آئی سی سی کی آمدن میں انڈیا کا حصہ سب سے زیادہ کیوں اور پاکستان کو اس پر کیا اعتراض ہے؟

چندر شیکھر لوتھرا - بی بی سی ہندی


انڈیا، پاکستان، کرکٹ
کرکٹ کی دنیا میں ان دنوں جہاں ایشز سیریز چھائی ہوئی ہے وہیں انڈین کرکٹ ٹیم کے ویسٹ انڈیز دورے کے بھی چرچے ہو رہے ہیں اور انڈیا میں اس سال ورلڈ کپ کی تیاریاں جاری ہیں تاہم اس سب کے بیچ آمدن کی تقسیم کے لیے آئی سی سی کا ماڈل زیرِ بحث ہے۔

انڈین کرکٹ ٹیم ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں تو آسٹریلیا کو شکست نہ دے سکی لیکن وہ ’ہوم ورلڈ کپ‘ میں فیورٹس میں سے ایک ہے۔

ورلڈ کپ کے انعقاد سے قبل رواں ماہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے اجلاس میں یہ واضح ہوا کہ انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کا دنیائے کرکٹ پر غلبہ برقرار رہے گا۔

رواں ماہ ڈربن میں ہونے والے اجلاس کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ سال 2024 سے 2027 تک انڈین کرکٹ بورڈ کو آئی سی سی کی سالانہ آمدن کا 38.5 فیصد حصہ ملے گا۔ یہ رقم تقریباً 231 ملین ڈالر ہے۔

یہ رقم کتنی بڑی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دس سال قبل بگ تھری یعنی انڈیا، آسٹریلیا اور انگلینڈ نے مل کر اتنے حصے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ اب اتنا حصہ صرف انڈیا کو مل رہا ہے۔

اگرچہ اس ماڈل کو نافذ نہیں کیا گیا تاہم ان کے مطالبے کا اثر یہ ہوا تھا کہ بی سی سی آئی کو 2015 سے 2023 تک آئی سی سی کی آمدن میں سے 22 فیصد حصہ ملا۔

درحقیقت جب ششانک منوہر 2015 میں آئی سی سی کے سربراہ بنے تو انھوں نے تینوں ممالک کو سب سے زیادہ آمدنی دینے والے ماڈل کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ اس سے امیر بورڈز مزید امیر اور غریب کرکٹ بورڈز غریب تر ہو جائیں گے۔

انڈیا، جے شاہ

آئی سی سی کی آمدن میں سے کس ملک کو کتنا حصہ مل رہا ہے؟

آئی سی سی کی نئی تبدیلیوں میں یہ نہیں بتایا گیا کہ دیگر رکن ممالک کو ان کا حصہ کیسے ملے گا لیکن یہ کہا گیا ہے کہ ہر رکن ملک کو پہلے سے زیادہ رقم ملے گی۔

اب بی سی سی آئی کو ملنے والا حصہ انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ کو ملنے والے 41 ملین ڈالر سے تقریباً چھ گنا زیادہ ہے۔

انگلش کرکٹ بورڈ 6.89 فیصد حصے کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ تیسرے نمبر پر آسٹریلوی بورڈ کو 6.25 فیصد کے ساتھ 37.53 ملین ڈالر ملیں گے۔

یعنی دوسرے اور تیسرے نمبر والے بورڈز کو ملنے والی رقم کے مقابلے میں صرف انڈین کرکٹ بورڈ کا حصہ تین گنا زیادہ ہو گا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کو 5.75 فیصد یعنی 34.5 ملین ڈالر ملیں گے۔

اس کے علاوہ بنگلہ دیش، سری لنکا، افغانستان، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، زمبابوے، ویسٹ انڈیز اور آئرلینڈ کو پانچ فیصد سے کم رقم ملے گی۔

انڈیا کا حصہ زیادہ کیوں اور اس پر کیا اعتراض؟

انڈیا، کرکٹ

ایسے میں ایک سوال ضرور اٹھتا ہے کہ بی سی سی آئی کو اتنا بڑا حصہ کیسے مل رہا ہے۔ اس کا جواب بھی سب کو معلوم ہے۔

ایک طویل عرصے سے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی آمدنی کا 70 سے 80 فیصد حصہ انڈین مارکیٹ سے آتا ہے۔

اگرچہ بی سی سی آئی کی آمدن دیگر بورڈز کے مقابلے بہت زیادہ نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں یہ اتنی بڑی آمدن نہیں۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بی سی سی آئی کو آئی سی سی ٹورنامنٹ کے دوران حکومت سے کسی قسم کی ٹیکس رعایت نہیں ملتی۔

سورو گنگولی کی صدارت کے دور میں بی سی سی آئی کے ایک اندازے کے مطابق اگر انڈین حکومت نے 2023 ورلڈ کپ کے انعقاد کے لیے بی سی سی آئی کو ٹیکس میں رعایت نہ دی ہوتی تو بورڈ کو کم از کم 955 کروڑ روپے کا نقصان ہوتا۔

انڈین حکومت نے میچز نشر کرنے سے حاصل ہونے والی آمدن پر 21.84 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انڈیا کے ٹیکس قوانین میں عالمی سطح کے کرکٹ ٹورنامنٹ پر کسی قسم کی چھوٹ نہیں۔ اس کی وجہ سے بی سی سی آئی کو 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران بھی 193 کروڑ روپے کا ٹیکس ادا کرنا پڑا تھا۔

سورو گنگولی اور جے شاہ کے دور کو اس وجہ سے کافی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ان دونوں نے اس پورے معاملے کو صحیح طریقے سے نہیں سنبھالا۔

اس سلسلے میں پچھلے سال دونوں نے انڈیا کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن سے بھی ملاقات کی تھی، جس میں حکومت نے واضح طور پر کہا کہ بی سی سی آئی کو منافع کے بجائے کل آمدنی پر انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

اگرچہ آئی سی سی کی دفعات کے مطابق میزبان ملک آئی سی سی ٹورنامنٹ کے انعقاد کے دوران حکومت سے ٹیکس میں رعایت حاصل کر سکتا ہے لیکن بی سی سی آئی سے متعلق اس معاملے میں کوئی وضاحت نہیں۔

تاہم جے شاہ، جو انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ کے بیٹے ہیں، کے بطور بی سی سی آئی سیکریٹری ہونے سے لوگوں کو امید ہے کہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیا جائے گا اور بی سی سی آئی پر زیادہ ٹیکس کا بوجھ نہیں پڑے گا۔

اس ماڈل کی منظوری کے دوران پاکستان نے اپنی مخالفت ظاہر کی تھی۔ ایک بیان میں پی سی بی نے کہا کہ ’تمام متعلقہ معلومات، ڈیٹا اور فارمولے کی عدم موجودگی میں ایسا اہم فیصلہ جلد بازی میں نہیں لینا چاہیے۔‘

خیال رہے کہ مئی میں نجم سیٹھی نے بطور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ اس مجوزہ ماڈل ناراضی ظاہر کی تھی۔ ان کا سوال تھا کہ آئی سی سی کو ان اعداد و شمار کی تفصیلات دینا ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس صورتحال سے خوش نہیں۔‘

تاہم انھوں نے تسلیم کیا تھا کہ اصولاً انڈیا کو زیادہ حصہ ہی ملنا چاہیے مگر یہ پوچھا جانا چاہیے کہ آئی سی سی ان اعداد و شمار تک کیسے پہنچا۔

سابق پاکستانی کرکٹر راشد لطیف نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ پی سی بی کو آئی سی سی سے زیادہ شیئر کا مطالبہ کرنا چاہے۔ ’سب سے زیادہ دیکھے جانے والا میچ انڈیا بمقابلہ پاکستان ہے۔ تو پی سی بی کو کوئی راستہ نکالنا چاہیے۔ اگر پاکستان آئی سی سی ایونٹ نہیں کھیلتا تو اس کا آمدن پر کیا اثر پڑے گا؟‘

ان کا سوال تھا کہ ’اگر ایمیرٹس ایئر لائن سب سے بڑا سپانسر ہے تو کیا یو اے ای بورڈ کو سب سے زیادہ شیئر دیا جائے؟ حصہ ویورشپ کی بنیاد پر ملنا چاہیے نہ کہ سپانسرشپ۔‘

سابق انگلش کپتان مائیکل ایتھرٹن نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’یہ ناقص ماڈل امیر ملکوں کو مزید امیر بنائے گا۔‘

انھوں نے کہا تھا کہ ’ویسٹ انڈیز اور ایسے دوسرے ملک بھی ہیں جہاں مقامی مارکیٹ سے زیادہ انحصار آئی سی سی سے ملنے والی آمدن پر ہوتا ہے۔ آمدن کی تقسیم کے ماڈل سے برابری پیدا کرنے میں مدد ملنی چاہیے۔‘

https://twitter.com/iRashidLatif68/status/1656922299977682945

مردوں اور خواتین کے مقابلوں میں یکساں انعامی رقم

آئی سی سی اجلاس میں آمدن کی تقسیم کے علاوہ ایک اور اہم فیصلہ کیا گیا۔ اب مردوں اور خواتین کو تمام بین الاقوامی کرکٹ ٹورنامنٹس میں یکساں انعامی رقم ملے گی۔

بی سی سی آئی کے سکریٹری جے شاہ نے گذشتہ سال بین الاقوامی میچوں کے لیے یکساں میچ فیس کے نفاذ کا اعلان کیا تھا تاہم اس طرح کے اعلانات میں بھی کچھ مسائل باقی ہیں۔

مردوں اور خواتین کی کرکٹ میں بین الاقوامی سطح کے میچوں کی میچ فیس برابر کر دی گئی ہے تاہم کھلاڑیوں کے معاہدوں اور دونوں ٹیموں کے درمیان میچوں کی تعداد میں اب بھی کافی فرق ہے۔

اس کے باوجود اسے خواتین اور مردوں کی کرکٹ میں برابری کی جانب ایک بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

2019 کے مینز کرکٹ ورلڈ کپ میں انگلینڈ کو چیمپیئن بننے پر 28.4 کروڑ روپے کی انعامی رقم ملی تھی جبکہ رنر اپ نیوزی لینڈ کو 14.2 کروڑ روپے ملے۔

اس کے مقابلے میں 2022 کی چیمپیئن آسٹریلوی ٹیم کو ویمنز ورلڈ کپ میں تقریباً 10 کروڑ روپے کی انعامی رقم ملی جبکہ رنر اپ انگلینڈ کو 4.5 کروڑ روپے ملے تھے۔

آئی سی سی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سنہ 2030 تک تمام ٹورنامنٹس کی انعامی رقم خواتین اور مردوں کے لیے یکساں ہوگی۔

ٹی ٹوئنٹی، آسٹریلیا، انگلینڈ

ٹی ٹوئنٹی لیگز کی تعداد بڑھے گی

اس کے علاوہ آئی سی سی کے اجلاس میں دنیا بھر میں ہونے والی ٹی ٹوئنٹی لیگ کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی ہے۔ آئی سی سی کے اجلاس میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ لیگز پر کوئی پابندی نہ لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی تجویز منظور کر لی گئی ہے۔

ان میں آئی ایل ٹی 20، ایم ایل سی اور کینیڈا پریمیئر لیگ جیسے ٹورنامنٹ شامل ہیں۔

تاہم ٹی ٹوئنٹی لیگز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ایسی شرائط رکھی گئی ہیں تاکہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے ماہر کرکٹرز کی ایک بڑی تعداد ان ٹورنامنٹس میں شرکت کے لیے اپنی اپنی ٹیموں سے ریٹائرمنٹ کا اعلان نہ کرے۔

ہر ٹیم کو ڈومیسٹک اور ایسوسی ایٹ ممبر ممالک سے کم از کم سات کرکٹرز کو میدان میں کھیلانا ہو گا۔

یاد رہے کہ ان دنوں میجر کرکٹ لیگز کے میچز امریکہ میں کھیلے جا رہے ہیں جبکہ سعودی عرب بھی آنے والے دنوں میں ایسی لیگ شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

ایسے میں آئی سی سی بھی بین الاقوامی کرکٹ کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ لیگ کا انعقاد کرنے والے بورڈ کو غیر ملکی کھلاڑیوں کے ڈومیسٹک بورڈ کو بھی ایک مقررہ رقم ادا کرنا ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32602 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments