تنگ ہوتا دائرہ


سرنگوں جیسی گلیاں، ڈربوں جیسے گھر۔ جائیں تو جائیں کہاں؟ سانس گھٹنے آتی ہے۔ کہیں باہر نکل کر کھلی فضا میں سانس لینے کا من کرتا ہے۔ کوئی ایسی جگہ جہاں درختوں کا گھنا سایہ ہو، بیچ شہر جنگل ہو اور اس میں ایک پگڈنڈی۔ جہاں دوڑتا بچہ خوشی سے کھلکھلاتا جائے۔ مگر ایسے نصیب ہمارے کہاں۔ دیواریں جب پیسنے لگتی ہیں تو باہر نکلنا پڑتا ہے اور جنگل میدان کی بات دور رہی باغ باغیچہ بھی میسر نہیں۔ مگر کیا کریں چار دیواری کی قید سے باہر نکلنا شوق کی جگہ مجبوری ہے۔

کوئی کتنی گھٹن سہہ پائے؟ ہمت مرداں مدد خدا اور اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے، کا وظیفہ دہرا کر محلے سے نکلا جاتا ہے لیکن ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو، والا معاملہ درپیش ہے۔ گھر سے تو نکل آئے پر گلی میں کھڑے گٹر کے پانی سے خود کو بچانا آپ کا نجی معاملہ ہے۔ ماہر رقاصہ کی طرح ٹھیک تال پر یہاں وہاں پاؤں دھرتے گلی سے پار ہو آئے پر شکر ادا کرنے کا وقت اب بھی نہیں ہوا۔ فٹ پاتھ کی فکر سامنے موجود ہے اور اس نام کی چیز کا ذکر تو مانو قصہ ماضی ہو گیا۔

کہیں کسی جگہ قسمت سے یہ اصل حالت میں باقی ملتی ہے ورنہ تو یوں اس کے کونے کچرہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ اگر کچرہ نہیں تو اسکوٹر سواروں کا قبضہ ہے۔ گاڑیاں تک فٹ پاتھ پر چڑھا رکھی ہیں۔ آپ وہاں سے یوں چلے جا رہے ہیں کہ دامن کشی کی فکر دامن گیر ہے۔ اب آپ جل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو، کا ورد کرتے کنارے سڑک کے چلنا شروع کریں۔ کچھ کھلا آسمان مل جائے شاید۔ سانس لینے میں آسانی ہو جائے۔ کوشش تو کی جا سکتی ہے آگے آپ کی قسمت۔

اگر انشورنس کروائی ہوئی ہے تو سڑک پار کرنے کی جرآت بھی کرلیں۔ ورنہ پاؤں پاؤں چلتے اینٹ سیمنٹ کے دم گھونٹنے والے جنگل میں گم ہو جائیں۔ دھواں اور آلودگی ہوگی۔ گندگی کے دھیڑ۔ کچرے میں تھوتھنیاں گھماتے جانور۔ کوئی کوئل کی کوک سنائی نہ دے گی۔ ہر طرف انجنوں کا سماعت شکن شور۔ خود ہی گھبرا کر اپنے ڈربے کا رخ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

سمجھ نہیں آتا الٰہی یہ ماجرا ہے کیا؟ نہ گھر گھر رہا نہ گلی گلی رہی۔ اک بے ہنگم معاملہ ہے جو گھر سے سڑک تک ہے، مجھ سے انتظامیہ تک ہے۔ گھر بنانا ہے تو یوں کہ کمرہ پر کمرہ بنا لیا۔ نہ حسن ترتیب نہ کوئی تعمیراتی نزاکت۔ نہ پھول اگانے کی جگہ باقی ہے نہ تازہ ہوا کے لئے کھڑکی ہے۔ نہ باغ نہ کوچہ۔ آنگن کا وجود تو چیز ہی الگ ہو گیا، شاید آنے والی نسل کے لئے آنگن صرف ایک لفظ کی صورت ہو۔ آسمان تک قسمت والوں کو میسر ہے۔

یہ کیسی شہریت ہے میاں؟ نہ پارک اپنا نہ میدان، نہ گھر نہ گلی، نہ سڑک نہ فٹ پاتھ۔ بچوں کے لئے باقی کیا چھوڑا ہم نے؟ وہ بھی کمرے کے قیدی بنے ہوئے ہیں۔ لے دے کر ایک اسکول نام کی چیز کو جاتے ہیں۔ اس کا حال دیکھیں تو وہ جیل بنی ہوئی ہے۔ ہر عمر کے بچوں کی جیل۔ جہاں بچے گھروں اندر قائم تنگ کمروں میں ٹھنسے رٹا مارے جا رہے ہیں۔ صلاحیت محدود تر اور سوچ زنگ آلود کواڑوں کے پیچھے مقفل۔ ان کی ورزش اور جسمانی کھیل کود کا وجود تک باقی نہ بچا۔ اسکول اندر نہ بہتر نصاب میسر ہے نہ کھیل کا میدان۔ جسم اور روح دونوں گھٹ کر بونے بنتے جا رہے ہیں۔ ایسا شہر کس کام کا؟ ایسا معاشرہ کس کام کا؟ اور معاف کیجئے ایسا انسان کس کام کا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).