نامرادی و تشنگی کی پرکار میں قید ہر ایک جنم کی جانما


Ghulam Asghar Khan

علی شریعتی کا کہنا ہے کہ عورت اگر پرندے کی صورت میں ہوتی تو ضرور مور ہوتی، اگر چوپائے کی جنس میں آتی تو یقیناً ہرن ہوتی، اگر کیڑے مکوڑے کی شکل میں اترتی تو لازماً تتلی ہوتی، لیکن وہ انسان خلق ہوئی تاکہ ماں، بہن اور عشق بنے۔

تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ علی شریعتی کی یہی آخری سطر حفیظ خان کے ناول ”ہر ایک جنم کی جانما“ کے عنوان کا مرکزی خیال ہے، جو اپنے کرب کی شدت میں عینی آپا کے ”اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو“ سے آگے نکل جاتا ہے۔ اس کرب کے بیان کے علاوہ حفیظ خان کے ناول میں عورت کے تصور کے اتنے شیڈز ہیں کہ حقیقی زندگی میں ان سے کوئی مفر نہیں ہو سکتا۔ عورت کا ایک روپ ظالم کا ہے اور دوسرا مظلوم کا۔ کہیں لوبھی ہے اور کہیں سوبھ والی۔

کہیں خودسر و ناداں اور کہیں دوراندیش و دانا، کہیں انتہائی ڈرپوک اور کہیں بلا کی بہادر، کہیں بہ یک وقت حاسد و معصوم سرشت، کہیں معشوق ہے تو کہیں خود عاشق۔ یہ سارے کے سارے رنگ اسی ایک ناول میں محل سے لے کر سرکنڈوں کی سالھ تک کی ہر طبقے کی عورت کے دکھائے گئے ہیں۔ ان عورتوں کے بیٹیوں، بیویوں اور ماؤں کے روپ میں کرداروں کے ساتھ ساتھ باپ کے کردار، بیٹوں کے کردار، اور بھائیوں کے کردار بھی تراشے گئے ہیں، جو ان کربوں میں برابر کے شریک ہیں۔

کچھ حقیقی کرداروں کے نام سے اور کہیں فرضی۔ ان کرداروں کے چہرے سماجی اور طبقاتی تقسیم میں دیکھنے سے مرتب ہوتے ہیں۔ اس تاریخی کم کرداری ناول میں سبھی کردار اپنے اپنے دائروں میں مکمل ہیں مگر ناول کے بڑے دائرے میں سبھی تسمہ کردار ہیں جو متوازی کہانیوں میں ایک ہی مکان اور ایک زمان میں اس طرح جڑے ہوئے ہیں جیسے تسبیح کے دانے امام کی وجہ سے باہم ہیں مگر اپنی اپنی حدوں میں آگے پیچھے ہو رہے ہیں اور تسبیح پھیرنے والے کے محتاج بھی ہیں۔

یوں ان کی طبقاتی حیثیت انھیں اس تسبیح کا حصہ بنائے ہوئے ہے جو بار بار ٹوٹ جاتی ہے اور اس کے دوبارہ بنانے میں مختلف رنگ و نسل و مزاج کے دانے جوڑ کر گنتی پوری کرنے کے لیے یکجا کر لیا جاتا ہے۔ یہی وہ فن ہے جس کی طرف ڈی ایچ لارنس اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فن کا فریضہ یہ ہے کہ انسان اور اس کے گرد و پیش پائی جانے والی کائنات کے مابین جو ربط موجود ہے، اس کا ایک زندہ لمحے میں انکشاف کرے۔ یہی انکشاف اپنی تاریخ سے مقامی حفیظ خان ربط بنا کر ہی کر سکتا تھا، جس نے واضح کیا کہ ریاست یا اس کے ادارے کس طرح طاقت ور کے مفادات کو تحفظ دیتے ہیں۔

عائلی ادارے میں بھی اسی صورت کو دکھایا گیا ہے۔ گھر بھلے بادشاہ کا ہو یا فقیر کا، کسی شہری کا یا پھر کسی دیہاتی کا، اس میں انتشار یکساں ہی بہہ رہا ہے۔ ہر گھر کی ایک ہی کہانی ہے کہ گھر کا ہر فرد اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے دوسرے کو کہیں نیچا دکھاتا ہے تو کبھی اسے ہرا کر خود ہار جاتا ہے۔ کبھی مصلحت کے تحت ایک عمل برا ہوتا ہے تو کبھی وہی اچھا بن جاتا ہے۔ سبھی جگہوں پہ طاقت و اختیار کا کھیل جاری ہے۔ مشل فوکو کا ماننا ہے کہ طاقت، اسم نہیں فعل ہے، یعنی طاقت ہر زمان، ہر مکان پر اپنی صورت میں موجود ہے اور سیال بھی ہے، جامد نہیں۔

ناول میں نواب بہاول خان سوم اپنی طاقت و مفادات کی خاطر تاج برطانیہ کی خوشنودی کے لیے بہاول پور ریاست کی فوج سے ملتان تاراج کرانے میں دکھائی دیتا ہے تو اس فیصلے کے خلاف سامنے آنے والے ولی عہد حاجی خان کی سرکوبی کراتی انگریز سرکار بعد میں اسی کی معزولی کے بعد بننے والے نواب صادق خان سوم کی مدد نہیں کرتی اور حاجی خان فتح خان بن کر حکومت پہ قبضہ کر لیتا ہے تو اس کو قبول کر لیتی ہے۔ بعد میں وہی فتح خان انگریزوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے پانچ سال چار ماہ کی گنتی پوری کرتا ہے مگر اس کالک کے ساتھ کہ جنگ آزادی کو غدر کہہ کر اس فرنگی فتح کا جشن گھی کے چراغ جلوا کر مناتا ہے، جب کہ اگر اس کا بھائی صادق خان سوم جو اسی گنتی کے اعداد کو چار ماہ پانچ دن کی صورت میں پورے کرتا ہے، تو اس موقع پر اس کا انت بھی اسی طرح ہونا تھا۔

یعنی کٹھ پتلی بن کے رہنے والے نواب بھی فرزانہ خجندی کے لفظوں میں ”ہستم، ولی چنان، کہ نہ ہستم، نہ نیستم“ بن جاتے ہیں۔ ادھر رعایا کی حالت ایسی ریاستوں میں بھی ایسی ہی تھی، بھلے وہ دربار سے باہر رہنے والے ہوں یا درباری وزراء کی صورت ہر وقت مزاج یار کے رہین منت زندگی کرتے ہیں کیوں کہ ان کی جان کی قیمت مزاج بادشاہ ہوتی ہے۔ اس سطوت کے دائرے میں کسی کا کسی سے کوئی رشتہ نہیں۔ یہی عمل ناول میں دیراوڑ سے آئے عاشقے کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ بے مزہ ہو کر بھی دوسری بیوی سے قربت چاہتا ہے مگر وہ جب اس کو ختم کر چکتی ہے تو اپنے بھائی افضل کے پاس سارا کاروبار جاتا دیکھ کر اپنے شریک جرم بھائی کے خلاف ہو جاتی ہے اور عدالت میں قرآن پہ حلف دے کر بھی نامراد رہتی ہے۔

یہ نامرادی حق نواز اور لاڈاں کے گھر میں بھی ربیل کے پیدا ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے تو ربیل کی سہیلی ست بھرائی کے ساتھ روہیلے ہوت کو ایک ساتھ دیکھنے کے وقت مزید مستحکم ہو جاتی ہے جب ربیل اس دیکھنے کے جرم میں سزا کے طور پر نواب کے کوٹ میں پہنچ/پہنچائی جاتی ہے اور وہ وہاں نواب صادق سوم کے نکاح میں تین روز رہ کر منحوس قرار دی جاتی ہے، جب کہ ادھر شہر میں رہ جانے والی ست بھرائی روہیلے ہوت سے ہم جسم ہو کر بھی نامراد کرا دی جاتی ہے۔

ادھر ربیل کا عاشق ہوت اپنے باپ کو کھو کر بھی اس امید پہ جیتا ہے کہ باپ زندہ ہے اور خود لٹ لٹا کے واپس ڈیراور جا کر کسی چاننی سے منسوب تو ہو جاتا ہے مگر ملن کا کوئی سمے نہیں ہو سکتا کیوں کہ ہوت کو وہ بھوت ہی نہیں چڑھا جسے یونی نکالنے کو اپنا ہنر آزماتی، مگر جس سانولی ست بھرائی سے اسے خوف آتا تھا وہ گھر کی چھت پھلانگ کر اس کے سینے پہ سوار بھی ہوتی ہے اور اپنے جن کو خود اتار جاتی ہے۔ وہ اس قضیے کے کرب سے ناآشنا ہے کہ جسمانیات سے آگے جہان ہیں، جو سفر در سفر منزل در منزل پر مشتمل ایک لامتناہی سلسلہ ہے، سوچو تو بڑی چیز ہے، تہذیب بدن کی، ورنہ تو بدن آگ بجھانے کے لیے ہیں۔

ادھر ربیل کو قسمت اس کے عاشق کی بستی ڈیراور کے کوٹ میں لے آئی مگر اس کی قسمت میں تین روز کی عارضی ہم جسمی کے بعد طلاق اور قید تھی، بال اور بھنویں منڈوانے کے بعد عدت تھی، مگر بیٹی کو ڈھونڈتا باپ یہاں بیٹی کی آس پہ رل رل کے اندھے قاتلوں کے ہاتھوں صحرا میں کھیت ہو رہتا ہے، اور سالوں تک یہی بات بتانے کے لیے نامراد ہوت ماشکی بن کر کوٹ کے اندر پہنچ بھی جاتا ہے مگر اسے ربیل کا وصل نصیب نہیں ہوتا، بل کہ نواب فتح خان کا عتاب ضرور موت بن کر ملتا ہے۔

فطرت کا کھیل کہ اس ماشکی کی موت کا پچھتاوا نواب کی موت کا سبب بن جاتا ہے جب کہ ربیل کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہی رہتا ہے۔ یہ نامرادی اور جھورا اس ناول کا موضوع نہیں بل کہ مرکزی کردار ہے جو ان سماجی طبقات کی تقدیر کی صورت میں یکسوئی کے ساتھ بہہ رہا ہے۔ اس کی یہ ساری صورتیں ایک ایسا ناول نگار ہی پیش کر سکتا ہے جو منصفی کے سبھی ڈراموں سے آشنا ہو، جو تھانے کچہریوں کے جھمیلوں سے واقف ہو اور پھر نوابی ریاستوں کے اندرون و بیرون سے مطلع ہو۔

یوں اس طریقے سے انھوں نے وہ تاریخ مرتب کرنے کی کوشش کی ہے جو فکشن کے بطن سے برآمد ہو کر فیکٹ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگرچہ اس ناول میں پچھلے ناول ’ادھ ادھورے لوگ‘ کے بادی النظر سوال کا جواب دینے کی کوشش بھی کی گئی ہے مگر اس سے ہٹ کر یہ اپنی ذات میں ایک بیانیہ بنانے کی وہ کامیاب کاوش ہے جو شاید بہاول پور کے نوابوں سے نہ بن پاتا مگر ایک زیرک احمد پوری نے اس کو اپنے ہنر سے اس طرح ضرور استوار کیا ہے کہ معترضین کی تشفی کا سامان موجود ہے۔

بل کہ یہ ناول بہ یک وقت بہاول پور اور ملتان کے واسیوں کی آرکی ٹائپ میں پھنسے تعصبات کو دور کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس ناول میں بہاول پور ریاست کے مقامی الفاظ کو اسی طرح برمحل استعمال کر کے اردو کے حافظے میں رکھنے کی کوشش کی گئی ہے جس طرح مقامی اطوار کے ان طور طریقوں کو درج کیا گیا ہے جو جنریشن ایکس کے حافظے میں ہی باقی ہیں۔ یہ ثقافتی عناصر عملی طور پہ شاید کبھی اس دھرتی پہ دوبارہ نمودار نہ ہو سکیں مگر اس ناول کی صورت ضرور محفوظ ہو گئے کہ دستک دینے والے کو اندر سے کسی آواز کی بجائے تالی سنائی دے تو اس کا کیا مطلب ہے اور اگر دروازے پہ اندر سے ہاتھ کی دھپ دھپ کیوں کر سنائی دیتی ہے۔

برقعوں اور پردوں کے رواج و اسباب دونوں ہی نظر آئیں گے کہ کس طرح ریاست میں حسن اتنا بڑا جرم بن جاتا ہے جس کی سزا کم سے کم عمر قید بامشقت کی صورت بنتی تھی۔ نوابوں کا وجود ریاست سے باہر کے ہم مذہبوں کے لیے ایک اساطیری نمائندہ اور رہنما ہوتا ہو گا مگر ریاست کی خوب رو لڑکی کے لیے ایک جسم خور درندے سے زیادہ نہیں۔ اس کے کوٹ میں ناکتخدا دوشیزاؤں کی ہمیشہ کے لیے گھر سے دوری کی سزا موت ختم کر سکتی تھی ؛ ان کی اپنی یا پھر نواب کی موت۔ اور نواب کی موت کی دعا میں اگلا فیصلہ تقدیر کے اس بے رحم لمحے سے جڑا تھا کہ اگلا نواب کیا چاہتا ہے۔ یہاں ایک مرتے نواب کی ذہنی حالت کو دیکھتے ہوئے نسیم خان کی نظم ”جدید مصوری“ کے متنازع بند:

مجھے مارنے سے پہلے میرا آلۂ تناسل کاٹ کر
کسی بیوہ کے حوالے کر دیا جائے
اور میرے ہونٹ
تتلیوں کے لیے کسی باغ میں اگا دیے جائیں!

کی تشکیل نو کریں تو بھلے عاشقاں روہیلہ ہو جو دوسری بیگم سے بے عزت ہو کر پھر بار بار اسی طرف ملتفت ہوتا ہے، یا حق نواز جو اپنی بیوی لاڈاں کے اس کے خلاف جا کر بیٹی کو کوٹ کی دلال کے ہاتھوں بیچنے کے عمل کی سنگینی کے عمل کو بھی اپنی نفسی خواہشات کے پیچھے چھپا دیکھتا ہے تو کہیں نواب صادق محمد خان سوم کی آخری شب کو اسی شہر سے لائی ہوئی لاڈاں کی بیٹی ربیل کو طلاق دے کر قید میں ڈالنے کے بعد پھر اس کی طلب میں تڑپنے لگتا ہے، تو یہاں یہ مرد کی سرشت اس نظم کو الٹے کپڑے پہنا کر بتاتی ہے کہ یہ مرد اپنے مرنے کے بعد بھی اپنی شہوت کے آلات سے کسی طور حظ لینا چاہتے ہیں اور اس نظم کو اس ناول سے ملا کر پڑھنے سے نئی معنویت جنم لیتی ہے۔ اس ناول کو پڑھنے کی ترغیب شاید انھی کھانچوں سے ہی ملے جو میں نے جوڑے ہیں۔ اس ناول کو پڑھنا کم از کم ایک بہاول پوری کے لیے ایک مقامی ذمہ داری بنتی ہے اور ہر سرائیکی کے لیے تاریخی فریضہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments