ڈپریشن کو جسمانی مرض سمجھیں، خدا کا عذاب نہیں


کوڑھ کے مریضوں کو ایک عرصے تک بستی سے باہر پھینک دیا جاتا تھا۔ طاعون نے شہروں کے شہر خالی کر دیے اور اسی طرح فلو نے کروڑوں لوگوں کو ابدی نیند سلا دیا۔ تب لوگ اس طرح کے جسمانی عوارض کو عذاب قرار دے کر مریض کو بستی سے نکال دیا کرتے تھے تاہم چند خدا کے نوازے ہوئے لوگ لیبارٹریوں میں بیٹھ کر انسانیت کو پنسلین، اینٹی بائیوٹک، ویکسینیشن کے تحفے دے رہے تھے۔ آہستہ آہستہ لوگوں کو بیماریوں کے بارے میں آگاہی دی گئی۔

معاشروں نے بیماریوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے۔ کچھ بیماریاں جڑ سے ختم ہو گئیں تو کچھ بیماریوں کے خلاف انسانیت کی ہرڈ امیونٹی ڈیویلپ ہو گئی۔ جتنی دیر تک انسان اس کرہ پر رہے گا بیماریاں بھی آتی رہیں گی اور انسان ان کے خلاف لڑتا بھی رہے گا۔ جب سترہویں صدی تک سرمایہ دارانہ انقلاب نہیں آیا تھا بات بہت حد تک جسمانی عوارض تک محدود تھی۔ جہاں اس انقلاب نے انسانوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کیں تو وہیں انقلاب اپنے ساتھ ڈپریشن اور اینگزائٹی کے تحفے لے کر آیا۔

زرعی دور میں چونکہ انسان فطرت کے زیادہ قریب تھا اس لیے تب نفسیاتی بیماریاں بہت حد تک کم تھیں تاہم آج کے دور میں صورتحال یہ ہے کہ یو این او کی ایک رپورٹ کے مطابق اس صدی کا سب سے بڑا قاتل ڈپریشن ہو گا۔ بحیثیت معاشرہ ہم نے ٹی بی، فالج دمہ کو بیماری کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ ہم نے ہارٹ اٹیک اور کینسر کو بھی قبول کر لیا ہے لیکن جوں ہی نفسیاتی بیماریوں کی بات آتی ہے ہم ان میں مبتلا افراد کو خدا کا مجرم ماننے لگتے ہیں۔

اگر کہیں سے خدانخواستہ اس طرح کے شخص کا ہمیں پتہ چل جائے تو بس الامان الحفیظ۔ بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگوں کو سمجھانے کے لیے کہ بھائی یہ بیماری ہے سر کھپانا پڑتا ہے۔ اول تو کوئی شخص اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ عام شخص تو دور کی بات بعض اوقات ڈاکٹر حضرات بھی معذرت کے ساتھ مرض کی جڑ تک ہی نہیں پہنچ پاتے۔ کوئی دانا و بینا شخص اس بات کی تہہ تک پہنچ ہی جائے تو مریض اور اس کے گھر والے اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں۔

ہم صرف اس چوٹ کی شدت کو سمجھتے ہیں جو جسمانی سطح پر ہو۔ جذبوں پر لگنے والی چوٹ قومی سطح پر کوئی چوٹ ہی نہیں۔ سامنے نظر آنے والے زخم تو کچھ عرصے بعد مندمل ہو جاتے ہیں۔ روح پر لگے زخم پوری عمر انسان کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ جذبوں کا نباض، حساس، باشعور انسان کسی حد تک اس کرب کو محسوس کر سکتا ہے۔ اس معاشرے میں بہت سے لوگ اپنی صلیب خود اٹھائے پھر رہے ہیں لیکن یار لوگ تو بس وعظ و نصیحت اور پھونکوں سے کام چلانے کے عادی ہیں۔

جن خطوط پر ہماری تربیت کی گئی ہے ظاہر ہے ہمیں سوچنا بھی ایسے ہی چاہیے۔ نفسیاتی عوارض کو نظر انداز کرنے سے متعلق ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ عورت نہایت وضع دار اور ان کے چہرے پر ماؤں جیسی شفقت تھی۔ محترمہ کا نام ڈاکٹر رانیہ اواد ہے۔ رانیہ اواد اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن میں سائیکارٹری کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ یہ اسی یونیورسٹی میں ہیلتھ اینڈ اسلامک سائیکالوجی لیب کی فاؤنڈر بھی ہیں۔

ڈاکٹر صاحبہ نے انٹرویو میں روایت سے ہٹ کر اسلامی نقطہ نظر سے ڈپریشن جیسے انتہائی حساس موضوع پر شاندار اور عالمانہ گفتگو کی ہے۔ اینکر کا پہلا سوال بہت اچھا تھا جو دراصل اس معاشرے کا سوال بھی ہے لیکن ہم نے آج تک اس سوال کو سوال مانا ہی نہیں ہے۔ انٹرویور نے پوچھا ”کیا کوئی مذہبی ذہن رکھنے والا شخص بھی ڈپریسڈ ہو سکتا ہے؟ اکثر انہیں اس سوال کو لے کر شرمندگی بھی ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ متاثرہ شخص کو بتاتے ہیں کہ مذہبی ذہن کو کبھی ڈپریشن نہیں ہو سکتا۔ کیا مینٹل ہیلتھ عقیدے کے ساتھ متصادم ہے؟“

ڈاکٹر صاحبہ کا جواب تھا ”Absoluely not“ ۔ میں نے بھی اکثر ایسے ہی سنا تھا لیکن جب میں نے سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ کیا اور مسلم روایت کو دیکھا۔ میں نے اس میں سے بہت سی چیزیں اخذ کیں۔ ایک سال نبی ﷺ پر ایسا بھی گزرا ہے جسے دکھی واقعات کے تسلسل کی وجہ سے انہوں نے اس کو ”عام الحزن“ کا سال قرار دیا تھا۔ یعنی غم کا سال۔ اس سال ان کے قریبی ساتھیوں کی وفات ہوئی جو آپ کے دل کے بہت قریب تھے۔ ذرا تصور کریں اتنے بڑے انسان کے جذبات اور احساسات اس وقت کیا ہوں گے۔ دوسرا واقعہ سیدنا یعقوب علیہ السلام کا ہے۔ آپ بیٹے کی جدائی میں اتنا روئے کہ آپ کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی۔ موصوفہ نے مسلم ہسٹری میں جا کر یہ بتایا کہ قدیم زمانے میں بھی مسلم طبیب مریضوں کے جسمانی عوارض کو دور کرنے کے بعد نفسیاتی مدد بھی دیتے تھے۔ مسلمان طبیبوں نے نفسیاتی ہیلنگ کے سینٹر بھی بنائے تھے۔ وہ باقاعدہ جسمانی عوارض کو نفسیاتی عوارض سے الگ رکھ کر دیکھتے تھے۔

علاج کرتے وقت وہ دونوں مریضوں میں کوئی امتیازی سلوک نہیں کرتے تھے۔ جو مریض الرازی کے دماغی شفا خانے سے شفا پاتے تھے انہیں چند دینار بھی دیے جاتے تھے تاکہ وہ معاشرے میں جا کر عزت و وقار سے زندگی گزار سکیں۔ اینکر کا دوسرا سوال یہ تھا کہ ایک دماغی عارضے کو او سی ڈی (OCD) کا لفظ سائنس نے دیا ہے۔ مسلم ہسٹری اس کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر صاحبہ نے ایک مسلم معالج ابو سعید البلخی کی کتاب کا حوالہ پیش کیا۔

انہوں نے نویں صدی میں میں مصالح الابدان والا نفس کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ نصف کتاب جسمانی عوارض سے متعلق جبکہ آخری نصف دماغی عارضوں سے متعلق ہے۔ اپنی کتاب میں انہوں نے ایک لفظ وسوسہ کا استعمال کیا ہے اور یہی او سی ڈی کا عربی ترجمہ ہے۔ یہی وسوسے تھوڑے بہت ہوں تو نارمل ہیں اگر یہ حد سے بڑھ جائیں تو بیماری کی شکل اختیار کرتے ہیں جسے ”او سی ڈی“ کہا جاتا ہے۔ عصر حاضر کے مسائل کا حل مسلم روایات کے تناظر میں بہت احسن طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔

پہلے بیان کیے گئے واقعات کی نسبت سے ایک بات کہنا چاہوں گا۔ نبیوں کا یقین اور خدا کے ساتھ تعلق کسی اور لیول کا ہوتا ہے۔ وہ نوازے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی شخصیت کی کوئی ہمسری نہیں۔ ان کا کوپنگ میکنزم بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔ وہ دکھ، کرب کے لمحوں سے نپٹ کر زندگی میں واپس لوٹ آتے ہیں۔ عام انسان تو عام انسان ہوتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ غم کے گرداب میں پھنس جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ایک عرصے کے بعد اس میں سے نکل آتے ہیں تو کچھ زندگی بھر کے لیے اسی کی نذر ہو جاتے ہیں۔

ان کا نارمل زندگی کی طرف لوٹنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ معاشرتی سطح پر ہم میں سے ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ ان مسائل سے آگاہ ہو۔ ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ زندگی کے مسائل میں گھر چکے ہیں۔ انہیں کوئی آس کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ نفسیاتی مسائل میں مبتلا لوگوں کو خدا کا مجرم ثابت کرنے اور وعیدیں سنانے سے گریز کریں۔ ایسے لوگوں کی نفسیاتی مدد کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔ یہ جو ہم ہر مہینے کبھی بلال پاشا، کبھی عاصم جمیل اور کبھی ٹیپو کی لاش اٹھائے پھرتے ہیں شاید اس سلسلے میں کوئی کمی آ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments