نثار مورائی کا جے آئی ٹی میں دعویٰ: ذوالفقار مرزا ایم کیو ایم حقیقی کو اسلحہ دیتے تھے


’سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے ایم کیو ایم (الطاف) کا مقابلہ کرنے کے لیے ایم کیو ایم حقیقی کی مالی امداد اور انھیں اسلحہ فراہم کر کے مدد کی تھی۔ ‘یہ الزام ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے دوست اور فشریز کواپریٹو سوسائٹی کے سابق چیئرمین نثار مورائی نے جوائنٹ انٹروگیشن رپورٹ میں عائد کیا ہے۔

حکومت سندھ نے پیر کو لیاری کے گینگسٹر عذیر بلوچ، بلدیہ فیکٹری کی آتش زنی اور نثار مورائی کے معاملے سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹس محکمہ داخلہ کی ویب سائٹ پر جاری کر دی تھیں تاہم ان میں سے کسی میں بھی پیپلز پارٹی کے کسی اعلی عہدیدار کا نام شامل نہیں۔

نثار مورائی کی جے آئی ٹی رپورٹ پر آئی ایس آئی، آئی بی، سی آئی ڈی اور سپیشل برانچ کے نمائندوں کے دستخط ہیں جبکہ ملٹری انٹلیجنس اور رینجرز کے نمائندوں نے دستخط نہیں کیے ہیں۔ اس جے آئی ٹی کے سربراہ ایس ایس پی راؤ انوار تھے۔

بی بی سی کے پاس موجود جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق اپریل 2016 میں یہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنائی گئی اور نثار مورائی نے دوران تفیش کئی مجرمانہ سرگرمیاں میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا۔ ان کے کچھ سیاسی شخصیات کے ساتھ گہرے تعلقات تھے اور وہ مالی بدعنوانی میں بھی ملوث رہے تاہم اس رپورٹ میں ان کی سیاسی وابستگی پاکستان پیپلز پارٹی سے بتائی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عذیر بلوچ کے ’حکم‘ پر پولیس تبادلوں کا انکشاف، جے آئی ٹی رپورٹ میں آصف زرداری کا ذکر نہیں

لیاری گینگ وار: عالمی کھلاڑیوں کے علاقے میں موت کے کھلاڑی کیسے پیدا ہوئے؟

’دہشت کی ایک علامت‘ غفار ذکری کون تھا

نثار مورائی کی ابتدائی زندگی

نثار احمد جان میمن نواب شاہ کے شہر مورو میں 1960 میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے وہاں سے ہی پرائمری کے تعلیم حاصل کی، اس کے بعد 1977 میں نور محمد ہائی سکول حیدرآباد سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج حیدرآباد سے انٹر کیا، بعد میں 1987 میں لیاقت میڈیکل کالیج جام شورو سے ایم ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا۔

نثار مورائی کی جے آئی ٹی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ہر دور حکومت میں مستفید ہوتے رہے ہیں۔ 1989 میں انہیں پی پی حکومت میں محکمہ صحت میں ڈاکٹر تعینات کیا گیا، وہ ایل ایم سی میں ایڈمن میڈیکل افسر رہے۔ اس کے بعد نوابشاہ تبادلہ ہوگیا اور 2000 سے لیکر 2008 تک پوسٹنگ کے منتظر رہے۔ 2009 میں انھیں ابراہیم حیدری کراچی کی ڈسپینسری میں تعینات کیا گیا۔ جے آئی ٹی کے مطابق انھوں نے سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے جوائن نہیں کیا تاہم محکمہ صحت سندھ سے تنخواہ لیتے رہے۔

ڈاکٹر ذوالفقار مرزا

ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے تعلقات

جے آئی ٹی رپورٹ سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ نثار مورائی کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے تعلقات کب استوار ہوئے۔ تاہم نثار مورائی نے بتایا ہے کہ 2008 کے الیکشن میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی وہ سیاسی مہم کا حصہ رہے۔ 2008 میں فشریز کے چیئرمین کی پیشکش کی لیکن کامیابی نہیں مل سکی۔ ملزم کے مطابق ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو اس تحفے کے بدلے میں میں اسلحہ دیتے رہے جس میں برازیل کی رائفل، شارٹ گن بریٹا، چائنا کی رائفل، گلاک پستول شامل ہیں۔

نثار مورائی نے انکشاف کیا ہے کہ انھیں خود بھی اسلحے رکھنے کا شوق ہے اور ان کے پاس مختلف اقسام کا اسلحہ موجود ہے، جن میں کلاشنکوف، رائفل ایم فور، رائفل رووگر، ٹرپل ٹو، شارٹ گن، دو گلاک پستول، بریٹا پستول شامل ہیں، جن کے ان کے پاس لائسنس یا پرمنٹ ہیں۔

حقیقی کے سربراہ آفاق احمد کی مدد

نثار مورائی نے جے آئی ٹی کو بتایا ہے کہ 2010 میں جیل میں ڈاکٹر مرزا کے ساتھ انھوں نے ایم کیو ایم حقیقی کے چیئرمین آفاق احمد سے ملاقات کی اور ایم کیو ایم الطاف کی مزاحمت پر مذاکرت کیے۔

’2011 میں آفاق احمد کو دو بار پچیس پچیس لاکھ روپے دیے، اسی سال ڈاکٹر ذوالفقار نے ایم کیو ایم حقیقی کے ورکرز کو میری موجودگی میں 6 سے سات کلاشنکوف دیں، اور اپنے کوٹے سے حقیقی کے کارکنوں کو 18 سے 20 لائسنس فراہم کیے۔‘

واضح رہے کہ آفاق احمد کو اپریل دو ہزار چار میں کراچی کے علاقےگلشنِ اقبال سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر قتل، ہنگامہ آرائی اور اغوا کے چوبیس مقدمات درج تھے۔ 2011 میں ان کی ضمانت پر رہائی عمل میں آئی۔ آفاق احمد کی رہائی سے قبل ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے ایم کیو ایم کی قیادت پر شدید الزامات عائد کیے تھے۔

جے آئی ٹی رپورٹ پر موقف لینے کے لیے آفاق احمد اور ڈاکٹر ذولفقار مرزا سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

زرداری کا ڈاکٹر مرزا سے ملاقات سے انکار

ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سابق صدر آصف علی زرداری کے زمانہ طالب علمی کے دوست اور بزنس پارٹنر بھی رہے۔ 2008 سے لیکر 2011 تک وہ سندھ کے بااختیار ترین صوبائی وزیر تھے۔ اتحادی جماعت ایم کیو ایم کی سرگرمیوں پر انھوں نے اعتراض کیا اور ایک روز پریس کانفرنس میں مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔

ڈاکٹر نثار مورائی نے جے آئی ٹی کو بتایا ہے کہ 2011 میں ڈاکٹر مرزا نے بتایا کہ وہ دبئی میں آصف علی زرداری سے ملنا چاہ رہے تھے لیکن اس کے بعد وہ مستعفی ہوگئے اور زرداری نے ملاقات سے معذرت کرلی۔

ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی بیگم فہمیدہ مرزا موجودہ وقت تحریک انصاف حکومت میں وفاقی وزیر جبکہ بیٹا حسنین مرزا رکن سندھ اسمبلی ہے۔ بی بی سی کی جانب سے دونوں سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن رابطہ نہیں ہوسکا۔

کراچی میں زمینوں پر قبضے

جے آئی ٹی رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ملزم زمین کے چالان کلیئر کرانے کی بھاری رقومات وصول کرتے تھے اور جوا کے اڈوں سے بھتہ وصول کرتے تھے۔

نثار مورائی کے بیان کے مطابق 2010 میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے سرجانی ٹاؤن میں ظفر فریدی اور پولیس افسران کی مدد سے زمینوں پر قبضہ کر کے ان کی فروخت کا کاروبار شروع کیا۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے ان سے شکایت کی فریدی مطلوبہ حصہ ایمانداری سے نہیں دے رہا، جس پر انھوں نے یہ کاروبار کاشف اور عامر کے سپرد کردیا۔ ان قبضوں سے 40 ملین روپے کمائے جس میں سے 8 ملین، اور دس ملین روپے کی بلٹ پروف گاڑی اور رائفل ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو دیے۔

’2009-10 میں ڈاکٹر ذولفقار مرزا کی ہدایت پر محمد خان چاچڑ نے گلشن حدید صیفل گوٹھ کی چالیس سے پچاس ایکڑ زمین فروخت کی جس میں سے مجھے 20 کروڑ روپے ملے جس میں سے پچاس فیصد ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو حصہ دیا۔‘

فشریز میں تعیناتی

نثار مورائی کو 2011 میں فشریز کوواپریٹو سوسائٹی کا چیئرمین تعینات کیا گیا۔ جے آئی ٹی کے مطابق انھوں نے فشریز میں 50 سے 200 گھوسٹ ملازم بھرتی کیے اور وہ وائس چیئرمین سے ہر مہینے بھتہ وصول کرتے تھے۔

’جولائی 2014 میں 150 ملازمین کو برطرف کر دیا۔ ان کو سابق چیئرمین سعید بلوچ نے تیعنات کیا تھا۔ لیاری کے گینگسٹر بابا لاڈلہ کے مقامی اخبار میں دھمکی آمیز بیان کے بعد انہیں بحال کردیا گیا۔ 2014 میں 80 گھوسٹ ملازم بھرتی کیے گئے جن میں 17 اور 18 گریڈ کے افسران بھی شامل تھے۔‘

عزیر بلوچ

عذیر بلوچ سے ملاقات

نثار مورائی نے کالعدم لیاری امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ سے تعلقات کی وضاحت نہیں کی۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق نثار مورائی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا انھیں اپنے ساتھ لیاری میں عذیر بلوچ سے ملاقات کرانے لے گئے تھے، اور اس سمیت تین ملاقاتیں کیں۔

یاد رہے کہ عذیر بلوچ اپنی جے آئی ٹی میں فشریز میں اثر رسوخ اور بھرتیوں کا اعتراف کرچکے ہیں۔

نثار مورائی کے املاک

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق کراچی اور حیدرآباد کے پوش علاقوں ڈفینس سمیت ملزم کے پلاٹس، فلیٹس اور بنگلوز ہیں۔ اس کے علاوہ پرائز بانڈ اور گاڑیاں موجود ہیں جن کی مالیت کروڑوں روپوں میں ہے۔

ملزم نے اپنی آمدنی کے ذرائع بھی بتائے ہیں جن میں ٹول ٹیکس، مویشی ٹیکس، مویشی منڈی، پیٹرول پمپ وغیرہ شامل ہیں۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق تفتیش کے دوران ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ وہ سجاد حسین کے قتل میں ملوث تھے،جس میں انھیں مفرور قرار دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ سجاد حسین سٹیل ملز کے سابق چیئرمین تھے اور نثار مورائی اس وقت عدالت میں اس قتل کے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔

جے آئی ٹی نے نثار مورائی کے انکشافات کی روشنی میں محکمہ انسدادِ بدعنوانی اور نیب کے علاوہ پولیس کو بھی تحقیقات کرنے کی سفارش کی ہے۔

دوسری جانب سپریم کورٹ میں منگل کو نثار مورائی کی درخواستِ ضمانت کی سماعت تھی لیکن نثار مورائی کے وکیل کی غیر حاضری کی وجہ سے سماعت ملتوی کردی گئی۔ اس سے قبل قومی احتساب بیورو کے تفتیشی افسر نے ریکارڈ عدالت میں پیش کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32565 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp