تحقیقی سفرنامہ اور بیگم کا ساتھ


ہمارے ہاں کسی بھی ملک کا سفر نامہ لکھنے کے لیے دو بنیادی شرطیں رائج ہیں۔ ایک تو آپ کو انٹر نیٹ کا بھر پور استعمال آتا ہو اور دوسری آپ داستان گوئی کے ماہر ہوں۔ بس یہی دو ضروری شرائط ہیں۔ اس کے ساتھ اگر اس ملک کا سفر بھی کر لیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن بہرطور یہ کوئی بنیادی شرط نہیں ہے۔ سفرنامہ نگاری کے حوالے سے جناب طاہر انوار پاشا صاحب نے البتہ دوسری روش اختیار کی ہے۔ یہ جس ملک کا سفر نامہ لکھتے ہیں وہاں ناصرف خود جاتے ہیں بلکہ اس ملک کا حال احوال اتنے دلچسپ اور مفصل انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ان کا قاری سمجھتا ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہے۔

میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ پاشا صاحب کی کتاب ”نیل کے سنگ“ اتنی دلچسپ ہے کہ جب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو میں اس وقت تک اٹھا ہی نہیں جب تک میں نے اسے ختم نہ کر لیا۔ ظاہر ہے مجھے درمیان میں ایک آدھ بار اٹھنا بھی پڑھا ہوگا۔ لیکن ان کا انداز تحریر بہرطور قاری کے لیے بے پناہ دلچسپی کا باعث ہے۔ ان کے اسلوب کی خاص بات ان کا بے حد عمیق مشاہدہ اور پھر اس کا انتہائی خوبصورت اور مفصل بیان ہے۔ ”نیل کے سنگ“ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مصر کو ایسا متجسس، اعلیٰ قدردان اور انتہائی باذوق سیاح کم نصیب ہوا ہو گا۔

کیونکہ جن زاویوں اور دریچوں سے جناب پاشا صاحب نے مصر کو دیکھا ہے اس طرح تو شاید خود مصر والوں نے بھی اسے نہ دیکھا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاشا صاحب نے مصر کے بارے میں ایسے عصری اور تاریخی گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے کہ جن کے بارے میں وہاں کے باسی بھی یقیناً کم ہی جانتے ہوں گے۔ خود مجھے بھی مصر دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے لیکن یہ کتاب پڑھنے کے بعد مجھے بھی لگا کہ میں شاید کوئی اور ملک دیکھ کر آیا ہوں۔

پاشا صاحب کا تاریخی و تہذیبی ذوق بے حد قابل تحسین ہے۔ ان کے اس سفر نامہ میں بھی، حسب معمول، علاقوں، منظروں اور عمارتوں کو ان کے تاریخی پس منظر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ جغرافیہ اور ریاستی امور کو اس باریک بینی سے سمجھنے اور پھر ان کے مفصل بیان سے ہمیں ان کی کمال ذہانت اور تاریخی و ثقافتی شعور کا پتہ چلتا ہے۔ قاری کے ذہن میں کسی بھی سوال کے اٹھنے سے پہلے ہی اس کا تسلی بخش جواب دے دیا جاتا ہے۔ ”ہائپر لنکس“ کی، گویا، ایک سیریز ہے جو کھلتی چلی جاتی ہے۔ حیرت بس اس بات پہ ہوتی ہے کہ ایسے باکمال مصنف نے اپنا تخلیقی سفر اتنی تاخیر سے کیوں شروع کیا۔

جناب پاشا صاحب کے سفرناموں کا ایک اور کمال یہ ہے کہ وہ اپنے ہر سفر میں بیگم صاحبہ کو ساتھ رکھتے ہیں۔ یہ یقیناً بڑے حوصلے کی بات ہے۔ ہمارے ایک اور ادیب دوست کے ہاں بھی یہی کمال پایا جاتا ہے وہ بھی میاں بیوی اکٹھے سفر کرتے ہیں بس فرق یہ ہے کہ ان کی بیگم انہیں اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔ بہرطور یہ بڑی ہمت کی بات ہے۔ ورنہ آج کل بندہ بیگم کے ساتھ دو چار گھنٹے ہی سفر کر لے تو سانس وغیرہ پھولنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ بیگم کے ساتھ ایسے طویل سفر کرنے کے پیچھے کون سا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔

میرے خیال میں تو اپنی بیگم کے ساتھ خدا نخواستہ اگر محبت وغیرہ بھی ہو تو بھی ایسے لمبے سفر کا رسک لینا بہتر نہیں ہے۔ مجھے جب پتہ چلتا ہے کہ کوئی میاں بیوی یورپ امریکا وغیرہ کے لمبے سفر پہ روانہ ہو گئے ہیں تو مجھے شدید حیرت ہوتی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر حیرت اس وقت ہوتی ہے جب پتہ چلتا ہے کہ وہ صحیح سلامت واپس بھی آ گئے ہیں۔ سفرنامہ ”نیل کے سنگ“ میں بھی حسب معمول بیگم صاحبہ پاشا صاحب کے ہمراہ تھیں۔ لگتا ہے کہ یہ ان کی شریک حیات ہونے کے ساتھ ساتھ شریک سیاحت بھی ہیں۔

دوسری طرف آج اگر ہمیں مصر کا ایک مفصل اور مستند سفر نامہ دستیاب ہے تو اس میں یقیناً بیگم صاحبہ کے ذوق جہاں بینی اور تجسس کا بھی بہت کردار ہے۔ اور اس ضمن میں دوسرا بڑا فائدہ یہ نظر آتا ہے کہ سفر میں اگر بیگم ساتھ ہو تو بندے کی دلچسپی صرف تاریخی عمارات اور سڑکوں وغیرہ تک ہی محدود رہتی ہے۔ ادھر ادھر دیکھیں تو لاشعوری طور پر پسلیوں میں ایک کہنی ٹھکنے کا ڈر ہوتا ہے۔ لہذا ان حالات میں پوری توجہ صرف مشاہدے پر ہونے کی وجہ سے درست اور بہتر معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں۔

جناب پاشا صاحب محکمہ پولیس میں اعلیٰ افسر رہے۔ لیکن انہیں مصنف بننے کے لیے ریٹائرمنٹ کا انتظار کرنا پڑا۔ میرے خیال میں پولیس کو آج کل جن حالات کا سامنا ہے اس میں دوران سروس بھی اچھا ادب تخلیق ہو سکتا ہے۔ وہ زمانے گئے جب کہتے تھے کہ پولیس کا ایک سپاہی بھی پورے گاؤں کو آگے لگا کر تھانے لے آتا تھا حالانکہ بعض اوقات پورے گاؤں کی ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی۔ لیکن آج کل حالات مختلف ہیں۔ کہا جاتا ہے پولیس اب بھی ظلم کرتی ہے لیکن شاید اب اس کی نوعیت بدل گئی ہے۔

اگلے دن میں نے سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں پولیس کے موجودہ ظلم کے انداز واضح ہو رہے تھے۔ اس ویڈیو میں ایک نہایت شریف اور معزز خاتون ایک تھانیدار کو پبلک کے سامنے تھپڑ مارنے کی کوشش کر رہی تھی۔ خاتون موصوفہ کا قد قدرے چھوٹا تھا لہذا وہ کوشش کے باوجود اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی۔ ایک دو دفعہ اس نے تھپڑ مارا بھی لیکن غالباً اس میں وہ ”زناٹا“ نہیں تھا جس کے لیے وہ کوشش کر رہی تھی۔

سچی بات ہے مجھے اس خاتون کی اس بے بسی پر بہت ترس آیا۔ یعنی حد ہو گئی! ہمارے ہاں کتنا بڑا ظلم ہے کہ ایک صنف نازک کو اتنی ”سہولت“ بھی میسر نہیں ہے کہ وہ کسی پولیس والے کو اپنے ”مطلوبہ معیار“ کا تھپڑ ہی مار سکے۔ یہاں اس پولیس والے کا ’عدم تعاون‘ مجھے بہت گراں گزرا۔ اصولی طور پر اس پولیس والے کو اس شریف خاتون کے احترام میں نیچے بیٹھ کر اس کی خواہش پوری کرنی چاہیے تھی۔ پولیس والوں کے یہی وہ ’مظالم‘ ہیں جن کا آج ہر طرف چرچا ہے۔ اور میرے نزدیک یہی وہ حالات ہیں جس میں اعلیٰ درجے کا ادب تخلیق کرنے کے لیے پولیس والوں کو اب شاید ریٹائرمنٹ کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

اسے حسن اتفاق کہیے کہ اس خاکسار کو بھی ان علاقوں اور ملکوں میں جانے کا موقع ملا جہاں جناب پاشا صاحب نے اپنی قابل قدر سیاحت کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ یعنی ازبکستان، ترکی اور اب مصر۔ میں ان علاقوں میں اپنا ”شوق آوارگی“ پورا کر چکا ہوں لیکن پاشا صاحب کے سفر نامے پڑھتے ہوئے لگا کہ یہ ممالک دوبارہ دیکھے ہیں۔ مجھے اب پتہ چلا کہ وہاں تاریخی عمارتیں اور سڑکیں وغیرہ بھی ہیں۔ میری دلچسپی کا سامان وہاں کچھ اور رہا جس سے پاشا صاحب نے شاید مصلحتاً چشم پوشی اختیار کیے رکھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments