او جی ڈی سی ایک دوراہے پر


تیل اور گیس کی ترقیاتی کارپوریشن جسے عرف عام میں او جی ڈی سی کے نام سے جانا جاتا ہے ایک سرکاری شعبے کی کمپنی ہے۔ اس کمپنی کے حصص پاکستان اور لندن سٹاک ایکسچینج پر درج ہیں۔ حکومت پاکستان 85.03 % حصص کے ساتھ اس کمپنی کی سب سے بڑی حصہ دار ہے جبکہ ملکی اور غیر ملکی شہری، ادارے اور دیگر کمپنیاں بقیہ 14.97 % حصص کے مالک ہیں۔

او جی ڈی سی ملک میں تیل اور گیس تلاش کرنے اور پیداواری لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی کمپنی ہے جس کے پاس ملک میں تیل اور گیس کے کل ذخائر کا بالترتیب 46 % اور 29 % حصہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس ایل پی جی مارکیٹ کا 36 % حصہ ہے۔ مالیاتی سال 22۔ 23 کے اختتام پر کمپنی کے مجموعی بقیہ قابل حصول 2 P ذخائر کا تخمینہ 81 ملین بیرل خام تیل اور 5,393 بلین مکعب کیوبک فٹ گیس لگایا گیا ہے جو کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کی ضروریات کو اگلے 15 سال تک پورا کرنے کا حامل ہے۔

کمپنی ملک میں تیل اور گیس کی تلاش کا سب سے زیادہ رقبہ رکھتی ہے جو کہ 30 جون 2023 کو 87,002 مربع کلومیٹر پر محیط تھا جو کہ ملک کے کل زیر تلاش رقبے کا 37 % تھا۔ درحقیقت یہ کمپنی کے پاس پائے جانے والا سب سے بڑا مسابقتی فائدہ ہے لیکن کمپنی اس کا آج تک خاطر خواہ فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے۔ ایسا آخر کیوں کر ہے اس بات کا جائزہ ہم اس مضمون کے آنے والے حصے میں زیر بحث لائیں گے۔

ان دنوں او جی ڈی سی کی انتظامیہ اس بات پر بے حد نازاں ہے کہ اس نے 30 جون 2023 کو اختتام پذیر سال میں اپنی تاریخ کا سب سے بڑا منافع کمایا جہاں اس کا قبل از اور بعد از ٹیکس منافع بالترتیب 384 ارب روپے اور 225 ارب روپے تک جا پہنچا۔ منافع میں اس قدر اضافے کے ساتھ ہی کمپنی کی فی حصص آمدنی 52.23 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ بدقسمتی سے ان تمام تر کامیابیوں کے باوجود کمپنی کی تیل، گیس اور ایل پی جی کی پیداوار مالی سال 22۔23 میں گزشتہ سال کے مقابلے میں بالترتیب 7.97 %، 7.98 % اور 12.08 % کم رہی۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس بات کا بغور تجزیہ کیا جائے کہ آخر کار وہ کون سے عوامل تھے جس نے کمپنی کے منافع کو پیداوار میں کمی کے باوجود اس کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا۔ کمپنی کی آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ اس قدر منافع کی وجوہات دراصل تیل اور گیس کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمتیں، پاکستانی روپے میں تاریخ ساز گراوٹ، ملک میں شرح سود میں نمایاں اضافہ اور قریباً 100 بلین روپے کا اکاؤنٹنگ منافع تھا۔ بہرحال سال 22۔ 23 میں کمپنی کی سب سے بڑی کامیابی اس کی 149 % کی ریزرو ریپلیسمنٹ ریشو تھی۔

او جی ڈی سی کی پیداواری اور لکویڈٹی کی صلاحیت گزشتہ چھ سالوں میں غیر اطمینان بخش رہی ہے۔ کمپنی اس عرصے میں اپنے تیل اور گیس کے ذخائر میں ما سوائے ”ولی بلاک“ کے کسی اور خاطر خواہ اضافے میں ناکام رہی۔ اس بلاک میں پائے جانے والے 2 P ذخائر کا اندازہ 55 بی او ای کے قریب ہے لیکن یہ بلاک ما سوائے ایک پیداواری کنویں کے ابھی تک ترقیاتی مراحل میں ہے۔

او جی ڈی سی نے سال 17۔ 18 میں 14.867 ملین بیرل خام تیل اور 373.192 ملین مکعب فٹ گیس پیدا کی۔ اس کے برعکس سال 22۔ 23 میں کمپنی کی تیل اور گیس کی پیداوار 11.432 ملین بیرل اور 278.903 ملین کیوبک فٹ رہی جو کہ سال 17۔ 18 کے مقابلے میں 30.04 % اور 33.80 % کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ بہرحال اس عرصے میں کمپنی کی ایل پی جی کی پیداوار 4.3 % اضافے کے ساتھ 261,798 ٹن رہی۔

مالی سال 30 جون 2023 کے اختتام پر کمپنی کے مجموعی قابل وصول تجارتی واجبات 770 ارب روپے کی بلند ترین سطح پر تھے جو کہ درحقیقت اس عرصے میں کی جانے والی مجموعی فروخت سے 1.86 گنا زیادہ تھے۔ اس گمبھیر مسئلے کی وجہ سے کمپنی اپنی ترقیاتی کاموں پر خاطر خواہ اضافے کے علاوہ اپنے حصے داروں کو کوئی معقول منافع دینے سے قاصر رہی ہے جو کہ اس کے چھوٹے حصے داروں کے لیے ایک انتہائی تکلیف دہ امر تھا۔ حکومت پاکستان جو کہ کمپنی کی سب سے بڑی حصے دار ہے نے بہرحال اس سنگین مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی کیونکہ اس نے اس عرصے میں کمپنی سے ٹیکس، رائلٹی، پیٹرولیم لیوی، ایکسائز ڈیوٹی اور منافع کی شکل میں 279 ارب روپے کی خطیر وصولی کی جو کہ اس کے لیے ایک بے حد قابل اطمینان امر تھا۔

او جی ڈی سی کی گزشتہ سالوں میں انتہائی واجبی کارکردگی دراصل ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال کی حقیقی عکاس ہے۔ ملک کی جمود کا شکار برامدات، بیرون ملک پاکستانیوں کی گرتی ہوئی ترسیلات زر اور تیزی سے بڑھتی ہوئی درامداد نے ملک کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر پر انتہائی منفی اثرات چھوڑے ہیں۔ اس تمام صورتحال میں او جی ڈی سی کی جانب سے تیل اور گیس کی تلاش میں کسی قابل قدر کامیابی حاصل نہ کرنے کی وجہ سے ملک کو درپیش مسائل میں مزید بگاڑ پیدا ہو گیا ہے جو کہ کسی بھی لحاظ سے ایک قابل تعریف بات نہیں ہے۔ ملک میں قائم شدہ گزشتہ کئی حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی اور گردشی قرضے کو حل کرنے میں ناکامی اس وقت کمپنی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کمپنی فی الحال کسی نظریے، عزم مسمم، پیشہ ورانہ صلاحیت اور غیر تسلی بخش مالی ذخائر ہونے کی وجہ سے اس رکاوٹ کو عبور کرنے سے قاصر نظر آ رہی ہے۔

او جی ڈی سی کا موجودہ بورڈ اف ڈائریکٹرز اور انتظامیہ ناقص حکومتی پالیسیوں کی حقیقی عکاسی کرتا ہے۔ یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ کمپنی گزشتہ تین سالوں سے کسی بھی مستقل سربراہ سے محروم ہے۔ کمپنی کے موجودہ عارضی سربراہ کی تعیناتی فروری 2023 میں عمل میں لائی گئی۔ صاحب مضمون ان کی پیشہ ورانہ اور کاروباری صلاحیتوں پر کسی بھی قسم کا شبہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ بہر طور تعلیمی لحاظ سے ایک وکیل ہیں۔ اپنی موجودہ ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے وہ او جی ڈی سی کے کمپنی سیکرٹری تھے جہاں وہ قانونی اور دیگر ریگولیٹری معاملات اور مسائل کو دیکھتے تھے۔

اس وقت کمپنی کے بورڈ اف ڈائریکٹرز کے نو ارکان ہیں۔ بورڈ کے سربراہ تیل اور گیس کے شعبے کے کسی ماہر کی بجائے ایک بینکار ہیں جو کہ گزشتہ تین سال سے یہ انتہائی اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ بورڈ میں شامل چار نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز حکومت پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی بورڈ پر نامزدگی محض وزارت پٹرولیم میں کام کرنے کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ یہ تمام حضرات اپنے شعبے میں ضرور ماہر ہوں گے لیکن وہ تیل اور گیس کے شعبے میں کام کرنے کا کوئی عملی تجربہ نہیں رکھتے۔

کمپنی کے تین آزاد ڈائریکٹرز میں محض ایک کا تعلق تیل اور گیس کے شعبے سے ہے جبکہ باقی دو ڈائریکٹرز میں ایک پیشہ ور وکیل ہیں جب کہ تیسری ڈائریکٹر کے پی سے تعلق رکھنے والی ایک کاروباری خاتون ہیں جن کا تیل اور گیس کے شعبے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بدقسمتی سے بورڈ میں کوئی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بھی نہیں ہے جس کی عدم موجودگی میں بورڈ کی آڈٹ کمیٹی کے سربراہ ایک وکیل ڈائریکٹر ہیں جو کہ درحقیقت گورننس کے بنیادی مقاصد سے صریحاً انحراف ہے۔ کمپنی کے موجودہ عارضی سربراہ با لحاظ عہدہ کمپنی کے واحد ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ او جی ڈی سی کے ایڈیٹرز نے اس مسئلے کو کمپنی کی سٹیٹمنٹ اف کمپلائنس میں اٹھایا ہے جو کہ کمپنی کی سال 22۔ 23 کی بیلنس شیٹ کا اہم حصہ ہے۔

او جی ڈی سی 33، 346 حصہ داران کے ساتھ ملک کا ایک بڑا قابل قدر ادارہ ہے جو کہ بے پناہ اہمیت اور وسائل کا مالک ہے۔ موجودہ نگران حکومت جو کہ اس وقت پی آئی اے کی نجکاری میں غیر ضروری طور پر بے حد مصروف ہے کو مسائل اور مایوسی کا شکار او جی ڈی سی جیسی اہم کمپنی پر فی الفور توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ نگران وزیر توانائی جو کہ ہمہ وقت بلند بانگ دعووں میں مصروف عمل ہیں کو اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت کمپنی کے بورڈ اف ڈائریکٹرز اور انتظامیہ کو دینا ہو گا۔

صاحب مضمون کو اس بات کا ادراک ہے کہ کمپنی کے 770 ارب روپے کے واجبات کو حاصل کرنا بظاہر ان کے بس سے باہر ہے لیکن بہرطور وہ تیل اور گیس کے شعبے کی کسی قد آور شخصیت کو کمپنی کا مستقل سربراہ تو مقرر کر ہی سکتے ہیں۔ وزیر موصوف کے لیے کمپنی کے موجودہ بورڈ کی از سر نو تشکیل دینا ضروری ہے جہاں پر تیل اور گیس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے کم از کم دو ڈائریکٹرز جو کہ مالیاتی امور کو بھی بخوبی سمجھتے ہوں کی تقرری انتہائی ضروری ہے۔

او جی ڈی سی اس وقت اپنی 64 سالہ تاریخ کے اہم دوراہے پر ہے جہاں مذکورہ بالا اہداف کا حصول کمپنی کو ایک بار پھر ترقی اور کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ بصورت دیگر کمپنی کی مجموعی کارکردگی مستقل تنزلی کا شکار رہ سکتی ہے جو کہ ایک بڑا قومی المیہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments