خزاں کا پانی نئے معانی نہیں سمجھتا


 \"wajahat1\"سوالات کا موسم ہے۔ پرانا ذہن ہر سوال کا جواب دینے کا دعویٰ رکھتا تھا۔ نیا ذہن پرانے جوابات پر سوال اٹھانے کی صلاحیت کا نام ہے۔ یہاں حتمی جواب فنا کا اشارہ ہے اور سوال زندگی کے تسلسل کی ضمانت دیتا ہے۔ ہمارے ہر دلعزیز رہنما عمران خان دو نومبر کو اسلام آباد میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ کوئٹہ میں ساٹھ سے زیادہ زیر تربیت محافظ شہید کر دئیے گئے ہیں۔ انگریزی اخبار میں چھپنے والی ایک خبر تین ہفتے سے قدوسی دلوں میں کھٹک رہی ہے۔ مشرقی ہمسائے کے ساتھ جھگڑے کی آنچ سے کیتلی سنسنا رہی ہے۔ اس دوران کچھ خبریں آئی ایم ایف کی خاتون سربراہ نے معیشت کے بارے میں دی تھیں، انہیں نظر انداز کرنا ہی مناسب ہے کیونکہ روٹی روزی کی باتیں تو فانی انسانوں کو زیب دیتی ہیں۔ نظریاتی سپاہ اپنی حقانیت کا جھنڈا گاڑ لے گی تو روٹی روزگار کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ کھیتی باڑی اور محنت مزدوری مغلوب ہونے والوں کو زیب دیتی ہیں۔ ہم تو فتح کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلیں گے اور مالیانہ، آبیانہ، تازیانہ اور دیگر محصولات سمیٹ لائیں گے۔ ہم تو کیری لوگر بل پر دھواں دھار مقدمہ کھڑا کرنے والے لوگ ہیں۔ آنے ٹکے پر زیادہ غور کرنا ہمیں زیب نہیں دیتا۔ تو آیئے ان سوالات میں چھپے معاملات کی نشاندہی کر لیں۔

عمران خان صاحب فرماتے ہیں کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں یا تلاشی دیں۔ وزیراعظم استعفیٰ دینے کا ارادہ نہیں رکھتے اور سیاسی قوتیں وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہو کر تلاشی نہیں لے سکتیں۔ یہ بھی واضح نہیں کہ استعفیٰ صرف وزیراعظم سے لینا ہے یا وزیراعظم کو منتخب کرنے والی پارلیمنٹ کو بھی لپیٹ دینا ہے۔ اس مخمصے کا سادہ حل یہ ہے کہ حساس مقامات اور احتجاجی ہجوم کا درمیانی فاصلہ کم کر دیا جائے۔ دارالحکومت میں دو ہزار کا ہجوم کسی جلسہ گاہ میں دو لاکھ کے مجمع سے زیادہ نازک حالات پیدا کر سکتا ہے۔ ان نازک حالات کے بارے میں برادر بزرگ ایاز امیر نے یونانی ڈرامے کی اصطلاحات میں کچھ تجاویز تو دی ہیں۔ بد قسمتی سے ایاز امیر جنرل راحیل شریف سے ایک وقفہ طرب کی بجائے المیہ تخلیق کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سے ایاز امیر کا کتھارسس تو ہوجائے گے لیکن تاریخ کا اختلاج وحید کاکڑ کے نسخے سے دور نہیں ہوتا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ دو نومبر کے بعد آئین نافذ العمل رہے گا یا نہیں۔ اگر آئین کے مطابق چلنا ہے تو کوئی راستہ آئین ہی سے نکالنا ہوگا۔ اور اگر آئین کو اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینکنا ہے تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو؟ یہ وزیراعظم کے عہدہ جلیلہ یا نیم مفلوج پارلیمنٹ کا سوال نہیں، بارہ صفحات اور 280 آرٹیکلز کی ایک دستاویز کا معاملہ ہے۔

کوئٹہ میں بد ترین دہشت گردی کی گئی ہے۔ ہمارے خاک نشین بچے سرکاری تابوتوں میں بند کر کے اور نجی گاڑیوں پر لاد کر گھروں کو بھیج دیے گئے ہیں۔ لشکر جھنگوی اور داعش نام کی تنظیموں نے ذمہ داری قبول کی ہے۔ ہم نے کسی تذبذب کے بغیر بیرونی مداخلت کو ذمہ دار ٹھہرا دیا ہے۔ کچھ برس پہلے ہم نے بلیک واٹر وغیرہ کا نام لیا ہوتا۔ ہماری دلدل کے بحیرہ اسود کا نام بدلتا رہتا ہے کیوںکہ ہم دہشت گردوں کے بنیادی مطالبے کی فکری مزاحمت کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ دہشت گرد سیاست کو عقیدے کے تابع کرنا چاہتے ہیں اور پھر عقیدے کا نام لے کر ریاست پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت میں عقیدہ کسی کا حلقہ انتخاب نہیں ہوتا۔ جمہوری عمل اختلاف رائے کو جائز تسلیم کرتے ہوئے مکالمے کا پل باندھنے کا نام ہے۔ ریاست عوام کی امانت ہے۔ ریاست کے تحفظ کی لڑائی جمہوری عمل کے دفاع میں ہے۔ عوام کے حق اقتدار اور جمہوری اختلاف رائے کو مردود قرار دے دیا جائے تو ریاست پر قبضے کے لئے طاقت کی کی جنگ شروع ہوتی ہے۔ اس کے لئے کوئٹہ میں سی فور کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے اور اسلام آباد میں پانامہ لیکس۔ اس رباعی کا ہر قافیہ جمہور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے۔

کوئٹہ اور اسلام آباد کے بیچ کہیں انگریزی صحافی کی ایک خبر وجہ نزاع ہے۔ کئی اعلیٰ اجلاس ہوچکے ہیں، تحقیقات کے ضمن میں عرض اور معروض کے سلسلے جاری ہیں۔ عرض یہ ہے کہ پاکستان کا وقار جمہور کے احترام سے بندھا ہے۔ ہمیں احترام اور توہین کی حدود واضح کرنا چاہئے۔ قوم کی توہین کو احاطہ امکان سے خارج کرنے کے لئے ضروری ہے کہ قوم کے احترام کا مفہوم واضح کیا جائے۔ واضح کرنا چاہئے کہ قوم کی توہین 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں شیخ اسامہ بن لادن کی دریافت سے ہوئی یا 10 اکتوبر 2011 کو فا نینشل ٹائمز میں منصور اعجاز کے مضمون سے؟ پاکستان ایک ذمہ دار قوم ہے۔ ہم اپنے اداروں کا احترام کرتے ہیں اور ایسا کر کے کسی پر احسان نہیں کرتے۔ ہمارے ادارے ہماری قوم کا حصہ ہیں۔ چار دفعہ ہماری فوج کے سربراہ نے اپنے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا۔ پاکستان کے رہنے والوں نے کھلے دل سے یہ موقف تسلیم کیا کہ یہ ایک فرد کی طالع آزمائی تھی۔ ہم قومی سلامتی کے اداروں کو غیر آئینی مداخلت کا ذمہ دار نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ آمریت کے خلاف جدوجہد میں آمر کی ذات کو ہدف بنایا گیا، قومی سلامتی کے اداروں کو اس بحث سے باہر رکھا گیا۔ پاکستان کا جمہوری ذہن ایک فرد کی غلطی کے لئے کسی ادارے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ غیر جمہوری سوچ کے خلاف جمہوری جدوجہد کو کسی ادارے کی توہین پر محمول کیوں کیا جائے؟ اگر آئین کی بالادستی اور جمہور کی حکمرانی کے اصول درست ہیں تو قومی مفاد بھی جمہوری تائید سے طے پائے گا۔ قومی مفاد کسی کی غیر منقولہ جائیداد نہیں کہ اس کا فارورڈ سودا کر کے بیع نامہ لکھا دیا جائے۔

ہم ایک راہداری بنانا چاہتے ہیں۔ یہ راہداری خطے میں بدلتے حالات کی وہ گھٹا ہے جو کہیں اور برسنے کو ادھر سے گزری۔ ہمیں اپنے ملک کے داخلی گلی کوچوں کے بارے میں غور کرنا چاہئے۔ ہمارے ملک میں ایک شاہراہ آئین موجود ہے۔ راہداری کے دو رویہ خوشحالی کی بارش کے لئے ضروری ہے کہ آئین کی شاہراہ پر جمہور کی بالا دستی کا سورج چمکے۔ پرانے جوابات پر پھر سے غور کیا جائے۔ نئے سوالات کا امکان ٹٹولا جائے۔ آب پاشی کے نئے ذخیرے دریافت کئے جائیں۔ خزاں کا پانی نئے معانی نہیں سمجھتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments