ٹیلی وژن اور اسٹیج کے بیس گٹار پلیئر شہزاد اللہ دتہ جو اب ہم میں نہیں رہے


بہت ہی دکھ کی حالت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں کہ میرے اچھے دوست شہزاد اللہ دتہ دار فانی سے کوچ کر گئے۔ خبر ماننے کو دل نہیں چاہ رہا تھا پھر بھی جبر کر کے ان کے بڑے بھائی اور میرے ساتھی اختر اللہ دتہ سے اس کی تصدیق چاہی۔ انہوں نے بتایا کہ 24 ستمبر کی رات سرگودھا میں شہزاد ایک حادثہ میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انا اللہ۔ ان سے میرا دوستانہ اکتوبر 1980 سے ہوا جب میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز سے منسلک ہوا۔

اختر اللہ دتہ کی موسیقی میں پروڈیوسر سلطانہ صدیقی اور میرے موسیقی کے پروگرام ”سر سنگم“ کے کئی ایک پروگراموں میں شہزاد نے بیس گٹار بجائی۔ اس کے علاوہ محمد علی شہکی کے بینڈ میں بھی اس کی شرکت بھر پور ہوتی تھی۔ مجھے ان کے بڑے بھائی جاوید اللہ دتہ نے بتایا کہ انہوں نے اختر اور شہزاد دونوں کو گٹار بجانا سکھایا۔ پھر سہیل رعنا کے لئے ان تینوں بھائیوں نے ایک فلم کا ٹائٹل میوزک کیا۔ فلم کا نام مجھے یاد نہیں۔

جس پر سہیل رعنا بہت خوش ہوئے۔ یہ جاوید بھائی، اختر صاحب اور شہزاد تینوں بھائیوں کی شروعات تھی۔ میں نے جب اختر صاحب کے میوزک بینڈ کو دیکھا تو اس میں جاوید بھائی، اختر، قمر اور شہزاد تھے۔ ڈرم پر منصور لاکھانی ہوتے جن سے ابھی چند دنوں پہلے آغا خان جمنیزیم، آغا خان اسپتال کراچی میں مل کر بہت خوشی ہوئی۔

اس بینڈ میں بعد میں عشرت اللہ دتہ بھی شامل ہو گیا اور ریکارڈنگ میں آنے لگا۔ یہ اس وقت جامعہ کراچی میں پڑھتا تھا۔ پھر شکاگو، ریاست ہائے متحدہ امر یہ میں نقل مکانی کر گیا۔ میں اس سے 2002 میں ملنے شکاگو گیا تھا۔ وہیں شہزاد اللہ دتہ بھی تھا۔ دونوں کی کمیونٹی میں بہت آؤ بھگت تھی۔ میں نے کشور اللہ دتہ کو بہت چھوٹا دیکھا تھا۔ اس نے پہلے اپنے بڑے بھائیوں سے سیکھا اور ریکارڈنگ میں بیس گٹار بجایا۔ اب ما شاء اللہ وہ راحت فتح علی خان کے ساتھ بیس گٹار بجاتا ہے اور دنیا جہاں میں اس کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے۔

اختر صاحب نے بتایا کہ شہزاد کی اکبر روڈ، کراچی میں ذاتی نئی پرانی موٹر سائیکلوں کی دکان ہے اور اس نے گٹار بجانا چھوڑ دیا تھا۔ ویسے میں سمجھتا ہوں کہ وہ بہت اچھا بیس گٹار بجاتا تھا۔ عشرت بھی گٹار سیکھ رہا تھا لیکن امریکہ چلا گیا۔ وہ وہاں بھی گٹار بجاتا ہے۔ گھروں میں فنکشن ہوتے ہیں وہ ان میں مصروف رہتا ہے۔ میری شہزاد سے جو آخری ملاقات ہوئی تو اس سے پوچھا : ”کیا آپ اپنی اس زندگی سے مطمئن ہیں؟“ ۔ تو اس نے کہا: ”اللہ نے اتنا کچھ دیا ہے کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا! میں جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہے! “ ۔

سلمان علوی:

میں نے مناسب سمجھا کہ ملک کے معروف فنکار، میرے اور شہزاد کے دیرینہ دوست سلمان علوی سے مرحوم کے لئے کچھ بات کروں۔ سلمان نے کہا: ”شہزاد اللہ دتہ خانوادہ اللہ دتہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس خاندان کا موسیقی میں بہت حصہ ہے۔ سب بھائی اور کزن قمر اللہ دتہ مل کر ایک خانوادہ بنتا ہے۔ سب بھائیوں کی میوزک انڈسٹری میں بہت خدمات ہیں۔ جو آج تک چلی آ رہی ہیں۔ شہزاد اللہ دتہ نے پس پردہ رہ کر زیادہ کام کیا۔ اس خاندان کے بعض لوگ ابھر کر سامنے آئے جیسے جاوید اللہ دتہ صاحب کیوں کہ وہ ستار بھی بجاتے تھے پھر پی ٹی وی پر کمپوزر رہے اور بہت مقبول گانے بنائے۔

انہوں نے فلموں میں بطور موسیقار گانے بھی بنائے۔ پھر اختر اللہ دتہ نے بھی ٹی وی سے بہت کام کیا۔ قمر اللہ دتہ جو ان کے کزن تھے مگر اللہ دتہ خاندان ہی کہلاتے تھے، ان کا بھی نام بہت آیا۔ وہ گٹارسٹ تو تھے ہی بہت اچھے مگر ارینجر، کنڈکٹر اور کمپوزر بھی کم نہیں تھے۔ ان سب کا مزاج ماشاء اللہ نہایت ہی شائستہ ہے۔ بہت سلجھے اور پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ان میں جاوید اللہ دتہ ایک بہت بڑا نام ہے اللہ تعالیٰ ان کو صحت دے۔ قمر اللہ دتہ ہم سے جلدی بچھڑ گئے۔ اختر اللہ دتہ اور کشور اللہ دتہ اب بھی کام کر رہے ہیں۔ اب ان کی دوسری نسل آ گئی ہے۔ جاوید اللہ دتہ اور اختر اللہ دتہ کے صاحب زادگان بہترین کام کر رہے ہیں۔ یہ خاندان میوزک میں بھر پور حصہ ڈالتا رہا ہے“ ۔

سلمان علوی نے مزید بتایا : ”شہزاد اللہ دتہ کے ساتھ میرا پہلا واسطہ تب ہوا جب ای ایم آئی میں میرا پہلا آڈیو کیسٹ ریکارڈ ہوا۔ انور مقصود اور ارشد محمود صاحب نے میرے کیسٹ کا انتظام کیا تھا۔ اس کی ریکارڈنگ میں اختر اللہ دتہ نے کی بورڈ، شہزاد اللہ دتہ نے بیس گٹار اور قمر اللہ دتہ نے اسپینش گٹار بجایا۔ تینوں اللہ دتہ نے اس کیسٹ میں دھنک کے تمام ہی خوبصورت رنگ بھر دیے۔

اللہ دتہ فیملی میں میری قمر اللہ دتہ سے زیادہ ملاقاتیں رہیں۔ مگر اکثر بڑے پروگراموں میں ہمیں جب بیس گٹار کی ضرورت ہوتی تو قمر اللہ دتہ زیادہ تر شہزاد اللہ دتہ کو لاتے۔ یہ میسر نہ ہوتے تو کشور اللہ دتہ۔ شہزاد اللہ دتہ اپنی بردباری قائم رکھتے تھے۔ ہر ایک چھوٹے بڑے پروگرام میں نہیں جاتے تھے۔ بڑے گٹارسٹ تھے۔ میوزک کے حلقوں میں ان کی بہت توقیر تھی۔ شہزاد بھائی کے ساتھ میری بہت اچھی سلام دعا تھی۔ میرے سارے کام قمر اللہ دتہ کیا کرتے تھے۔

ایک پروگرام ایسا آیا جس میں 25 سے 30 میوزیشن کے آرکیسٹرا کی ضرورت تھی۔ اس وقت قمر اللہ دتہ ملک سے باہر تھے۔ مجھے یہ پروگرام کرنا بہت ضروری تھا۔ اس قسم کے آرکسٹرا کو سنبھالنا بظاہر ایک بڑے میوزک ڈائریکٹر اور آرٹسٹ کا کام ہوتا ہے۔ میرے پاس جو دوسرا نام تھا وہ شہزاد اللہ دتہ تھا۔ میں نے ان سے پروگرام کنڈکٹ کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے بخوشی حامی بھر لی۔ پہلے ہی تمام میوزیشن ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ پھر اس پروگرام کی ریہرسل بھی شہزاد اللہ دتہ نے کیا خوب ہی کروائیں۔

انہوں نے وہ پورا پروگرام اسٹیج پر کھڑے ہو کر کنڈکٹ کیا اور بہت اچھا کنڈکٹ کیا۔ مجھے بھی کہا کہ تم ردھم کے شعبہ کو کھڑے ہو کر کنڈکٹ کرو باقی تمام میوزیشن کو میں دیکھوں گا۔ میری ان سے پروگرام اور ریکارڈنگ کے علاوہ بھی گاہے بگاہے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میں نے ان کے ذاتی اسٹوڈیو میں بھی کافی ساری ریکارڈنگ کی ہیں۔ وہاں جب بھی جاتا ان سے ملاقات ہوتی۔ اپنے اسٹوڈیو میں انہوں نے میری ریکارڈنگ میں گٹار بھی بجایا۔ البتہ کچھ سالوں سے ان سے ملنا کم ہو گیا تھا۔ صحیح بات ہے کہ ملتے جلتے رہنا چاہیے کیوں کہ کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کون کب جدا ہو جائے۔ اب شہزاد اللہ دتہ کے انتقال کی بہت افسوسناک خبر سنی۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).