جنرل ضیاء کا ایک اچھا ورثہ


17 اگست جنرل ضیاء الحق کا یوم وفات ہے۔ وہ ایک فوجی دکتیٹر تھے جس نے ملک میں جمہوریت کی بساط برسوں تک لپیٹے رکھی۔ ان کے عہد حکومت میں بہت سے ایسے رجحانا ت شروع ہوئے جن کی وجہ سے ملک کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ ان چیزوں کو عموماً ضیاء الحق کا ورثہ کہا جاتا ہے۔

لیکن دنیا میں کوئی شخص مجسم شر نہیں ہوتا۔ ضیاء الحق نے بھی کچھ کام کام ایسے کیے تھے جنہیں ہم ان کا اچھا ورثہ کہہ سکتے ہیں۔ ایسے کاموں میں ایک زکوٰۃ و عشر کے نظام کا قیام ہے۔

زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ہے۔ قرآن مجید میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ زکوٰۃ مالداروں سے وصول کرنا اور اسے مقرر کردہ مدوں پر صرف کرنا اسلامی مملکت کی بنیادی ذمے داریوں میں سے ہے۔ زکوٰۃ ٹیکس نہیں بلکہ سوشل سیکیورٹی کا ایک مکمل ادارہ ہے۔ اس ادارے کو اگر صحیح خطوط پر استوار کیا جائے تو معاشرے میں بھوک اور افلاس کا نام و نشان نہیں رہے گا۔ اس کے تحت سال بھر کسی شخص کی ملکیت میں رہنے والی ایک خاص حد سے زیادہ دولت پر مقررہ شرح سے وصولی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ ایک مکمل ادارہ ہے اس لیے ادارے کے مصارف بھی زکوٰۃ ہی سے ادا کیے جاتے ہیں۔ یعنی یہ دوسرے اداروں کی طرح سرکاری خزانے پر کوئی بوجھ نہیں ڈالتا۔

1980 میں اس مقصد کے لیے جو قانون بنایا گیا تھا اس کے تحت وفاقی اور صوبائی سطح پر زکوٰۃ کونسلیں اور ضلعی اور مقامی سطح پر منتخب کمیٹیاں بنائی گئیں۔ زکوٰۃ کی وصولی کے لیے ابتدائی طور پر طے پایا کہ صرف بنکوں میں رکھی گئی رقم اور زرعی پیداوار سے زکوٰۃ/عشر وصول کیا جائے گا۔ اس وقت کہا گیا کہ باقی اموال جیسے مویشیوں، سونا چاندی، اموال تجارت وغیرہ سے زکوٰۃ کی وصولی کے لیے بعد میں کوئی مناسب انتظام کیا جائے گا۔ یہ نظام تمام فرقوں کے علماء کے مشورے اور ان کی نگرانی میں بنایا گیا۔ اس وقت اس بارے میں کوئی اختلافی رائے نہیں آئی۔

جب بنکوں سے زکوٰۃ کاٹنے کا عمل شروع ہوا تو اہل تشیع کی طرف سے اعتراض ہوا کہ ہمارا زکوٰۃ نکالنے کا طریقہ کچھ مختلف ہے۔ اس لیے بنکوں میں ہم سے زکوٰۃ نہ کاٹی جائے۔ جب یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا تو حکومت نے فیصلہ کیا کہ اہل تشیع سے زکوٰۃ نہ کاٹی جائے اور وہ اس مضمون کا ایک بیان حلفی اپنے بنک میں جمع کرا دیں۔

کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ غیر شیعہ لوگ بھی بکثرت اسی طرح کے بیان حلفی جمع کرا کر خود کو زکوٰۃ سے مثتسنیٰ کر رہے ہیں۔ ان حالات میں اہلسنت کے رہنماء نے مطابہ کیا کہ انہیں بھی اسی قسم کا استثنیٰ دیا جائے۔ چنانچہ اہلسنت کو بھی اجازت دی گئی کہ وہ اس مضمون کا بیان حلفی جمع کرا دیں کہ میں اپنی زکوٰۃ انفرادی طور پر دینا چاہتا ہوں اس لیے میرے اکاونٹ سے زکوٰۃ نہ کاٹی جائے۔ اس سے پہلے بنکوں کی طرف سے یہ شکایت آئی تھی کہ رمضان کے آغاز میں زکوٰۃ کاٹنے سے پہلے لوگ بڑی مقدار میں پیسہ بنکوں سے نکالتے ہیں جس سے بنکوں کو کیش کے مسائل ہوتے ہیں۔

شروع میں زکوٰۃ سے متعلقہ ادارے جیسے مرکزی اور صوبائی زکوٰۃ کونسلوں نیز کمیٹیوں کی تشکیل اور ان کے کام کرنے میں کافی با قاعدگی تھی۔ رفتہ رفتہ ان کی طرف بھی توجہ کم ہوتی گئی۔ آخر میں یہ حالت ہوگئی کہ ان کے انتخاب اور نامزدگیوں کا عمل ہی رک گیا۔ بنکوں میں کٹوتیاں کم ہونے سے ان اداروں کو رقوم کی ترسیل بھی متاثر ہوئی اور ان کے روزمرہ کے اخراجات کے لیے ہی پیسے نہ رہے۔ زکوٰۃ کے نطام کی تابوت میں آخری کیل اس وقت ٹھونکی گئی جب اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں زکوٰۃ کا محکمہ وفاق سے نکال کر صوبوں کو دیا گیا۔ ضیاء کا بنایا ہوا قانون اس نئے انتظام کے بارے میں خاموش تھا۔ اس بارے میں نئی قانون سازی کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ اور یوں یہ سارا نظام غیر قانونی ہوگیا۔ کئی سال بعد صوبوں کو خیال آیا تو نیم دلی سے اقدامات شروع کیے لیکن تب تک نظام بری طرح بیٹھ چکا تھا۔

یہ ایک بہت خوش آئند اور مفید پروگرام تھا۔ اس کے تحت نہ صرف نادار لوگوں کی مالی مدد ہوتی تھی بلکہ غریب طالبعلموں کی تعلیم اور مریضوں کے علاج کے لیے بھی وسائل دستیاب ہوتے تھے۔ اس کو کامیابی سے چلایا جاتا تو غربت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اسلام کے فلاحی نظام کا بہت عمدہ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملتا۔ لیکن افسوس کہ کسی نے اس کو کامیاب بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی ناکامی میں سیاستدانوں، بیوروکریسی، مختلف فرقوں کے رہنماؤں اور عوام، العرض سب کا برابر حصہ ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ کسی نے اس نظام کو بچانے اور اس کی بحالی کے لیے آواز نہیں اٹھائی۔ وہ لوگ بھی جو خود کو اسلامی نظام کا علمبردار سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا تھا کہ اس نظام میں خرابیاں یا کمزوریاں تھیں تو ان کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔

ممتاز حسین، چترال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ممتاز حسین، چترال

ممتاز حسین پاکستان کی علاقائی ثقافتوں اور زبانوں پر لکھتے ہیں ۔ پاکستان کے شمالی خطے کی تاریخ، ثقافت اور زبانوں پر ایک ویب سائٹ کا اہتمام کیے ہوئے ہے جس کا نام makraka.com ہے۔

mumtaz-hussain has 11 posts and counting.See all posts by mumtaz-hussain