پشتونخوا میپ کے شاہ شجاع، شاہنواز تنی اور سقاؤ


تحریکوں کی کہانیاں بھی عجیب ہوتی ہے۔ ایک ہی کہانی اپنے آپ میں لطف، سبق، معلومات، انقلابی عزم، سازشیں، جدوجہد، امیدیں اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ سمیٹے ہوتی ہے۔ ان کہانیوں کے لکھنے کے لئے ایک مشکل کام یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ کہاں سے شروع کی جائیں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی کہانی لکھنے میں بھی یہی مشکل ہے کہ کہانی کہاں سے شروع کی جائیں۔

شاید اس کہانی کی ابتدا جارج آرویل کے مشہور زمانہ ناول اینیمل فارم کے ذکر کے ساتھ ہونی چاہیے۔ اس ناول میں موجود کردار بظاہر تو حیوانات کے ہے لیکن اس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے بائیں بازو کی جماعتوں میں ایک مخصوص گروہ بنتا ہے جو نظریات اور ڈسپلن کے نام پر اجارہ داری قائم کرتا ہے، کیسے ایک گروہ ڈسپلن کی خلاف ورزی کے نام پر اختلاف کرنے والوں کو ٹکانے لگاتا ہے اور کیسے قواعد میں مرضی کے ترامیم کرواتا ہے۔ اگر آپ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے کارکن، ہمدرد رہے ہیں یا آپ نے اس جماعت کا مشاہدہ کیا ہے تو آپ کو حال ہی میں پشتونخوا میپ سے نکالے گئے افراد اس ناول میں گھومتے پھرتے نظر آئیں گے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی گزشتہ چند سالوں سے مسلسل اندرونی کشمکش میں مبتلا تھی۔ پارٹی میں ایک گروہ تنظیم، آئین، ڈسپلن اور نظریات کے نام پر پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا رہا۔ پارٹی چیئرمین پر نامناسب الزامات لگاتا رہا۔ یہ گروہ چیئرمین کے ہر فیصلے کی مخالفت کرتا اور پارٹی چیئرمین کے خلاف مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ محاذ بناتا رہا۔ ان افراد کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی لیکن تادیبی کارروائی کرتا بھی تو کون؟ یہ خود ہی تو مرکزی اور صوبائی عہدیدار ٹھہرے۔

پچھلے 30 سال کے دورانیے میں پارٹی کے تمام اداروں پر یہ افراد اس طرح قابض ہوچکے تھے کہ یہ لوگ پارٹی کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے تھے۔ جمہوری مرکزیت کے اصول کا غلط استعمال کرتے ہوئے عہدے اپنے ذاتی وفاداروں میں تقسیم کیے ۔ صاحب علم افراد کو ایک ایک کر کے پارٹی سے نکالا گیا اور اختلاف کرنے والے ہر کارکن پر جاسوسی کا ٹھپا لگا کر اسے پارٹی سے بے دخل کیا گیا۔ پارٹی کے مالی امور ان کے اختیار میں تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ جن عہدیداروں کے پاس کچھ نہ تھا اور نہ اس عرصے میں کوئی کاروبار کیا انہوں نے وہ عہدیداران آج کروڑوں کے جائیدادوں کے مالک ہیں۔ کوئی 450 ایکڑ زمین اور فارم ہاؤسز کا مالک ہے تو کسی کے درجنوں بنگلے ہیں۔

اس دوران پارٹی کے نظریاتی اساس کو بدلنے کی بھی کوششیں ہونے لگی۔ ضد سامراج، ضد فیوڈل اور جمہوری کریکٹر رکھنے والی ایک ترقی پسند وطن دوست جماعت پشتونخوا میپ کو کمیونسٹ پارٹی بنانے کی بھی کوششیں ہوتی رہی۔ پارٹی کے بانی خان شہید کے نظریات کو کارکنوں سے دور رکھا گیا۔

پارٹی کے چیئرمین 1983 میں جنرل ضیا کے مارشل لا میں قاتلانہ حملے میں بچ جانے کے بعد روپوش تھے۔ روپوشی ختم ہوئی تو 90 کی دہائی میں ریاستی تشکیل شدہ قبائلی جھگڑے کے باعث پارٹی امور سے دور رہے۔ 2000 کی دہائی میں مشرف کی مارشل لا میں جمہوری قوتوں کو یکجا کرنے اور مختلف تحریکیں منظم کرتے رہے اور جمہوریت بحالی کے بعد سیکیورٹی تھریٹ کے نام پر انہیں عوام سے دور رکھا گیا۔ سال 2012 میں پشتونخوا میپ کے زیر اہتمام عوامی رابطہ مہم چلایا گیا لیکن اس کے کسی ایک جلسے میں بھی چیئرمین کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ شاید وہی سے ہی مائنس ون فارمولے پر عمل کرنے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ اس رابطہ مہم کا آخری جلسہ کوئٹہ شہر میں منعقد تھا جس میں چیئرمین محمود خان اچکزئی اچانک پہنچے۔

اس کے بعد پارٹی میں مسلسل بحران رہا۔ چیئرمین کے ہر فیصلے کی مخالفت کی جاتی۔ مسلم لیگ نون کے ساتھ اتحاد کو ایسا پیش کیا گیا جیسے جماعت مکمل بیچ ڈالی ہو کسی نے۔ وزارتوں اور گورنری کی تقسیم پر یہی تماشا ہوا۔ حکومت گزری تو جمعیت علما اسلام کے ساتھ اتحاد کو اس بنا پر رد کیا گیا کہ یہ رجعتی ہے اور ہم ترقی پسند حالانکہ اسی مسلم لیگ اور جمعیت کے ساتھ ماضی میں بھی اتحاد ہوا تھا۔ اس اختلاف کو پہلے تنظیمی بحران بنا کر پیش کیا گیا تھا اس الزام کے ساتھ کے پارٹی چیئرمین پارٹی کے اداروں کو بائی پاس کر رہے ہیں۔ اور چلتے چلتے اس بحران کو افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد نظریاتی بحران کا نام دیا گیا۔

جنوری 2022 میں پشتونخوا میپ نے اپنا چٹھا قومی کانگریس منعقد کیا گیا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جس نے جو کیا سب معاف اب آگے مل گر دوبارہ پارٹی کو فعال بنائیں گے۔ اس مخصوص گروہ کو عہدے دیے گئے۔ مختار یوسفزئی کو مرکزی جنرل سیکرٹری بنایا گیا۔ کانگریس نے فیصلہ کیا کہ تنظیم سازی کی جائے گی۔ سوشل میڈیا پر پارٹی کے اندرونی مسائل بحث نہیں کیے جائیں گے، بنوں جرگہ منعقد کیا جائے گا۔ جیسے ہی پارٹی نے بنوں جرگے کا اعلان کیا تو روز اول سے ہی اس مخصوص گروہ کے اہم رہنما رضا محمد رضا اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکلے اور الٹا اس جرگے کے خلاف کیمپین کرنے لگے کہ یہ ممکن نہیں ہے اور جس علاقے میں منعقد کیا گیا ہے وہاں دہشتگردی کا خطرہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہر جلسے، جلوس، میٹنگ میں یہ مخصوص ٹولہ کانگریس میں افغانستان کے متعلق چیئرمین کے پیش کردہ بیانیے کے خلاف بولتے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے کہ چیئرمین نظریاتی طور پر گمراہ ہے۔

پشتونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے از سر نو تشکیل کے لئے سینئر ڈپٹی چیئرمین عبدالرحیم زیارتوال اور مرکزی جنرل سیکرٹری مختار یوسفزئی پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی جس نے متفقہ طور پر جنوبی پشتونخوا کی آرگنائزنگ کمیٹی کا اعلان کیا۔ کچھ دن بعد مختار خان نے بغیر صلح مشورے ایک اور توسیع لسٹ بذریعہ سوشل میڈیا شایع کرتے ہوئے پشتونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے تقسیم کی بنیاد رکھی۔ مرکزی جنرل سیکرٹری نے بذریعہ سوشل میڈیا غیر آئینی احکامات جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے مرکزی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا۔

اجلاس بھی اس مرکزی کمیٹی کا طلب کیا جس کو چھٹی قومی کانگریس میں تحلیل کیا گیا تھا۔ اجلاس طلب کرنے کے ساتھ ہی پورے ملک میں تمام پشتونخوا میپ کے مخالفین کے ساتھ رابطے شروع ہوئے اور پارٹی تقسیم کرنے کے سازش کو عملی جامہ پہنانے پر اتفاق کرتے ہوئے پارٹی کا کانگریس اعلان کیا گیا۔ مختار صاحب چھٹے قومی کانگریس میں مرکزی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے لیکن کانگریس انہوں نے پانچواں بلایا اور پچھلے پانچویں اور چھٹے قومی کانگریس کو ماننے سے صاف انکار کیا۔

ان تمام ملکان، سرداران اور جماعتوں سے کانگریس کے لئے چندہ لیا گیا جن کے متعلق سارا وطن گواہ ہے کہ یہ جاسوسی اداروں کے پے رول پر ہے۔ یوں محمود خان اچکزئی کے خلاف محاذ تشکیل دیا گیا۔ اس پورے صورتحال میں چند سرکاری ملازمین، چند معزز عدلیہ کے ججز اور مخالف جماعتیں سرگرم رہی۔ اس پشتون دشمن اقدام کے لئے عثمان کاکڑ شہید کے نوجوان بیٹے خوشال کاکڑ کو اس لئے چنا گیا کہ شاید عثمان شہید کے ساتھ ہمدردی کی بنا پر یہ پروجیکٹ کامیاب ہو سکے۔ یہ اسی عثمان کاکڑ کے بیٹے ہے جنہوں نے اپنے آخری تقریر میں کہا تھا کہ جاسوسی ادارے غلط فہمی میں ہے ہم سب پارٹی چیئرمین کے دفاع میں کھڑے ہے۔

پشتونخوا میپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے 7 اکتوبر 2022 کو اپنے تقریر میں پارٹی کے رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن لوگوں نے ایجنسیوں کے ذمہ دار افراد سے ملاقاتیں کی ہے وہ یاد رکھیں کہ انہوں سارے جہاں کو بتایا ہے کہ کس کس نے ملاقاتیں کی ہے۔

ہمارے ملک کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کو توڑنے کی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ 28 دسمبر 2022 کو اسٹیبلشمنٹ نے ایک دفعہ پھر یہ تاریخ دہرائی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ماضی میں یہ کوششیں کامیاب ہوئی؟ جس تعداد میں پشتونخوا میپ کے کارکنان نے 2 دسمبر 2022 کے جلسے میں شرکت کی اور محمود خان اچکزئی کے بلائے گئے کانگریس میں شرکت کی اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ پشتونخوا میپ ایک موثر جمہوری، قومی آواز کے طور پر ابھرے گی جبکہ پشتونخوا میپ پر شب خون مارنے والے تاریخ میں شاہنواز تنی، شاہ شجاع اور سقاؤ کے کرداروں طور پر یاد کیے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments