صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی خفیہ ٹیپس کیا بتاتی ہیں؟


خاشقجی

میں ترکی کے شہر استنبول کے ایک پرسکون علاقہ میں تین رویہ سڑک کے کنارے چلتی ایک کریم رنگ کے بنگلے کے باہر پہنچی جو سی سی ٹی وی کیمروں سے لیس تھا۔

ایک برس قبل جلا وطن سعودی صحافی نے بھی یہ ہی راستہ چنا تھا۔ جمال خاشقجی کی ریکارڈنگ یہاں کے ایک سی سی ٹی وی کمیرے میں ہوئی تھی۔ یہ ان کی زندگی کی آخری تصاویر تھیں۔

وہ سعودی سفارتخانے میں داخل ہوئے اور قتل ہو گئے۔

مگر سفارتخانے میں ترکی کی خفیہ ایجنسی نے ریکارڈنگ کے آلات لگا رکھے تھے اور ان کو قتل کرنے کی تمام منصوبہ بندی اور واردات ریکارڈ ہوئی تھی۔

خاشقجی

اس ریکارڈنگ کو صرف چند لوگوں ہی نے سنا ہے۔ ان میں سے دو افراد نے اب بی بی سی کے پینورما پروگرام میں اس کی تفصیلات بتائی ہیں۔

برطانوی بیرسٹر بارونس ہیلینا کینیڈی نے جمال خاشقجی کے آخری لمحات کی ریکارڈنگ کو سنا تھا۔

‘کسی کی آواز کو سننے کا خوف، کسی کی آواز میں خوف اور یہ کہ آپ کچھ ایسا سن رہے ہیں جو براہ راست ہے اور کبھی ہوا تھا۔ یہ آپ کے پورے جسم میں کپکی طاری کر دیتا ہے۔‘

کینیڈی نے سعودی عرب کے قتل کرنے والے دستے کے ارکان کے درمیان ہونے والی گفتگو کو سن کر تفصیلی نوٹس مرتب کیے تھے۔

‘آپ ان کو ہنستا ہوا سن سکتے ہیں۔یہ ایک خوفناک کام تھا۔ وہ وہاں انتظار کر رہے تھے یہ جانتے ہوئے کہ وہ شخص وہاں آنے والا ہے اور اس کو قتل کر کے اس کے ٹکڑے کر دیے جائیں گے۔

خاشقجی

برطانوی بریسٹر بارونس ہلینا کینیڈی

کینیڈی کو اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے ماورائے عدالت قتل، ایگنس کالامارڈ کی سربراہی میں ایک ٹیم میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔

انسانی حقوق کی ماہر کالامارڈ نے مجھے، اقوام متحدہ کی طرف سے اس قتل کی بین الاقوامی سطح پر تحقیقات میں ہچکچاہٹ کے بعد، اس کی تحقیقات کے لیے خود اپنا مینڈیٹ استعمال کرنے کی خواہش کے بارے میں بتایا تھا۔

کالامارڈ کو ترکی کی خفیہ ایجنسی کو آمادہ کرنے میں ایک ہفتہ لگا کہ وہ انہیں، کینیڈی اور ایک عربی زبان کے مترجم کو یہ ریکارڈنگ سننے کی اجازت دیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘ترکی کی جانب سے ان ٹیپوں تک مجھے رسائی فراہم کرنے کا واضح مقصد، اس قتل کی منصوبہ بندی اور اس سے پہلے کے عوامل کو ثابت کرنے میں میری مدد کرنا تھا۔’

وہ ان دو اہم دنوں کی ریکارڈنگ میں سے 45 منٹ کی ریکارڈنگ سننے میں کامیاب ہوئیں۔

خاشقجی

اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ایگنس کالامارڈ

جمال خاشقجی قتل ہونے سے چند ہفتے قبل سے استنبول میں رہے تھے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں مشرق وسطیٰ میں حکومتوں کے مخالفین طویل عرصے سے پناہ لیتے رہے ہیں۔

59 سالہ طلاق یافتہ، چار بچوں کے والد نے حال ہی میں ترکی کی ایک ماہر تعلیم خدیجہ چنگیز سے منگنی کی تھی۔

وہ اس شہر میں ایک ساتھ اپنی زندگی گزارنے کے لیے پر امید تھے، لیکن اس شادی کے لیے، خاشقجی کو اپنی طلاق کے دستاویزات کی ضرورت تھی۔

28 سمتبر کو خاشقجی اور خدیجہ نے ترکی کے میونسپل دفتر کا دورہ کیا جہاں انھیں بتایا گیا کہ انھیں سعودی سفارتخانے سے طلاق کی دستاویزات لینے کی ضرورت ہے۔

جب میں نے ایک کیفے میں خدیجہ سے ملاقات کی تو انھوں نے مجھے بتایا ‘یہ آخری حل تھا۔ خاشقجی کو وہ دستاویزات لینے کے لیے سفارتخانے جانا تھا تاکہ ہم شادی کر سکیں، کیونکہ وہ اپنے وطن واپس نہیں جا سکتے تھے۔

اپنے ہی ملک سے جلاوطن خاشقجی ہمیشہ سے سعودی عرب کے غیض و غضب کا شکار نہیں تھے۔ میری 15 برس قبل ان سے لندن کے مے فیئر کے علاقے میں موجود سعودی سفارتخانے میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت وہ سعودی اسٹیبلشمنٹ کے قریب اور وہ سعودی حکومت کے مشیر تھے۔

خاشقجی

جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیزی

ہم نے القاعدہ کے حالیہ دہشت گرد حملے پر تبادلہ خیال کیا۔ خاشقجی کئی دہائیوں سے اس حملے کے سعودی لیڈر اسامہ بن لادن کو جانتے تھے۔ ابتدا میں خاشقجی کو القاعدہ کے مشرق وسطیٰ کی آمرانہ حکومتوں کو ختم کرنے کے مقصد کے لیے کچھ ہمدردی تھی۔

مگر بعدازاں، وہ اس گروہ کی سفاکانہ کارروائی کے خلاف بات کرتے تھے کیونکہ وہ آزاد خیال اور جمہوریت پسند ہو گئے تھے۔

سنہ 2007 میں وہ حکومت نواز اخبار الوطن میں کام کرنے کے لیے وطن واپس آئے۔ لیکن تین سال بعد انھیں ملازمت سے برطرف کردیا گیا جس کی وجہ انھوں نے حساس موضوعات کو زیر بحث لانا بتایا تھا۔

سنہ 2011 تک عرب سپرنگ کے واقعات سے متاثر ہو کر خاشقجی نے سعودی حکومت کے خلاف بات کرنا شروع کر دی تھی جسے وہ ظالمانہ اور آمرانہ نظام سمجھتے تھے۔ سن 2017 میں ان کے لکھنے پر پابندی لگ گئی اور وہ خود ساختہ جلا وطنی میں چلے گئے۔ ان کی اہلیہ کو طلاق پر مجبور کر دیا گیا۔

خاشقجی

خاشقجی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھنے لگے اور اپنی موت سے قبل ایک سال میں انھوں نے 20 سخت کالم لکھے تھے۔

واشنگٹن پوسٹ کے ایک سینیئر صحافی اور خاشقجی کے دوست ڈیوڈ ایگنیٹیس کا کہنا ہے کہ ‘جب وہ سعودی سلطنت میں ایڈیٹر تھے تو وہ حد سے پار کر جاتے تھے۔’

‘جو میں نے جمال میں دیکھا کہ ’وہ اپنے دل کی بات کہنے کی وجہ سے خود کو مشکل میں ڈال لیتے تھے۔’

خاشقجی

خاشقجی کی زیادہ تر تنقید کا ہدف نئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہوتے تھے۔

محمد بن سلمان کو مغرب میں بہت سے لوگ پسند کرتے ہیں۔ انھیں ایک ماڈرن اور اصلاح پسند رہنماء کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

لیکن اپنے ملک سعودی عرب میں وہ اختلاف رائے کو ختم کر رہے تھے اور خاشقجی انھیں خبروں کو واشنگٹن پوسٹ کے صفحات میں اجاگر کر رہے تھے۔

لیکن یہ وہ تصویر نہیں تھی جو سعودی شہزادہ دنیا کے سامنے لانا چاہتے تھے۔

خاشقجی

ایگنیٹیس کا، جو باقاعدگی سے سعودی عرب جاتے ہیں اور اس کی سیاست کے بارے میں لکھتے ہیں، کہنا ہے کہ ‘مجھے لگتا ہے کہ ولی عہد شہزادے کو اس بات نے مشتعل کر دیا اور وہ اپنے ساتھیوں سے اس ‘جمال مسئلے’ کے بارے میں کچھ کرنے کو کہتے رہے۔ ‘

استنبول میں سعودیوں کو خاشقجی کے بارے میں ‘کچھ کرنے’ کا موقع مل گیا۔ ان کے سعودی سفارتخانے کے پہلے دن کے دورے پر خدیجہ چنگیزی کو باہر ہی رکنا پڑا۔

وہ یاد کرتی ہیں کہ خاشقجی سفارتخانے کی عمارت سے مسکراتے ہوئے باہر آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ حکام انھیں دیکھ کر حیران رہ گئے اور انھیں چائے اور کافی کی پیش کش کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’خوفزدہ ہونے کی کوئی بات نہیں ہے، وہ اپنے ملک کو بہت یاد کرتے تھے اور انھیں ایک مانوس ماحول میں جا کر خوشی کا احساس ملا تھا۔’

خاشقجی کو کچھ دنوں میں دوبارہ آنے کا کہا گیا۔

لیکن جیسے ہی وہ وہاں سے نکلے، سعودی عرب کے شہر ریاض میں ٹیلیفون کالز کی جا رہی تھیں۔ یہ سب ترکی کی خفیہ ایجنسی نے ریکارڈ کیا تھا۔

کالامارڈ کا کہنا ہے کہ ‘اس فون کال کے بارے میں سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ خاشقجی کو مطلوب افراد میں سے ایک شخص کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا۔‘

پہلی فون کال کے بارے میں گمان ہے کہ وہ سعودی حکومت کے طاقتور مشیر سعود القحطانی کو کی گئی تھی جو ولی عہد محمد بن سلمان کے ’رابطہ دفتر‘ کے امور دیکھتے تھے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ‘سعودی دفتر مواصلات میں سے کسی نے اس قتل کا حکم جاری کیا۔ اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ جہاں وہ دفتر مواصلات کا لفظ استعمال کر رہے ہیں اس کا مطلب سعود القحطانی ہے۔’

‘ان کا نام دیگر افراد کے خلاف کارروائیوں میں بھی سامنے آتا رہا ہے۔’

القحطانی پر پہلے ہی یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ سعودی حکومت کے مخالفین کی گرفتاری اور تشدد میں ملوث تھے مثلاً ایسی خواتین کارکنان جنھوں نے پابندی ختم ہونے سے پہلے ہی گاڑی چلانے کی ہمت کی تھی اور چند اعلیٰ سطحی افراد جن پر غداری کا شبہ تھا۔

خاشقجی نے اپنی تحریروں میں القحطانی پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے ایک ‘بلیک لسٹ’ چلانے کا الزام عائد کیا تھا۔

صحافی ایگنیٹیس کا کہنا ہے کہ ‘القحطانی نے غیر معمولی کارروائیاں اور خفیہ آپریشن کرنا شروع کر دیے تھے۔’ ‘یہ ان کی ذمہ داریوں کا حصہ بن گیا اور وہ اس پر بہت بے رحمی سے عمل کرتے تھے۔‘

28 ستمبر کو سعودی شہر ریاض اور ترکی میں موجود سعودی سفارتخانے کے مابین کی جانے والی کم از کم چار ٹیلی فون کالز کی ریکارڈنگز موجود ہیں۔ ان فون کالز میں قونصل جنرل اور سعودی وزارت خارجہ کے سکیورٹی کے سربراہ کے مابین گفتگو بھی شامل ہے۔ جس میں انھوں نے ایک خفیہ مشن کی منصوبہ بندی کے بارے میں بتایا جسے ’قومی فرض‘ کا نام دیا گیا۔

کینیڈی کا کہنا ہے کہ ‘انھیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک بہت منظم مشن تھا جس کے احکامات اوپر سے آئے تھے۔’

‘ یہ کوئی بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والا منصوبہ نہیں تھا۔’

یکم اکتوبر کی دوپہر سعودی خفیہ ایجنسی کے تین اہلکار استنبول پہنچے تھے۔ جن میں سے دو کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ولی عہد کے دفتر میں کام کرتے تھے۔

کالامارڈ کا خیال ہے کہ وہ جاسوسی اور ریکی کے مشن پر تھے۔

‘وہ ممکنہ طور پر سفارتخانے کی عمارت کا جائزہ لینے اور یہ دیکھنے آئے تھے کے کیا کیا جاسکتا ہے اور کیا نہیں۔’

استنبول کے ایک پرسکون اور سایہ دار ٹیرس پر جہاں سے آبنائے باسفورس دیکھائی دے رہی تھی، میری ملاقات ترکی کے ایک سابق انٹیلیجنس افسر سے ہوئی جن کا 27 سالہ تجربہ ہے۔

خاشقجی

میتن ارسوش

میتن ارسوش سعودی عرب اور اس کے خصوصی آپریشن مشنز کے ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سعودی عرب کی خفیہ ایجنسیاں مزید متحرک ہوگئیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘انھوں نے مخالفین کو اغوا کرنا اور ان پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔’

‘خاشقجی کو خطرات بھانپنے اور اس کے بارے میں حفاظتی اقدامات کرنے میں وقت لگا اور انھوں نے اس کی بھاری قیمت ادا کی۔’

2 اکتوبر کی علی الصبح، ایک پرائیویٹ طیارہ استنبول کے ہوائی اڈے پر اترا۔ اس میں ڈاکٹر صلاح ال تیبیگی نامی فرانزک پیتھالوجسٹ سمیت نو سعودی اہلکار سوار تھا۔

ان کی شناخت اور پس منظر کی تحقیق کے بعد کالامارڈ کا خیال ہے کہ وہ ہی خاشقجی کو قتل کرنے والا سعودی دستہ تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘اس کارروائی کو حکومتی اہلکاروں نے انجام دیا تھا، وہ اپنی سرکاری حیثیت میں کام کر رہے تھے۔’

‘ان میں سے دو کے پاس ڈپلومیٹک پاسپورٹ تھا۔’

خاشقجی

ڈاکٹر صلاح ال تیبیگی

ارسوش کہتے ہیں کہ اس طرح کی خاص کارروائی کے لیے سعودی عرب کے بادشاہ یا ولی عہد سے اجازت لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔

سعودی اہلکار سفارتخانے سے چند قدم کے فاصلے پر قائم عالیشان موون پک ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے۔

صبح دس بجے سے کچھ پہلے سی سی ٹی وی کی ریکارڈنگ میں ان میں سے ایک اہلکار کو سعودی سفارتخانے میں داخل ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔

ریکارڈنگ ٹیپس کو سن کر کینیڈی کا خیال ہے کہ اس کارروائی کی سربراہی کرنے والا شخص مہر عبدالعزیز مطرب تھا۔

مطرب کو ولی عہد کےساتھ سفر کرتے ہوئے اکثر دیکھا گیا ہے جب وہ ان کے پیچھے ان کی سکیورٹی سکواڈ کا حصہ ہوتے ہیں۔

کینیڈی کا کہنا ہے کہ ‘قونصل جنرل اور مطرب کے مابین ہونے والی بات چیت میں اس حقیقت کا ایک حوالہ موجود ہے جس میں کہا گیا کہ ‘ہمیں اطلاع موصول ہوئی تھی کہ خاشقجی منگل کو آنے والے ہیں۔’

بعد ازاں 2 اکتوبر کی صبح ، خاشقجی کو فون کال موصول ہوئی کہ وہ اپنی دستاویزات کے لئے قونصل خانے آئیں۔

جب وہ اور خدیجہ قونصل خانے کی طرف جارہے تھے تو مطرب اور فارنزک پیتھالوجسٹ ڈاکٹر التوبیگی کے درمیان سفارتخانے میں ایک حیرت انگیز اور حیران کن فون گفتگو ہو رہی تھی۔

کینیڈی بتاتی ہیں کہ ‘ وہ بات کرتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم کب کر رہے ہیں۔ آپ ان کو ہنستا ہوا سن سکتے ہیں۔’

وہ کہتے ہیں ‘میں جب انسانی لاش کاٹ رہا ہوں تو اکثر موسیقی سنتا ہوں اور کبھی کبھی تو میرے ہاتھ میں کافی اور سگار بھی ہوتا ہے۔’

کینیڈی کے مطابق اس کے بعد ریکارڈنگ ٹیپس سے انکشاف ہوتا ہے کہ ڈاکٹر جانتے تھے کہ انھیں کیا کرنا ہے۔

وہ انھیں یہ کہتے ہوئے یاد کرتی ہیں کہ ‘ یہ میری زندگی میں پہلی مرتبہ ہوگا کہ مجھے زمین پر ٹکڑے کاٹنا ہوں گے۔’

‘اگر آپ قصائی بھی ہوں تو آپ ایسا کرنے کے لیے جانور کو لٹکاتے ہیں۔’

خاشقجی

سفارتخانے کے اوپر والے حصہ کو اس کام کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ فرش کو پلاسٹک شیٹس کے ساتھ ڈھانپ دیا گیا تھا۔اس دن تمام مقامی ترک عملے کو چھٹی دے دی گئی تھی۔

کینیڈی کا کہنا ہے ‘وہ اس بارے میں بات کر رہے تھے۔۔۔۔خاشقجی کب پہنچے گے اور انھوں نے کہا کیا قربانی کا بکرا پہنچ گیا ہے؟ ایسے وہ انھیں مخاطب کر رہے تھے۔’

وہ اپنی نوٹ بک سے پڑھ رہی تھیں اور ان کی آواز میں خوف تھا۔

سی سی ٹی وی ریکارڈنگ میں دوپہر سوا ایک بجے خاشقجی کو سعودی سفارتخانے کی عمارت میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

خدیجہ کا کہنا ہے کہ ‘مجھے یاد ہے جب ہم ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چلتے ہوئے سفارتخانے کی عمارت کے سامنے پہنچے، جمال نے مجھے اپنے فون دیے اور کہا کچھ دیر میں ملاقات ہوتی ہیں تم یہیں میرا انتظار کرو۔’

خاشقجی جانتے تھے کہ ان کے فون سفارتخانے کے داخلے پر لے لیے جائیں گے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ سعودیوں کو ان کی نجی معلومات تک رسائی حاصل ہو۔

ٹیپس کی ریکارڈنگ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی ملاقات ایک استقبالیہ کمیٹی سے ہوئی اور انھیں بتایا گیا کہ ان کی گرفتاری کے لیے انٹرپول کا وارنٹ موجود ہے اور انھیں سعودی عرب واپس جانا ہوگا۔

خاشقجی

انھیں اپنے بیٹے کو یہ پیغام بھیجنے سے انکار کرتے سنا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اہلخانہ کو یہ یقین دہانی کروا دیں کہ وہ خیریت سے ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کی خاموشی شروع ہوتی ہے۔

کینیڈی کہتی ہیں کہ ‘ایک وقت ایسا آتا ہے جب آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ خاشقجی ایک پر اعتماد شخص سے ایک خوفزدہ شخص بن جاتے ہیں۔ انھیں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ کچھ بہت مہلک ہونے والا ہے ان کی آواز میں بڑھتی پریشانی اور دہشت سن سکتے تھے۔’

وہ مزید بتاتی ہیں کہ ‘ان کی بدلتی آواز میں ایک ہیبت ہے جو سننے والے کے رونگٹے کھڑے کر دے۔ ان پر کیے جانے والا ظلم اس ریکارڈنگ میں ظاہر ہو جاتا ہے۔’

کالامارڈ کو اس بارے میں یقین نہیں ہے کہ خاشقجی سعودیوں کے منصوبے سے کتنے آگاہ تھے۔

‘مجھے علم نہیں کہ آیا وہ سمجھتے تھے کہ انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ لیکن انھیں یہ یقین تھا کہ وہ انھیں اغوا کرنے کی کوشش کر سکتے تھے۔ وہ ان سے پوچھ رہے ہیں کیا تم لوگ مجھے ٹیکہ لگاؤ گے جس پر انھیں بتایا گیا کہ جی بالکل۔’

کینیڈی کا کہنا ہے کہ انھوں نے خاشقجی کو دو مرتبہ یہ کہتے سنا کہ کیا انھیں اغوا کیا جا رہا ہے اور پھر وہ کہتے ہیں کہ ‘سفارتخانے میں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔’

خاشقجی

کالامارڈ کا کہنا ہے کہ ‘اس لمحے کے بعد سنائی دینے والی آوازیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان کا سانس بند کیا گیا۔ شائد پلاسٹک بیگ ان کے منہ پر ڈال دیا گیا۔’

‘ان کا منہ بھی بند کر دیا گیا تھا، پرتشدد طریقہ سے شاید ان کے منہ پر ہاتھ یا کچھ اور رکھ دیا گیا تھا۔’

کینیڈی کا ماننا ہے کہ اس کے بعد فرانزک پتھالوجسٹ نے ٹیم کے سربراہ کے احکامات ملنے کے بعد کنٹرول سنبھال لیا۔

‘آپ کو ایک آواز سنائی دے رہی ہے، اسے کاٹنے دو۔ اور یہ مطرب کی آواز لگتی ہے۔’

‘پھر کوئی چیختا ہے یہ ختم ہوا اور پھر کسی کی آواز آتی ہے اسے لے جاؤ، اسے لے جاؤ۔ یہ اس کے سر پر ڈالو۔ اسے لپیٹو۔ میں صرف یہ اندازہ لگا سکتی ہوں کہ انھوں نےاس کا سر قلم کر دیا تھا۔’

خدیجہ کے لیے، خاشقجی کو اسے سفارتخانے کے باہر چھوڑے ابھی صرف آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا۔

خاشقجی

ان کا کہنا ہے ‘اس دوران میں اپنے مستقبل خواب سجا رہی تھی کہ ہماری شادی کیسی ہوگی، ہم ایک چھوٹی تقریب کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔’

تقریباً دوپہر تین بجے سی سی ٹی وی ویڈیو میں سفارتخانے کی گاڑیوں کو قونصلر جنرل کی رہائشگاہ میں، جو صرف دو گلیاں چھوڑ کر ہے، آتے جاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

تین افراد سوٹ کیسز اور پلاسٹک کے بیگز لے جاتے داخل ہوتے ہیں۔ کالامارڈ کا خیال ہے کہ شاید ان میں خاشقجی کے جسم کے اعضا کو رکھا گیا تھا۔

اس کے بعد ایک گاڑی آتی ہے۔ خاشقجی کی نعش کبھی نہیں ملی۔

اور قتل میں جسم کو ٹکڑوں میں کاٹنے کے لیے آرے کے استعمال کے بارے میں خبریں جو اس وقت آئی تھیں ان کی حقیقت کیا ہے؟

کینیڈی کا کہنا ہے کہ انھوں نے ٹیپ پر اس قسم کی آواز کو نہیں سنا۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ وہاں ایک ہلکی بھنبھناہٹ کی آواز تھی۔ ترک انٹیلیجنس حکام کا خیال ہے کہ یہ آواز آرے کی تھی۔

سہ پیر تین بج کر 53 منٹ پر سی سی ٹی وی ریکارڈنگ میں قتل کرنے والے سکواڈ کے دو ارکان قونصل خانے سے نکلتے ہوئے دکھائی دیے۔

میں نے ان کے اس سفر کا جائزہ لیا جو انھوں نے کیمروں سے بچتے ہوئے سفارتخانے سے استنبول کے وسط تک کیا تھا۔

ایک شخص خاشقجی کے کپڑوں میں ملبوس تھا لیکن اس نے مختلف جوتے پہنے ہوئے تھے۔ دوسرے شخص نے جس کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا ایک سفید رنگ کا پلاسٹک بیگ اٹھایا ہوا تھا۔

خاشقجی

وہ استنبول کی مشہور سلطان احمد مسجد کی طرف بڑھے۔ جب وہ دوبارہ نظرآئے تو وہ شخص جو پہلے خاشقجی کے لباس میں ملبوس تھا تبدیل ہو چکا تھا۔

انھوں نے ہوٹل واپس جانے سے پہلے قریب ہی پڑے ایک کوڑے دان میں پلاسٹک کا بیگ پھینکتے ہوئے خاشقجی کے کپڑے رکھنے کے بارے میں سوچا۔ انھوں نے ہوٹل واپس جانے کے لیے ٹیکسی کو کرائے پر لیا۔

کالامارڈ کہتی ہیں کہ ‘یہاں یہ تاثر دینے کے لیے بہت منصوبہ بندی کی گئی کہ خاشقجی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔’

اس تمام وقت کے دوران خدیجہ اب بھی سفارتخانے کے باہر انتظار کر رہی تھیں۔

‘میں نے ساڑھے تین بجے تک وہیں انتظار کیا۔ پھر جب مجھے معلوم ہوا کہ قونصل خانہ بند ہوچکا ہے تو میں اس کی طرف بھاگنے لگی۔ میں نے پوچھا کہ جمال کیوں باہر نہیں آئے؟ ایک گارڈ نے مجھے بتایا کہ وہ نہیں جانتا کہ میں کس کے بارے میں بات کر رہی ہوں۔’

سہ پہر 4 بج کر 41 منٹ پر خدیجہ بے چین تھیں اور انھوں نے خاشقجی کے ایک پرانے دوست کو فون کیا۔ جس کے بارے میں خاشقجی نے انھیں کبھی کسی مسئلے میں پھنس جانے پر رابطہ کرنے کے لیے کہا تھا۔

خاشقجی

ڈاکٹر یاسین اقتائی

ڈاکٹر یاسین اقتائی، ترکی کی حکمران جماعت کے رکن ہیں اور ان کے اعلیٰ سطح پر تعلقات ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘مجھے ایک نامعلوم نمبر سے ایک خاتون کی گھبرائی ہوئی آواز میں کال موصول ہوئی جسے میں نہیں جانتا تھا۔’

‘ اس نے کہا میرا منگیتر جمال خاشقجی سعودی قونصل خانے میں گیا تھا اور باہر نہیں آیا۔’

یاسین نے فوری طور پر ترکی کی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ کو فون کیا اور ترک صدر رجب طیب اردغان کے دفتر کو بھی خبردار کیا۔

شام ساڑھے چھ بجے تک سعودی عرب کے قتل کرنے والے دستے کے ارکان ریاض جانے کے لیے پرائیویٹ طیارے پر سوار تھے اور ترکی آنے کے 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں وہ واپس پہنچ چکے تھے۔

خاشقجی

اگلے ہی دن سعودی اور ترک حکومتوں نے قونصل خانے کے اندر ہونے والے واقعات کے بارے میں متضاد بیانات جاری کیے۔ سعودی عرب نے اصرار کیا کہ خاشقجی نے قونصل خانے چھوڑ دیا ہے۔ ترکوں نے کہا کہ وہ ابھی بھی اندر ہے۔

ترکی کی انٹیلی جنس ایجنسی قونصلیٹ کی ریکارڈنگ کی پہلے سے ہی جانچ کر رہی تھی۔ اس میں خاشقجی کے لاپتہ ہونے سے چار دن پہلے کی گئی کالز بھی شامل تھیں۔

تو کیا انھیں اس وقت معلوم تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور اگر ایسا ہے تو انھوں نے اسے متنبہ کیوں نہیں کیا؟

کالامارڈ کا کہنا ہے کہ ‘مجھے نہیں لگتا کہ وہ جانتے تھے۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ جو کچھ ہوا اس کو انہوں نے براہ راست سنا۔’

‘اس طرح کی انٹیلیجنس روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے اور کیونکہ کچھ ہوا اس لیے انھوں نے دوبارہ سے ریکارڈنگ ٹیپس کا جائزہ لیا۔ صرف اس لیے کہ خاشقجی کو مار دیا گیا اور وہ غائب ہوگئے، انھوں نے ٹیپس کا دوبارہ جائزہ لیا۔’

ارسوش مجھے بتاتے ہیں کہ ان کے سابق انٹلیجنس ساتھیوں نے ٹیپوں کا واقعہ کے آغاز سے جائزہ لیا اور 4000 سے 5000 گھنٹوں کے مواد کو سنا اور 45 منٹ کی ریکارڈنگ کالامارڈ اور کینیڈی کو پیش کی۔

خاشقجی کی ہلاکت کے چار دن بعد ایک اور سعودی ٹیم یہ دعویٰ کرتے ہوئے پہنچ گئی کہ وہ یہ جاننے کے لیے آئے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔

کالامارڈ کا خیال ہے کہ وہ اصل میں ثبوت مٹانے والی ٹیم تھی۔ قونصل خانہ بین الاقوامی قانون کے تحت سعودی علاقہ ہے اور دو ہفتوں تک سعودیوں نے ترک تفتیش کاروں کو داخلے کی اجازت نہیں دی۔

خاشقجی

کالامارڈ کا کہنا ہے کہ ‘جب تک وہ کچھ ثبوت اکٹھا کرنے کی پوزیشن میں آئے، وہاں کچھ بھی نہیں تھا، یہاں تک کہ خاشقجی کے ڈی این اے کے شواہد بھی موجود نہیں تھے۔’

‘اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس جگہ کو تمام شواہد مٹا کر مکمل طور پر صاف کیا گیا تھا۔’

اس شام ترک حکام نے میڈیا کو بتایا کے خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں قتل کیا جا چکا ہے۔

خدیجہ چنگیزی کہتی ہے کہ ‘جمال اس سب کے مستحق نہیں تھے، وہ اس سے بہت بہتر کے حق دار تھے۔’

‘جس انداز سے انھوں نے انھیں قتل کیا ہے، اس نے میری زندگی کی تمام امیدوں کا قتل کر دیا ہے۔’

استنبول میں سفارتی استثنیٰ کے ساتھ ایک سفارت خانے کے اندر ہونے والی ہلاکت نے ترک حکام کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔

ہفتوں تک ترکوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود، سعودیوں نے اس قتل کو یہ کہتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ پہلے قونصل خانے میں ‘ہاتھا پائی’ ہوئی تھی اور پھر یہ دعویٰ کیا گیا کہ ‘اس کارروائی کی اجازت نہیں’ دی گئی تھی۔

ترک حکام کی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ مقامی اور بین الاقوامی پریس کو جو کچھ جانتے تھے ان میں سے کچھ بتادیں۔ اس کے بعد انھوں نے سی آئی اے اور ایم آئی6 سمیت کچھ خاص انٹلیجنس ایجنسیوں کے نمائندوں کو یہ ثابت کرنے کے لیے مدعو کر کے، ٹیپ سنوائے کہ خاشقجی کا قتل سعودی ریاستی اہلکاروں نے کیا تھا۔

سی آئی اے اطلاعات کے مطابق اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ اس میں ‘درمیانے درجے سے اعلیٰ درجے کی یقین دہانی’ تھی کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے اس قتل کا حکم دیا تھا۔ انھوں نے کانگریس اراکین کو آگاہ کیا جنھیں ان نتائج کے بارے میں کوئی شک نہیں تھا۔

جنوری میں سعودی حکومت نے ریاض میں 11 افراد کو خاشقجی کے قتل کے مقدمے میں شامل کیا۔ جن میں مطرب اور ڈاکٹر التوبیگی بھی شامل تھے لیکن ان میں مبینہ ماسٹر مائنڈ سعود القحطانی شامل نہیں تھے۔

ان پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی اور نہ ہی انہیں عدالت میں گواہی کے لیے عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اسے اپنے کنبے سمیت ہر ایک سے الگ تھلگ رکھا گیا ہے، لیکن وہ ابھی بھی ولی عہد شہزادے سے رابطے میں ہیں۔

خاشقجی

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے لیے کالمارڈ کی رپورٹ نتیجہ اخذ کر چکی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘بین الاقوامی قانون کے تحت اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس جرم کو ریاستی قتل کے علاوہ کچھ اور قرار دیا جا سکتا ہے۔’

کینیڈی کا کہنا ہے کہ خاشقجی کے قتل کی ٹیپوں کے انکشافات پر کارروائی ہونی چاہئے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘اس سفارت خانے میں کچھ ناقابل یقین اور ہولناک واقعہ ہوا۔ عالمی برادری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ سطح کی عدالتی تحقیقات پر زور دے۔’

ترکی نے استنبول میں مقدمے چلانے کے لیے ملوث افراد کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن سعودی عرب نے انکار کردیا ہے۔

سعودی حکومت نے بی بی سی پینورما کو انٹرویو دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس نے’گھناؤنے قتل’ کی مذمت کی ہے اور وہ مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کے لیے پرعزم ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ ولی عہد شہزادے کا اس ‘گھناؤنے جرم’ کے ساتھ ‘کوئی تعلق نہیں ہے۔’

ایک سال کے بعد کیفے سے نکلتے ہوئے میں اس عورت کی تکلیف دیکھ سکتی ہوں جس کے منگیتر کی زندگی اتنی بے دردی سے ختم کر دی گئی تھی۔

مجھے سے اپنے الواداعی کلمات میں خدیجہ نے جمال خاشقجی کے قتل کی حقیقی اہمیت سے خبردار کیا۔

‘یہ سانحہ صرف میرے لیے ہی نہیں ہے، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔ ان تمام لوگوں کے لیے جو جمال کی طرح سوچتے ہیں اور اپنے مؤقف پر ڈٹ جاتے ہیں۔’

خاشقجی

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32567 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp