کماٹھی پورہ کی سیکس ورکرز کی مشکلات: نہ گاہک، نہ پیسہ اور نہ ہی سرکاری سکیموں کے فوائد


کماٹھی پورہ

اس چکلے (قحبہ خانے) میں داخل ہوتے ہی لگتا ہے کہ آپ کسی بنکر میں داخل ہوگئے ہیں۔ ایک کے اوپر ایک لکڑی کے پٹرے لگا کر بنائی گئی چھوٹی چھوٹی کوٹھریاں، ٹرین کی ڈبوں کی طرح برتھ اور ان کوٹھریوں میں گھٹن دور کرنے کے لیے ایگزاسٹ پنکھے لگے ہیں۔

پتلے گدے بیڈ شیٹ کے بجائے ترپال سے سجے ہیں۔ پردے ہیں لیکن بالکل خستہ حالت میں۔ یہ ڈھانچے صرف فوری سیکس کے لیے بنائے گئے ہیں، اس کے علاوہ یہ کسی کام کے نہیں۔ ان کوٹھریوں میں صرف ایک سودا ہوتا ہے جذبات کی کوئی گنجائش نہیں۔

ممبئی کے علاقے کماٹھی پورہ کے گلی نمبر 1 میں رما بائی چال کی یہ بنکر نما کوٹھریاں ملک کے کسی بھی دوسرے قحبہ خانے یا چکلے کے کمروں کی طرح ہی ہیں جہاں جگہ بہت کم ہے، لیکن کاروبار تو کاروبار ہے سو وہ بدستور چلتا رہتا ہے۔

ان کوٹھڑیوں کو آپ سروس چیمبر کہہ سکتے ہیں اور کسی دوسرے ’ورک پلیس‘ کی طرح یہاں بھی کام ہی ہوتا ہے۔ روشنی تھوڑی کم ہوسکتی ہے، لیکن یہ بھی ایک طرح کا دفتر ہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’قحبہ خانے دوبارہ کھل بھی گئے تب بھی اس صنعت کی بحالی میں وقت لگے گا‘

سونو پنجابن، جس نے جسم فروشی کو ’عوامی خدمت‘ قرار دیا

سیکس ورکرز کے کاروبار والی گنگوبائی مشہور کیسے ہوئیں

برسوں پہلے ندھی (فرضی نام) کو ان کے گھر والوں نے صرف اس وجہ سے گھر سے نکال دیا تھا کہ وہ پیدائشی طور پر خواجہ سرا تھیں ۔ کھلی سڑکوں پر ریپ اور تشدد سے گزرنے کے بعد انھیں یہاں پناہ ملی۔ جیسے ہی اس کوٹھے والے نے انھیں اپنی آغوش میں لیا انھوں نے خود سے کہا: ‘اب میرا کچھ نہیں بگڑے گا، میں محفوظ ہوں۔’

انھیں یہ کام پسند نہیں تھا لیکن دل کو سمجھانا پڑا، اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ یہاں موجود دیگر خواتین کی بھی کہانیوں کچھ ایسی ہی ہیں لیکن ندھی تو ٹرانسجینڈر بھی ہیں۔

کماٹھی پورہ میں پریشانیوں کا دور

پچھلی بار جب میں ان سے ملی تو ان کی پیٹھ پر سامان لدا تھا اور ان کی نظریں ٹیکسی کی تلاش میں تھیں۔ انھیں کماٹھی پورہ کی گلی نمبر 1 کی کوٹھریوں کو چھوڑ کر بکھرولی شفٹ ہونا تھا۔

کماٹھی پورہ میں جاری ترقیاتی منصوبے کی وجہ سے سیکس ورکرز کی ایک بڑی تعداد کو وہاں سے بے گھر ہونا پڑا تھا کیونکہ بڑے شہر کے وسط میں ہونے کی وجہ سے یہ ایک قیمتی جگہ تھی۔

