں یہ POST TRAUMA نہیں بلکہ ایک تاحال جاری ٹراما PERPETUAL TRAUMA ہے۔ یہاں اس کیفیت کے شکار افراد کا گمان نہیں یقین ہے کہ ٹراما دوبارہ ہوگا۔ دہشت گردی ہر واقعہ نے اس یقین میں اضافہ کیا ہے۔ یعنی یہ یقین کہ جو آج ہوا ہے وہ کل ضرور ہوگا۔ اور یہ سلسلہ چالیس سالوں سے جاری و ساری ہے۔ واقعات کبھی تسلسل سے ہوئے اور کبھی وقفوں سے۔

2014 کے بعد سے ان میں کمی یقینا ہوئی ہے مگر کیا یہ ختم ہو گئے۔ کیا ان واقعات کی وجہ سے پیدا ہونے والا خوف ختم ہو گیا۔ جواب ظاہر ہے نفی میں ہے

اب آپ ماہرین سے پوچھئے کہ اگر ٹراما پیدا کرنے والی صورتحال چالیس سالوں پر محیط ہو تو اس کو اصطلاحاً کیا کہتے ہیں۔ ماہرین بتائیں گے کہ اس کو COMPLEX PTSD کہا جاتا ہے۔ میں اصرار سے کہتا ہوں کہ COMPLEX PTSD کی اصطلاح پاکستان، عراق، شام، فلسطین، لیبیا اور یمن جیسی صورتحال کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ذہنی صحت کے شعبے میں کوئی ایسی اصطلاح نہیں ہے۔ پھر کہتا ہوں۔ نہیں ہے۔ کہ جو ان ملکوں کے افراد پر گزرنے والی قیامت کو بیان کر سکے۔ تاہم ایک ٹراما سے گزرنے کے بعد علاج نہ ہونے کی صورت میں کئی برس گزرنے کے باوجود بھی اس کے اثرات کی موجودگی کی تصدیق کی تحقیقات نے کی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اگر ٹراما کی صورتحال طویل عرصہ پر محیط ہو اور اس کا علاج نہ کیا جائے تو اس کے دور رس نتائج کے بارے میں بھی تحقیقات نے چند اہم نکات بیان کیے ہیں۔

ایسے افراد میں ٹراما کی وجہ سے جسمانی عوارض کے علاوہ مسلسل خوف، اضطراب AGITATION غصہ اور تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔ ان کو ہر وقت کچھ برا ہونے پر یقین ہوتا ہے۔ ان کے باہمی تعلقات شکوک کا شکار رہتے ہیں۔

اس سے قبل کہ میں واپس اپنے معاشرے میں موجود اختلافات کی جانب جاؤں ایک اور بات ٹراما اور اس کے نفسیاتی اثرات کے ذیل میں عرض کردوں۔ اگر فرد کو ٹراما کی نوعیت اور وجوہات کا علم ہو تو ہم ایسے لوگوں (معالجین) کے لئے ٹراما کے علاج میں آسانی ہو جاتی ہے لیکن اگر ٹراما کی نوعیت اور وجوہات نا معلوم ہوں تو اس کا علاج مشکل ہو جاتا ہے۔

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا پاکستانی عوام کو معلوم ہے کہ 80 ہزار افراد کس وجہ سے لقمہ اجل بن گئے۔ ان افتادگان خاک نے کس جرم کی سزا پائی۔ ان کے قاتل کون تھے اور اگر خدانخواستہ کل کسی سڑک پر دوبارہ دھماکہ ہوتا ہے تو اس کی وجہ کیا ہوگی۔

اب بیان کردہ باتوں کو ملا کر دیکھئے ایک تو چالیس سالوں سے پاکستانی معاشرہ ٹراما کا شکار ہے۔ دوسرے اس معاشرے نے آج تک اس ٹراما کے اسباب اور کرداروں کا تعین نہیں کیا۔ اور تیسرے یہ کہ چالیس سال گزرنے کے باوجود بھی علاج تو درکنار کسی نے آج تک اس کی اجتماعی شکل کو شناخت تک نہیں کیا۔ ماہرین کی ایک کانفرنس میں جب اس طالب علم نے یہ استدلال کیا تو ایک ماہر نے کہا کہ پاکستانی عوام بہت بہادر ہیں۔ ایک جگہ دھماکا ہونے کے ایک گھنٹے کے اندر اندر اس سڑک پر ٹریفک اس طرح رواں دواں ہوتی ہے جیسے وہاں کچھ ہوا ہی نہیں تھا گزارش کی کہ یہ بہادری نہیں NUMBNESS ہے جو پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کی ایک علامت ہے۔

جب ٹراما پرانا CHRONIC ہو۔ شدید ہو۔ اور اس کا علاج نہ ہوا ہو تو خوف اپنی انتہا کو چھوتا ہے انسان اپنے سائے سے ڈرتا ہے ہر کسی پر شک کرتا ہے اور جب ٹراما کے اسباب نامعلوم ہو تو ہر کسی کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ ہر کسی کے بارے میں گمان کرتا ہے کہ یہ اس کو نقصان پہنچا کر ہی رہے گا۔ ہر انسانی تعلق میں تین چیزیں در آتی ہے۔ ایک انتہا کو چھوتا ہوا شک۔ دوسرے بے رحمانہ خود غرضی۔ اور تیسرے ہر دوسرے شخص کو اپنی خراب صورتحال کا ذمہ دار سمجھنا۔

دائیں بائیں دیکھیے۔ ہر بڑا گروہ تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتا ہوا سکڑتا جا رہا ہے یا نہیں۔ باہمی تعلقات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں یا نہیں۔ باہمی گفتگو جارحانہ ہوتی جا رہی ہے یا نہیں۔ لوگوں میں قوت برداشت ناپید ہونے کی حد تک کم ہوئی ہے یا نہیں۔

اگر یہ سب باتیں حقیقت ہے تو اتفاق سے یہ دیر تک جاری رہنے والے ٹراما اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی کیفیت کی علامات بھی ہیں ایسی کیفیات میں اختلاف کی وجہ رائے کا مختلف ہونا نہیں ہوتا بلکہ اختلاف اس AGITATION کا نتیجہ ہوتے ہیں جو ٹراما کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2