صرف حسن کی بنیاد پر محبت کیسے ہو سکتی ہے؟


بانو آپا کی یہ بات کہ ہمیں اپنے بچوں کو سکھانا ہے کہ ”جب چار سو خوبصورت لڑکیاں ہو گی تو ایک کے ساتھ کیسے گزارا کرنا ہے“ اگر بچوں کو سمجھا دی جائے تو آج کے نوجوانوں کا محبت کا فلسفہ ریت کے گھروندے کی ماند زمین کو سرک جائے۔ کافی دیر سے یہ سوال ذہن میں اٹھتا چلا آ رہا کہ صرف خوبصورتی کی بنیاد پر کسی سے محبت کیسے کی جا سکتی ہے؟ جس کسی دوست سے پوچھوں کہ اچھا تمہیں اس لڑکی میں کیا نظر آیا ہے جو یوں اتاؤلے ہو رہے ہو تو جھٹ سے جواب آتا ہے، ہے یار وہ پیاری ہے۔

اور ہاں عام خام پیاری نہیں کلاس کی سب سے پیاری لڑکی ہے۔ اس کے علاوہ حرام ہے کسی نے کبھی کوئی اور وجہ بتائی ہو۔ کیا زمانے میں پنپنے کو یہی کچھ ہے! پانچ لڑکوں سے پوچھ لوں تو پانچوں کا یہی جواب ہے کہ بس ”وہ“ سب سے پیاری۔ اس سے لڑکیاں اپنی خوش فہمی دور کر لیں کہ ایک ساتھ سب سب سے زیادہ پیاری کیسے ہو سکتی ہیں؟ حسن کی کوئی معین تعریف ہے نا کوئی ماپنے کا پیمانہ ہے۔ بس ایک آکسیٹوسن کا شوٹ ہے جو پہلی نظر میں ہوتا ہے اور کچھ دن تک افیکٹو رہتا ہے۔ اس محبت کی ”حیثیت“ اتنی سی ہے کہ سال دو بعد جب ان سے پوچھوں کہ تمہاری مِس یونیورس کا کیا بنا تو آگے سے ایسے گھورتے ہیں جیسے وردی والے ہم خاک نشینوں کو ووٹ کی عزت کے سوال پر گھورتے ہیں!

تمہیں اس سے محبت کیوں ہے کہ جواب میں کوئی ہہ کیوں نہیں کہتا کہ ہم دونوں کو فیض پسند ہیں اس لیے ذہنی مطابقت ہے۔ کوئی یہ کیوں نہیں کہتا اس کے اور میرے عقائد ایک جیسے ہیں اس لیے محبت ہے۔ وہ سیکولر ہے تو میں بھی سیکولر ہوں یا وہ مذہبی قسم کی ہے تو میں بھی مذہبی ہوں۔ کوئی یہ کیوں نہیں کہتا کہ ہم دونوں مڈل کلاس سے ہیں اور ایک جیسی مشکلات جھیل کر اس عمر تک پہنچے ہیں تو ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ محبت ہو گئی ہے۔ کوئی یہ کیوں نہیں کہتا کہ وہ مجھ سے زیادہ تقوے والی ہے اس لیے مجھے اس کے حصول کی خواہش ہے!

ایف۔ ایم۔ ایچ چھوٹا سا ہے۔ مین گیٹ سے کالج گیٹ تک ایک حسین چہرہ ہے۔ کالج گیٹ سے سیڑھیوں تک ایک اور حسین چہرہ ہے۔ دوسرے فلور تک جاتے جاتے مزید حسین چہرے ہیں اور ”چوائس“ قدرے مشکل ہے۔ تو کیا اس دو منٹ کے فاصلے میں تم لوگوں کو تین چار دفعہ محبت ہو جاتی ہے؟ واقعی؟ عجیب نہیں ہے؟

جب محبت صرف حسن کی بنیاد پر ہے تو اس کے مقدر میں ختم ہونا لکھ دیا گیا ہے۔ جب کوئی لڑکا کسی لڑکی سے محبت کے وعدے وعیدیں اس بات پر کر رہا ہے کہ وہ خوبصورت ہے تو اُسے یہ نظر کیوں نہیں آتا کہ اس سے ”زیادہ“ حسین لڑکیاں بھی ساتھ والی کلاس، ساتھ والی یونیورسٹی اور گھر کے ساتھ ڈی بلاک میں موجود ہیں اور کل کو اسے وہ بھی پسند آ سکتی ہیں؟ پھر ان وعدے وعیدوں کہ حیثیت ایک ”وقتی“ احساس سے بڑھ کر کیا ہے؟ کیا اتنی سی بات پر کسی پر اپنے جذبات کی ”انویسٹمینٹ کی“ کی جا سکتی ہے؟

( ہاں صحیح سوچا، ٹائم پاس تو ہو سکتا ہے! ) کیا دس سال بعد بھی حسن ویسا ہی رہنا ہے؟ کیا کسی حسن کو دوام حاصل ہے؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ حسن جانے کے بعد کس طرح کمپرومائز کرنا ہے۔ زندگی کے آخری بیس سال کن بنیادوں پر اکٹھے رہنا ہے۔ اس عمر میں ہمیں یوں لگتا ہے کہ محبت ایک ”احساس“ ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں محبت ایک احساس نہیں بلکہ ”چوائس“ کا نام ہے۔ کسی بھی ایسے شادی شدہ جوڑے سے پوچھئے جس نے ساتھ میں دس سال بتا لئے ہوں۔

وہ بتائیں گے کہ یہ چوائس کس طرح ہے۔ ہر صبح اٹھ کر سوچنا ہوتا ہے کہ ہم اس شخص کے ساتھ کن بنیادوں پر رہ رہے ہیں۔ اچھے اور خوشگوار دنوں میں یہ چوائس ذرا آسان ہوتی ہے، برے دنوں میں ساتھ رہنے کی چوائس قدرے مشکل ہوتی ہے اور انسان کسی دوسرے سہارے کا سوچتا ہے۔ اگر رشتے کی بنیادیں ذہنی ہم آہنگی پر رکھی جائیں تو تو سال میں خوشگوار دن زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر صرف حسن کی بنیاد پر رکھی جائیں تو بعد میں شکوے ہیں کہ میاں صاحب دوسری طرف فلرٹ کر رہے ہیں۔ میاں صاحب سے پوچھ لیں کہ آپ کے تو اپنے دور کی مِس یونیورس سے چار بچے ہیں تو اب کس منہ سے فلرٹ کر رہے ہیں تو پتا ہے اگے سے کیسے گھورتے ہیں؟ جیسے وردی والے ہم خاک نشینوں کو ووٹ کی عزت کے سوال پر گھورتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).