انھوں نے بتایا: ‘اس پروجیکٹ نے بہت پریشان کیا ہے، سیکس ورکرز کو اپنے کوٹھے رئیل اسٹیٹ کمپنیوں کو فروخت کرنا پڑے۔’

یہ رواں سال جنوری کی بات ہے لیکن مارچ کا لاک ڈاؤن ان سیکس ورکرز کے لیے تباہی کا دور لے کر آیا اور اب ان کے لیے اپنا وجود بچاننا مشکل ہے۔ وہ کسی بھی سرکاری سکیم کے دائرے میں نہیں آتی ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر دوسری جگہوں سے آئے ہیں اور ان کے پاس اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے دستاویزی ثبوت بھی نہیں ہیں۔

جنسی کارکنوں کے حقوق کی نشاندہی کرنے والا خط

مئی میں جب لاک ڈاؤن کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا تو ٹرانس جینڈر سیکس ورکرز نے کہا کہ ان کا زندہ رہنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ کماٹھی پورہ میں کام کرنے والے کچھ این جی اوز انھیں راشن دے رہے تھے۔

لیکن حکومت کی طرف سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ حال ہی میں مہاراشٹر میں ایک خط تقسیم کیا گیا تھا جس میں انتظامیہ سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ جنسی کارکنوں کی مدد کریں کیونکہ ان کی آمدنی ختم ہوگئی ہے۔

خواتین اور اطفال کی ترقی کے شعبے کے کمشنر ریشی کیش یشودھ نے یہ خط لکھا۔ اس خط کی زبان اس زبان سے مختلف تھی جو پرانے مذکورہ انداز میں جنسی کارکنوں کے بارے میں بات کرتی تھی۔

اس نے سیکس ورکرز اور ان کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو امید بندھائی ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ حکومت ان کے کام کو خدمت ماننے کے لیے کسی وبائی مرض کا انتظار کر رہی تھی۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ‘جنسی کام (جسم فروشی کے کاروبار) میں مصروف خواتین کے لیے پیسے کمانے کے آپشنز ختم ہوگئے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے انھیں کام نہیں مل رہا ہے جس کی وجہ سے ان کے اور ان کے اہل خانہ کو فاقہ کشی کی نوبت ہے۔ ان کا زندہ رہنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔’

اس خط سے ظاہر ہوا ہے کہ انڈیا میں پہلی بار کسی ریاست کی حکومت نے جنسی کارکنوں کے ‘کام’ کو ‘کام’ یا خدمت کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ نہیں تو سیکس ورکرز پر ہمیشہ اخلاقیات کا بوجھ ہوتا ہے اور وہ ہماری گفتگو کا صرف اس وقت حصہ بنتے ہیں جب ایچ آئ وی / ایڈز یا جنسی اسمگلنگ پر بات ہو رہی ہو۔

سماج کے حاشیے پر رہنے والے لوگوں کے لیے کام کرنے والی رجسٹرڈ تنظیم سمپدا گرامین خواتین سنستھا (سنگرام) کی بانی مینا سیشو نے اس خط کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس خط میں پہلی بار جنسی کارکنوں کے لیے جسم فروش خواتین کہنے سے بچایا گیا ہے۔ اس میں ان کے پیشہ پر فوکس کیا گیا ہے۔

علامتی تصویر

علامتی تصویر

طوائف کا کاروبار

سیشو کہتی ہیں: ‘اس خط میں سنسکرت کے لفظ ویشیا (طوائف) کا استعمال کیا گیا ہے جو ان خواتین کو وقار دیتا ہے۔ جنسی کارکن بھی اسی اصطلاح کا استعمال کرتی رہی ہیں۔ یہ خط ان کے ‘کام’ کے بارے میں بات کرتا ہے۔ اس کے عنوان کے طور پر لکھا ہے: وہ خواتین جو ‘ویشیا کے پیشے’ پر منحصر ہیں۔انگریزی میں اس کو ‘پروفیشن’ کہتے ہیں۔ خط کی سبجیک لائن اس طرح ہے: ‘جنسی فعل پر انحصار کرنے والی خواتین کو کووڈ 19 کے دوران ضروری خدمات کی فراہمی کے بارے میں۔’

سیشو سانگلی میں رہتی ہیں جہاں 250 کے قریب جنسی کارکن خواتین ہیں۔ اس سے قبل ان جنسی کارکن خواتین کی شناخت صرف ایچ آئی وی سے بچاؤ کی اسکیموں کے تحت کی گئی تھی۔

وبا کے دوران سرکاری اسکیموں سے سیکس ورکرز خارج کیوں؟

ایک بار پہلے بھی کماٹھی پورہ کی جنسی کارکنان اس صورتحال سے گزر چکی ہیں۔ نوے کی دہائی میں، ممبئی کا ریڈ لائٹ علاقہ کماٹھی پورہ ایچ آئی وی/ ایڈز کی وبا کا مرکز بن گیا تھا۔ انہی دنوں میں انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) نے ریڈ لائٹ والے علاقوں میں ایڈز کنٹرول کے لیے منصوبہ بندی کی تھی لیکن جلد ہی وہ اپنی موت آپ مر گئی۔

اور اب کورونا وائرس نے بھی جنسی کارکنوں کے سامنے یہی صورتحال پیدا کردی ہے۔ نیدھی کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی جانتے ہیں کہ یہ بہت مشکل دن ثابت ہونے والے ہیں۔

وہ فون پر گفتگو کے دوران کہتی ہیں؛ ‘آپ ایچ آئی وی/ ایڈز کے رجحان کے بارے میں جانتے ہیں۔ آپ کو پتا ہے کہ اس سے کس طرح لڑنا ہے۔ لیکن کورونا وائرس کو تو کسی بھی طرح پھیلنا ہے۔ اس وقت یہ معلوم نہیں کہ آگے کیا ہوگا؟

کوئی کورونا کیس نہیں

ممبئی میں کماٹھی پورہ کا ریڈ لائٹ علاقہ کنٹینمنٹ زون کی فہرست میں نہیں آیا ہے۔ اس علاقے کے جنسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ابھی تک کسی کوٹھے سے کووڈ 19 کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔

اس کے باوجود انھیں ہمیشہ کی طرح خارج کردیا گیا ہے۔ انھیں ریاست نے بے بس چھوڑ دیا ہے۔ کسی بھی سکیم میں ‘جنسی کارکنوں’ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ حکومت ہند نے کووڈ 19 سے لڑنے کے لیے 11 بااختیار گروپ بنائے ہیں۔

سیشو کا کہنا ہے کہ بااختیار گروپ 6 نے سنگرام سے رابطہ کیا اور ملک میں جنسی کارکنوں کی پریشانیوں کے بارے میں تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ اس کے بعد اس گروپ نے وزارت کو لکھا: ہماری درخواست ہے کہ وزارت ریاستوں میں کھانے کی تقسیم سے متعلق محکموں کو پی ڈی ایس کے تحت جنسی کارکنوں کو اناج دینے کی ہدایت کرے۔ اگر یہ خواتین پی ڈی ایس کے دائرہ کار میں نہیں آتی ہیں تو پھر انھیں کسی بھی دوسری فلاحی اسکیم کے تحت اناج دیا جائے۔

قحبہ خانہ

کوئی ریلیف سکیم نہیں

سیشو کہتی ہیں: ‘اس خط کے باوجود جنسی کارکنوں کے لیے ابھی تک کسی امدادی اسکیم کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ انھیں مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا ہے۔

حال ہی میں دہلی ہائی کورٹ میں دائر ایک پی آئی ایل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مرکز اور دہلی حکومت دارالحکومت میں جنسی کارکنوں اور ایل جی بی ٹی کیو + کمیونٹی کے ممبروں کو مالی مدد کے ساتھ سماجی تحفظ فراہم کرے۔

جنسی کام کو پیشے کا درجہ کیوں نہیں

غیر اخلاقی تجارت کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت جن قحبہ خانوں میں جنسی کارکن رہتی اور کام کرتی ہیں وہ غیر قانونی ہیں۔ لیکن یہ شہروں اور میٹروپولیٹن میں برسوں سے جاری ہیں۔ اکثر لڑکیوں کو یہاں سے نکال کر شیلٹر ہومز بھیج دیا جاتا ہے یا پولیس انھیں انتباہ کے ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔

لیکن ان میں سے بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ وہ یہ کام اپنی مرضی سے کر رہی ہیں۔ نیشنل سیکس ورکرز ایسوسی ایشن سے وابستہ سونی (نام تبدیل) کا معاملہ ہی لے لیں۔

سانگلی میں رہنے والی سونی خود ہی یہ کام کرتی ہیں۔ غربت کی وجہ سے انھوں نے یہ کام اپنے مغربی بنگال کے گاؤں میں شروع کیا۔ شوہر کا انتقال ہوگیا۔ ان کا بچہ چھوٹا تھا۔ بعد میں وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ محفوظ جگہ کی تلاش میں آسنول منتقل ہوگئیں۔ وہ کچھ مہینوں کے بعد سانگلی چلی گئیں۔ سونی کو یہاں کام کرتے ہوئے آٹھ سال ہوگئے ہیں۔

بنیادی حقوق

اب ان کے لیے سیکس ایک خدمت کی طرح ہے۔ کسی لین دین کی طرح۔ سپا میں مساج کی طرح کا ہی لین دین۔ جنسی کارکنوں کی ایک تصویر برسوں سے بنی ہوئی ہے۔ وہ ذہنی تکلیف، اذیت اور استحصال کا شکار ہیں یا انھیں ‘بری عورت’ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ من گھڑت شبیہہ بنیادی حقوق کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہے۔

لیکن سونی اور ان کے جیسی دوسری عورتیں بھی اس قسم کے بحران کا شکار رہی ہیں۔ وہ کرونا جیسے بحران کا بھی سامنا کر لیں گي۔ سانگلی میں ہی وہ اپنے گاہک کو خدمت فراہم کرتی ہیں۔ لیکن سونی اور ديگر جنسی کارکنا کا کام کورونا وائرس سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔

جب لاک ڈاؤن ہوا تو سونی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آگے کیا ہوگا۔ انھوں نے کورونا وائرس کے انفیکشن کے بارے میں سنا تھا اور وہ اور ان کی ساتھی جنسی کارکن بھی احتیاط برت رہی تھیں۔

سونی نے کہا: ‘اس صورتحال نے ہمیں حیران کردیا۔ لیکن ہم نے ایک دوسرے کی مدد کی۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بھوک سے نہیں مریں گے۔ ہم نے مدد کے لیے پکار لگائی۔’

وہ کہتی ہیں: ‘اب بیوٹی پارلر اور اسپا کھل گئے ہیں۔ لوگوں نے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ ہم کووڈ 19 کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم بھی اسی طرح لڑیں گے جس طرح ہم نے ایچ آئی وی کے خلاف جنگ لڑی تھی۔’

سیکس ورکرز کی توقعات

دریں اثنا کمشنر برائے خواتین اور بچوں کی ترقی یشھود کی جانب سے مہاراشٹر کے تمام کلکٹرز کو خط بھیجنے کے بعد سونی کی تنظیم نے دیگر ریاستوں کے عہدیداروں سے رابطہ کرنا شروع کردیا ہے۔ تنظیم کو امید ہے کہ وہاں بھی جنسی کارکنوں کی مدد کے لیے ہدایات جاری کی جائیں گی۔

انھوں نے کہا: ‘ہم چاہتے ہیں کہ ہم سروس فراہم کرنے والے کے طور پر پہچانے جائيں۔’

جنسی کارکنوں سے متعلق قوانین پوری دنیا میں واضح نہیں ہیں۔ حکومت نے دوسری ریاست کے مزدوروں اور ریڑھی پٹریوں پر سامان فروخت کرنے والوں کے لیے امدادی اسکیموں کا اعلان کیا ہے لیکن جنسی کارکنوں کے لیے کوئی پیکیج فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

انڈیا میں جنسی خدمات غیر قانونی نہیں ہے

انڈیا میں جنسی خدمات غیر قانونی نہیں ہے۔ لیکن قحبہ خانہ چلانا، سیکس کے لیے کھلے عام دعوت دینا، یا جنسی کام سے پیسے کمانے والی خاتون پر انحصار کرنا غیر قانونی ہے۔

پسماندہ طبقوں کے لیے کام کرنے والی ایک وکیل آرتی پائی کا کہنا ہے کہ خواتین اور بچوں کی ترقی کی کمشنر کا خط مشورے کا ہے لیکن یہ روایت سے ہٹ کر ہے۔ یہ خط دو زمروں میں واضح طور پر تمیز کرتا ہے- ایک زمرہ ان جنسی کارکنوں کا ہے جو اس پیشے میں استعمال ہورہے ہیں۔ دوسرا ان جنسی کارکنوں کا ہے جو اپنی مرضی سے اس پیشے میں آئے ہیں۔

وہ کہتی ہیں؛ ‘اس طرح کی پیش قدمی سے قدرے تبدیلی آتی ہے۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ یہ پہل حکومت کی طرف سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرتی حقوق سے متعلق سرکاری اسکیموں میں جنسی کارکنوں کے لیے یقینی طور پر ایک جگہ موجود ہے۔’

خاندان کا سہارا

ان جنسی کارکنوں میں سے زیادہ تر خواتین اپنے گھر کی سربراہ ہیں اور کنبہ کے افراد ان کی کمائی پر منحصر ہیں۔ کماٹھی پورہ میں بہت سی جنسی کارکن کمرے کا کرایہ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ وہاں ایک بستر کا کرایہ 250 روپے ہے۔ اب وہ یہ جگہ چھوڑنے پر مجبور ہیں۔

کماٹھی پورہ میں اس وقت ساڑھے تین ہزار جنسی کارکن ہیں۔ ممبئی کے مختلف علاقوں میں ہزاروں سیکس ورکرز رہتے ہیں۔ ان جنسی کارکنوں کو راشن کے ساتھ ادویات کی بھی ضرورت ہے۔ این اے سی او کی ہدایت میں کہا گیا ہے کہ نوڈل ایجنسیوں کو دوائیں اور اینٹی ریٹرو وائرل (اے آر ٹی) دوائیں ان تک پہنچانا ہوں گی۔

کورونا وائرس پھیلنے سے پہلے ہی وہ خواتین جو کماٹھی پورہ چھوڑ کر کہیں اور بس گئیں تھیں وہ اپنے صارفین کی منتظر نظر آئیں۔ اپنے گاہک کو خدمات فراہم کرنے کے ل وہ یہاں 50 روپے یا اس سے زیادہ میں کمرے کرایہ پر لیتی ہیں۔ خدمت کے بعد، آخری لوکل ٹرین سے وہ دوسرے علاقوں میں اپنے گھروں کو لوٹ جاتی ہیں۔

پچھلے کئی سالوں سے کماٹھی پورہ سے ان کی منتقلی جاری ہے۔ ٹرانسجینڈرز (خواجہ سرا) شاید یہاں سے رخصت ہونے والے آخری پیشہ ور ہوں گے۔ لیکن فی الحال وہ لکڑی سے بنی ٹرین کے برتھ کی طرح کے چیمبروں میں مقیم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32568 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp