ویڈیو اسکینڈل: سپریم کورٹ کا تحمل اور ایف آئی اے کی مستعدی


ارشد ملک پر الزام اور ان کی طرف سے جوابی الزام اور وضاحت کے بعد کیا جسٹس اعجاز الحسن کو بھی اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے اور سرزد ہونے والی کسی کوتاہی کا اعتراف کرنا چاہیے یا ان کی کسی بھی غلطی کو صرف اس لئے نظر انداز کردیا جائے گا کہ وہ سپریم کورٹ کے جج ہیں، اس لئے وہ کسی کوتاہی کے مرتکب نہیں ہو سکتے؟

اس سوال پر عدالت عظمی کی خاموشی ہی دراصل وہ اہم سوال ہے جس کا جواب دے کر سپریم کورٹ ملکی عدلیہ کے بارے میں سامنے آنے والے متعدد سوالوں کا جواب سامنے لا سکتی ہے۔ اگر اس سوال کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی اور سپریم کورٹ نے ذمہ داری کا تعین کرنے سے گریز کیا یا مریم نواز اور جج ارشد ملک پر ہی اس کا ملبہ ڈالنے کی کوشش کی گئی تو یہ اقدام عدالت عظمی کی نیک نامی اور قانون کی بالادستی کی اچھی مثال قائم نہیں کرے گا۔

دوران سماعت جج اور درخواست گزاروں کے وکیل اس بات پر متفق تھے کہ یہ عدلیہ کے وقار اور خود مختاری کا سوال ہے اور دیکھنا چاہیے کہ کیا ادارے عدالتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں؟ تاہم جب درخواست گزار ایڈووکیٹ طارق اسد نے الزام عائد کیا کہ عدالتی معاملات میں کچھ ادارے ملوث ہیں تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ اداروں کی نشاندہی پہلے کیوں نہیں کی گئی۔ اس پر طارق اسد کا کہنا تھا کہ اگر وہ پہلے اس کی نشاندہی کرتے تو اُنہیں اندیشہ تھا کہ رجسٹرار آفس سے ہی ان کی درخواست پر اعتراض لگا کر واپس کردیا جاتا۔ جب چیف جسٹس نے پوچھا کہ کون سے ادارے عدالتی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں تو طارق اسد نے برملا کہا کہ ’سر، آئی ایس آئی‘ ۔

درخواست گزار نے بینچ کے سربراہ کو بتایا کہ آج کل تو آئی ایس آئی کے اہلکار ان کے بارے میں روزانہ دو مرتبہ معلومات حاصل کرتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’شکر کریں کہ آپ محفوظ ہیں‘ ۔ خبر کے مطابق اس پر کمرہ عدالت میں قہقہہ بلند ہؤا۔ جس بات کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں مذاق میں ٹال دیاگیا وہ اس ملک کے سیاسی اور عدالتی نظام کی خرابی کا بنیادی سبب بنی ہوئی ہے۔ اس مداخلت کی وجہ سے عدالتوں میں سیاسی فیصلے ہوتے ہیں اور ملک میں سیاسی اصلاح کے منصوبے پر عمل درآمد کے لئے عدالتوں کو استعمال کیا جاتا رہاہے۔

جس بات پر کل سپریم کورٹ میں قہقہہ بلند ہؤا اور جسے محض فقرے بازی کی حد تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی اس کی سنگینی کا ایک عملی نمونہ گزشتہ سال اکتوبرمیں دیکھنے میں آیا تھاجب سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر صدر مملکت نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے فارغ کردیاتھا۔ شوکت عزیز صدیقی نے بھی آئی ایس آئی پر عدالتوں پر اثر انداز ہونے کا الزام عائد کیا تھا لیکن اس تقریر کے چند ہفتے بعد ہی انہیں معزول کرنے کا حکم سامنے آگیا تھا۔

اسی قسم کا ایک معاملہ اب بھی سپریم جوڈیشل کونسل کے زیر غور ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اپنی اہلیہ اور بچوں کی جائیداد چھپانے کے الزام میں صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ ان کا اصل قصور فیض آباد دھرنا کیس میں بعض ’ریڈ لائنز‘ کو عبور کرنا تھا۔ اگر سپریم جوڈیشل کونسل اپنے اس باوقار جج کی بھی ’قربانی‘ دیتی ہے تو عدالتوں کے وقار اور دیانت کامعاملہ محض لفظی باتیں بن کر رہ جائیں گی۔

مریم نواز نے جج ارشد ملک کی ویڈیو سامنے لاتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ انہیں مبینہ طور پر چند سفید پوش اٹھا کر لے گئے اور ایک نجی ویڈیو دکھاکر نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے پر مجبور کیا۔ جج ارشد ملک کے بیان حلفی میں اس نجی ویڈیو کا ذکر موجود ہے جو ان کے بقول چند برس پہلے ملتان میں ان کے کسی کمزور لمحے میں بنائی گئی تھی۔ اس بیان کو درست مان لیا جائے تو نواز شریف کے حامی اس ویڈیو کے ذریعے جج ارشد ملک سے مرضی کا فیصلہ لکھوانا چاہ رہے تھے۔ لیکن جج صاحب نے دباؤ اور رشوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ عدالت عظمی اگر عدالتوں کے وقار کا تحفظ چاہتی ہے تو اسے اس نتیجہ تک پہنچنا ہے کہ جج کی ایسی ویڈیو کس نے بنائی اور کس کے قبضے میں تھی جس کی وجہ سے انہیں بلیک میل کیا جاتا رہا۔

ویڈیو اسکینڈل کے حوالے سے اٹھائے جانے والے باقی سب سوال ضمنی اور غیر اہم ہیں۔ اس معاملہ کو پرائیویسی کے حق، سائبر کرائم یا الیکٹرانک جرائم کے گورکھ دھندے میں ڈالنے سے پہلے یہ جواب دینا ضروری ہے کہ جج کو کس نے اور کب، اس کی قابل اعتراض ویڈیو دکھا کر اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ سوال تشنہ جواب رہا تو چیف جسٹس صاحب کی طرف سے ججوں کی ہمت وشجاعت کی باتوں کو بھی یک طرفہ بیان ہی سمجھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2781 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali