چادر بس سر سے گُھٹنوں تک کو ڈھانپ لے


پچھلے کچھ عرصے میں وطنِ عزیز میں ہونے والے واقعات پر اب نہ حیرت ہوتی ہے اور نہ ہی افسوس۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ یا تو مردہ دلی آگئی ہے یا ایک ہی فلم بار بار دیکھنے سے دلچسپی ہی ختم ہوگی۔ کل شام ایک عزیز سے ملنے کا اتفاق ہوا، ہم نے پیڑول کی بڑھتی قیمتوں کا شکوہ کیا تو اُنہوں نے آمدنی کے ذرائع بڑھانے اور چادر کو گُھٹنے تک ڈھانپنے کا مشورہ دیا۔ ہم نے اصرار کیا کے بھائی کم از کم سر سے پیر تَک تو محاورے میں سُنا تھا آپ نے تو اُس میں بھی ترمیم کردی۔ اُنہوں نے فرمایا، ”جناب خاطر جمع رکھئیے معاملہ کہیں لنگوٹی بچانے کی دعا تک نہ پہنچ جائے“۔

کسی سیانے نے وزیراعظم ہاوس کی بھینسوں کی نیلامی کے وقت کہا تھا پرانے زمانے کے راجا مہاراجہ کتنا ہی برا وقت ہوتا تھا کبھی پالتو جانوروں کو نہ تو فروخت کرتے تھے نہ اُن کی خوراک اور دیکھ بھال میں کمی کرتے تھے۔ جب تو یہ مانا جاتا تھا رزق کی ذمہ داری اُس مالکِ دوجہاں کے پاس ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا، اب یہ فہم ہماری عقلِ ناقص سے بلند ہے کے وہ کون سی کفایت شعاری کی گئی اور کتنی دمڑیوں کی بچت ہوئی؟

حساب کتاب کا عِلم رکھنے والے دانشمند بتاتے ہیں کے تمام دعووں کے برخلاف موجودہ حکومت عوام کے پیسے کی حفاظت میں ابھی تک ناکام ہوئی ہے اور حکوتی اخراجات کا حجم بڑھتا ہی جارہا ہے۔ بات بے بات تنقید کو ہم نے ہمیشہ معیوب سمجھا اِسی لئے رمضان مبارک میں حکومتی اہلکاروں کے ایک جمِ غفیر کی عمرے کی ادائیگیوں کے اخراجات کے بارے میں سوال کرنا کبھی مناسب نہیں سمجھا۔

خبروں میں سنا تھا اس سال بجٹ سخت ہوگا مگر ساتھ ساتھ یہ خوشخبری بھی دی گئی کہ کچھ سالوں میں حالات بہتر ہوجائیں گے۔ اگر یہ بھی واضح کردیا جاتا کے کِن کے حالات بہتر ہوجائیں گے تو مناسب ہوتا ابھی تو ایسا لگتا ہے اِس سے مراد نئے کھلاڑی تھی۔ ہم اِس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کے تقدیر ہر کسی کو موقع دیتی ہے، البتہ موقع سے فائدہ اٹھانا آپ کی اپنی معاملہ فہمی پر منحصر ہے۔

حال ہی میں ایک محترمہ وزیر صاحبہ کی ہمشیرہ کی ایک سرکاری عہدے پر تعیناتی کی وجہ سے حکومتی اتحاد کے سربراہ کو اپنے وزرا کو اِس بات کی یاد دہانی کرانی پڑی کہ وہ سفارش سے اجتناب کریں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں سفارش کا ہونا ہی سب سے بڑا میرٹ ہے وہاں یہ بات کانوں کو بہت بھلی لگی۔ اِس سے بھی اچھی یہ۔ ت لگی کے موصوفہ وزیر صاحبہ نے یہ انکشاف کیا کے اُن کی ہمشیرہ کی تعیناتی میرٹ پر ہوئی تھی۔

کیوں کہ بدگمانی سے اجتناب برتنے کا کہا گیا ہے تو ہم بھی اِس بات کو مانے لیتے ہیں اور بھائی صاحب ہمارے نہ ماننے سے کون سا آسمان ٹوٹ جائے گا؟ اگر میرٹ ہی قانون ہوتا تو شاید ہمارے حالات بہتر ہوتے اور ہر آنے والے بجٹ میں یہ سننے کو نہ ملتا کے ”بس کچھ سالوں کی بات ہے پھر ہر طرف چَین ہے“۔

اب مزید کچھ کہنے کی ہمت نہیں بس یہی دعا ہے کہ چادر سر سے گُھٹنوں کو ڈھانپ لے، ورنہ اس سے آگے کی نہ عوام میں سکت ہے اور نہ ہی ہمت۔ افریقہ میں پڑنے والے ایک قحط کا تذکرہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ ”بکریوں کے تَھنوں سے آخر میں دودھ کی جگہ خُون آنے لگا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).