شہر قائد میں گداگروں کا بڑا نیٹ ورک


گداگری کو مختلف جرائم کی وارداتوں میں استعمال کرنے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے ماہ مقدس رمضان المبارک کے آغاز پر اس پیشے سے وابستہ عناصر پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا رخ کر لیتے ہیں جس کے بعد جرائم کی شرح میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آ تاہے گداگری کے پیشے سے منسلک افراد حکومتی لاپرواہی کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے آ ہستہ آ ہستہ مافیا کا روپ دھار رہے ہیں جس کی آڑ میں مختلف جرائم کی وارداتوں کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔

اگر تخمینہ لگا یا جا ئے رمضان المبارک میں شہر قائد میں ہونے والی وارداتوں کا تو گذشتہ 25 دنوں میں شہر قائد میں 2200 سے زائد مختلف جرائم کی وارداتیں عمل میں آ ئیں ہیں جن میں متعدد شہری، موبائل، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں سمیت اپنی قیمتی نقدی سے محروم ہو ئے ہیں پولیس کی جانب سے گداگروں کے خلاف دکھاوے کی روایتی کاروا ئیوں کے سبب ان کا منظم نیٹ ورک شہر قائد میں حالیہ دنوں مکمل طور پر فعال دکھا ئی دے رہا ہے جسے بے نقاب کرنے میں حساس اداروں کو مسلسل ناکامی کا سامنا ہے رمضان المبارک کی آ مد کے موقع پر وارداتوں میں ریکارڈ توڑ اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتا دکھا ئی دیتا ہے کہ شہر کے امن و سکون کی کنجیاں ایک مرتبہ پھر جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں لگ چکی ہیں۔

اس وقت شہر قائد گداگروں کے روپ میں مختلف مافیا کے ہاتھوں مکمل طور پر یر غمال بن چکا ہے جس کی نشاندہی مختلف شاہراہوں، تفریحی مقامات اوررہائشی علاقوں میں بھیک مانگتے موسمی گداگرکرتے دکھائی دیتے ہیں شہر میں ان گداگروں کو معمولی رقم کے عیوض نہ صرف شہریوں کی ریکی لیے استعمال کیے جانے کا انکشاف سامنے آ یا ہے بلکہ انہیں جرائم کے مختلف نیٹ ورک کو بڑھانے میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے مختلف علاقوں سے نکل مکانی کر کے شہرکا رخ کرنے والے گداگررمضان المبارک کو کمائی کے دن قرار دیتے ہوئے نہ صرف جرائم کو پراوان چڑھانے میں اپنا کردار کر رہے ہیں بلکہ محکمہ پولیس کی جانب سے کھلی چھوٹ ملنے پر دن دیہاڑے وارداتوں کو بھی یقینی بنا رہے ہیں۔

شہر میں جرائم کی بڑھتی ہوئی واردارتوں میں اضافے کے بعد بھی سندھ پولیس 2002 ایکٹ کی بحالی کی گتھی سلجھانے میں مصروف ہے شہریوں کو اپنی مدد آ پ کے تحت ان گداگروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے محکمہ پو لیس کو ان جرائم پیشہ عناصر کو بے نقاب کرنے میں مسلسل ناکامی کا سامنا ہے جس کے تحت روزانہ کی بنیادوں پرمختلف جرائم کے واقعات رونما ہو رہے ہیں اس سلسلے میں ان گداگروں کی کراچی آ مد سے قبل حساس اداروں کی جانب سے موثر حکمت تیار نہ کرنے کا خمیازہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شہری بھگتنے پر مجبور ہیں نیز تمام تر صورتحال سے آ گاہ ہونے کے باوجود بھی شہریوں کی سیکورٹی سے متعلق بہتر اقدامات نہ کرنا حکومتی لا پر واہی اور محکمہ پو لیس کی غفلت کی منہ بولتا ثبوت ہے شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم سندھ پولیس کی کارکردگی پر بھی مسلسل سوالیہ نشان داغ رہے ہیں۔

شہر قائد میں جرائم کی زیادہ تر وارداتیں مختلف شاپنگ سینٹر کے باہر عمل میں آ ئیں ہیں گداگروں کی ایک بڑی تعداد معذوری و زخمی کے مختلف روپ دھار کر ان جگہوں کا رخ کرنے کو زیادہ پسند کرتی ہے جہاں عوام کی کثیر تعداد پائی ہے نیز عوامی گزر گاہوں پر بلا کسی خوف گداگری کی آڑ میں مختلف وارداتوں کو یقینی بنایا جا رہا ہے روزانہ کی بنیادوں پر ہزاروں شہری اپنی قیمتی اشیاء سے محروم ہو رہے ہیں گداگری سے تعلق رکھنے والا خاندان اپنے کم عمر بچوں کو بھی اسی پیشے سے وابستہ کر دیتا ہے جس کے تحت صدیوں سے گداگری سے تعلق رکھنے والوں کی نئی نسل بھی اس مکروہ دھندے کی بھینٹ چڑھتی جا رہی ہے۔

شہر کے پسماندہ علاقوں سے ہجرت کر کے کراچی کا رخ کرنے والے گداگر چھوٹی بستیوں میں رہائش اختیار کرتے ہیں جسے وہ باالخصوص رات کے پہر میں سونے کے لیے استعمال کرتے ہیں اوررمضان المبارک کے اختتام پر یہ اپنے آ بائی علاقوں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ شہر میں موجود بھکاریوں سے متعلق اب تک کوئی تحقیق نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی مربوط سروے کیا گیا ہے سابق صدر پاکستان ضیاء الحق کے دور حکومت میں گداگری کی روک تھام کے لیے مختلف شہروں میں کئی بھکاری ہومز قائم کیے گئے تھے جہاں انہیں مفت کھانا اور رہائش فراہم کی جاتی تھی مگر بھکاریوں کی ان ہومز میں کسی بھی قسم دلچسپی نہ لینے اور گداگری کے پیشے کو کسی بھی صورت نہ چھوڑنے کے سبب یہ حکمت عملی بھی ناکامی سے دو چار رہی۔

گداگری ایک لعنت ہے جسے ختم کرنے کے لیے سخت قوانین بنانے کی اشد ضرورت ہے اگر اس لعنت کو ختم کر دیا جائے تو اس کی آڑ میں جنم لینے والی تمام تربرائیاں ختم ہو جائیں گی ایک مہذب معاشرے میں ان ہی لوگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے جو محنت مزدوری کر کے اپنی ضروریات زندگی پورے کرتے ہیں غریب ہونا جرم نہیں لیکن اپنے آ پ کو دوسروں کا محتاج بنانا سب سے بڑا جرم ہے کیونکہ جہاں انسان اپنے اعلیٰ و اشرف مقام سے نا آشنا ہو اور غیرت بال کھولے ماتم کناں ہو وہاں ارتقا ء کے تقاضے اورنشود بلوغ کے سلسلے دم توڑ دیا کرتے ہیں اور تاریخ بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے وہ قوم ترقی کی تمام تر منزلیں طے کرتی ہے جو بھیک کے لقمے کے بجائے فاقے کو ترجیح دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).