کچے کے علاقے کے ڈاکو: یہ نصف صدی کا قصہ ہے


کچے کے علاقے کے ڈاکوؤں کی وارداتیں آج سے نہیں عرصہ چار عشروں سے جاری و ساری ہیں۔ لوگوں کو یرغمال بنانا، بھتہ خوری کے لئے اغوا کرنا اور قتل جیسی وارداتیں کچے کے علاقے کے ان ڈاکوؤں کا وتیرہ ہے۔

امداد حسین سہتو کی کتاب ”ڈاکوؤں کی دہائی“ کے مطابق اس علاقے کے ڈاکوؤں نے 1984 سے 1994 تک یعنی دس برسوں میں 11436 افراد کو تاوان کے لئے اغوا کیا۔ 1337 افراد کو قتل کیا گیا اور دو ارب روپے کا تاوان وصول کیا گیا۔

پچھلے ماہ مارچ میں جاری سندھ پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں کندھ کوٹ اور کشمور کے کچے کے ڈاکوؤں نے ایک سال میں 400 افراد کو اغوا کیا۔

اتنا کچھ ہونے کے باوجود پنجاب یا سندھ حکومت ان ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ کیوں نہیں کر سکی؟ گھناؤنی وارداتیں کرنے والے قابو میں کیوں نہیں آ رہے؟

کچے کے علاقے میں پنجاب اور سندھ دونوں صوبوں کا وسیع علاقہ شامل ہے اور اس کی سرحد بھارت سے بھی ملتی ہے۔ جب دریائے سندھ مون سون کی بارشوں کے دوران پوری طرح سے پھیلتا ہے تو پانی دریا کے دائیں اور بائیں طرف پھیل کر حفاظتی بندوں تک پہنچ جاتا ہے۔ برطانوی دور حکومت میں جب نہری نظام بنایا گیا تھا تو حفاظتی بندوں کے اندرونی علاقے کو کچا اور بیرونی علاقے کو پکا قرار دیا گیا۔

کچے کے علاقے میں شر، تیغانی، جاگیرانی، جتوئی سمیت مختلف بلوچ اور چاچڑ، مہر، میرانی و سندرانی سمیت دیگر سندھی قبائل آباد ہیں جو یہاں کی زرخیز زمین پر کاشتکاری کرتے اور مال مویشی پالتے ہیں۔ کچے کے علاقے کی زمین محکمہ جنگلات اور محکمہ ریونیو کی ملکیت ہے جو کسی کو باضابطہ طور پر الاٹ نہیں کی گئی ہے۔

دریائے سندھ کے دونوں اطراف میں کچے کے علاقے میں محکمہ جنگلات کی لاکھوں ایکڑ زمین موجود ہے، جس میں سے محکمے کے مطابق وسیع رقبے پر قبضہ ہے۔ کئی بڑے بڑے زمینداروں کی کچے میں ہزاروں ایکڑ اراضی ہے۔ ان میں سے کئی بڑے زمیندار سیاست میں بھی متحرک ہیں۔ یہ علاقہ گنجان یا بے آ باد نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ یہاں 10 لاکھ سے زائد آبادی مقیم ہے، جو مویشی بانی اور زراعت سے وابستہ ہے۔

جنگلات، جھاڑیوں اور کچی زمین کی وجہ سے یہاں ڈاکوؤں کے لیے چھپ کر اپنی کارروائیاں کرنا اور پناہ لینا آسان ہو جاتا ہے۔

یہاں مختلف قوموں اور برادریوں کی آ پس میں لڑائیاں اور رنجشیں تادیر چلتی رہتی ہیں۔ کچے میں رہنے والی ہر برادری کے پاس جدید اسلحہ موجود ہے۔

رپورٹس کے مطابق شمالی سندھ بالخصوص گھوٹکی، شکارپور اور کشمور کندھ کوٹ میں خواتین کی آواز میں فون کالز اور سوشل میڈیا کے ذریعے اغوا کی وارداتوں کا نیا رجحان سامنے آ یا ہے، جس میں اب ڈاکو اغوا کی وارداتیں نہیں کرتے بلکہ مغوی خود ڈاکوؤں کے پاس اغوا ہونے کے لیے پہنچ جاتا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ فون پر بات کرنے کے لیے ڈاکوؤں نے ایسی خواتین بھی رکھی ہوئی ہیں جو لوگوں کے ساتھ رابطہ کرتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح سے لوگوں کو یہاں آنے کے لیے آمادہ کر لیتی ہیں۔

اس کے لئے ڈاکوؤں نے کچھ خواتین پنجاب سے منگوائی ہیں، کچھ انھوں نے اپنی عورتیں رکھی ہوئی ہیں۔ فرض کریں اگر کوئی سندھی بولنے والا رابطے میں آئے گا تو سندھی میں عورت بات کرے گی، کوئی اردو بولنے والا آ گیا تو اردو میں بات کرے گی، پشتو والا آ گیا تو پشتو زبان والی عورت بات کرے گی۔

پولیس کے مطابق ڈاکوؤں کے طریقہ واردات کا شکار بننے والے افراد اپنی کار، مسافر کوچ یا کسی اور گاڑی میں آتے ہیں، پھر ڈاکوؤں کا سہولت کار ان کو موٹر سائیکل پر لینے پہنچ جاتا ہے اور انھیں بتاتا ہے کہ ’میڈم نے بھیجا ہے۔ وہ انتظار کر رہی ہیں۔ ‘

اس دوران کسی ناکے پر پولیس کی چیکنگ چل رہی ہو تو بھی پولیس کو یہ شبہ تک نہیں ہوتا کہ متاثرہ شخص موٹر سائیکل سوار کا رشتہ دار، دوست ہے یا مغوی۔

زیادہ تر واقعات میں متاثرہ شخص خود موٹر سائیکل پر بیٹھ کر جاتا ہے کیونکہ مغوی کو پتہ نہیں ہوتا ہے کہ آگے جا کر وہ اغوا ہو جائے گا۔

گویا کچے کے ڈاکوؤں کے پاس لوگوں کو دھوکے سے اپنے پاس بلا کر اغوا کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ زیادہ تر وہ لوگ ان حربوں میں پھنستے ہیں جو سندھ کے باہر سے آتے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ آپ ڈاکوؤں کو کچے سے باہر آنے سے تو روک سکتے ہیں لیکن مغوی جب رضاکارانہ طور پر خود کچے کے علاقے میں جائیں تو یہ بہت بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے 90 فیصد اغوا کی وارداتیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہوئی ہیں۔

رواں سال مارچ میں گھوٹکی کی پولیس نے جھنگ کے رہائشی محمد حسن اور ظفر لغاری کو بازیاب کروایا تھا جو کاریں خریدنے کے جھانسے میں آ کر اغوا ہوئے تھے۔ اسی طرح سالار اور مسعود پٹھان پشاور سے سستا ٹرک خریدنے آئے تھے اور وہ اغوا ہو گئے۔

پولیس کے مطابق ڈاکو جن لوگوں کو بلاتے ہیں وہ زیادہ تر سندھی نیوز چینل یا خبریں نہیں سنتے۔ انھیں یہ گاڑیوں کا جھانسا دیتے ہیں، ٹرالر، ٹرک، ٹریکٹر، مال مویشی کی خرید و فروخت کا لالچ دیتے ہیں۔

گھوٹکی کے ڈاکو فقیر نثار شر باقاعدگی سے سوشل میڈیا پر آ کر پولیس کو دھمکاتے ہیں اور اپنی شر برادری اور ڈاکوؤں کا ساتھ دیتے ہیں۔

حافظ قرآن نثار شر کو ڈاکوؤں کا ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ ان سمیت کچے کے ڈاکو نہ صرف اپنی وارداتوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں بلکہ بعض ویڈیوز میں سندھی اور سرائیکی گانوں کی ڈبنگ کے ساتھ اسلحے کے نمائش بھی کرتے ہیں جسے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے۔

وہ پولیس آپریشن کے دوران کی بھی ویڈیو بنا کر پولیس حملوں پر جوابی کارروائی دکھاتے ہیں۔

مغویوں کے ورثا تک پیغام پہنچانے کے لیے بھی سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈاکو بعض اوقات مغویوں پر تشدد کی ویڈیوز بناتے ہیں جس میں وہ لواحقین سے فوری تاوان کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بعض ویڈیوز میں مغویوں کو برہنہ بھی دکھایا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس نے متعلقہ فورم پر کچے کے علاقے میں موبائل فون سروس معطل کرنے کی درخواست کی تاکہ ڈاکو واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کا استعمال نہ کرسکیں تاہم ان کی یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔ البتہ پی ٹی اے نے 50 سے زائد ایسی سمز ضرور بلاک کی ہیں جن کے ذریعے جرائم کیے جا رہے تھے۔

کچے کے ڈاکوؤں کے پاس دیگر اسلحہ کے علاوہ 12.7 ایم ایم طیارہ شکن بندوقیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ آر پی جی ہیں جس سے وہ پولیس آپریشن کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق ڈاکوؤں کے پاس بھاری اسلحہ ہے جس کو بکتر بند گاڑیاں برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔

ڈاکوؤں نے اپنے دفاع کے لیے چاروں طرف خندقیں کھود رکھی ہیں اور مٹی کے بڑے بڑے بند باندھے ہوئے ہیں اور یہاں سے باہر جانے کے لیے صرف موٹر سائیکل کے لیے راستہ چھوڑا گیا ہے۔

کچے کے ڈاکوؤں کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ کس طرح سرعام شہریوں، سکیورٹی و ریسکیو اہلکاروں کو اغوا کر کے جسمانی تشدد کی ویڈیوز بناتے اور اہل خانہ سے کروڑوں روپے تاوان مانگتے، وصول کرتے ہیں۔ تاوان نہ ملنے کی صورت میں اغوا کنندہ کو بے دردی سے قتل کر کے لاش ویرانے میں پھینک دی جاتی ہے جبکہ پنجاب، سندھ کی پولیس ابھی تک ان پر قابو پانے میں ناکام ہے۔

بھارتی سرحدی علاقے سے منسلک کچے کے علاقے میں ان ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین بھارتی اسلحہ، راکٹ لانچر سندھ پنجاب پولیس سے چھینی گئی بکتر بند گاڑیاں، وائرلیس سسٹم تک موجود ہیں۔ وہ ایک حکمت عملی کے تحت لوٹ مار کا باقاعدہ نظام چلا رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ جب پورے ملک میں سکیورٹی خدشات کے نام پر انٹرنیٹ سروس معطل کردی جاتی ہے کچے کے ڈاکو بلاتعطل اس سہولت سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔ کچے کے ڈاکوؤں کو کوئی وفاقی ادارہ پوچھ سکتا ہے نہ دو صوبوں کی پولیس ان پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ کچھ اہلکار ان کے سہولت کار بھی ہیں۔ خدشہ یہی نظر آتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ڈاکو طالبان اور بلوچ علیحدگی پسند کالعدم مسلح تنظیموں کی طرح ریاست کے لئے بہت بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔

ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ خوف اور دہشت کی بنیاد پر ایسی مسلح تحریک بھی شروع کر دیں جس کے پیچھے ہم بھارت کا ہاتھ تلاش کرتے ہیں اور ریاست ہاتھ ملتی رہ جاتی ہے اور خدانخواستہ ایسا وقت نہ آ جائے کہ کچے کے ڈاکوؤں سے ان کی شرائط پر مذاکرات کر کے انہیں قومی دھارے میں لانے کے نعرے، دعوے سننا پڑ جائیں۔

ہم نے ماضی قریب میں ایسے بہت ٹوپی ڈرامے دیکھے ہیں، نام نہاد پولیس آپریشنز کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں۔ وزرائے اعلیٰ مورچوں کا دورہ کر کے اہلکاروں کو شاباش دیتے ہیں، کروڑوں کے بجٹ، اسلحہ گولہ بارود، خصوصی الاؤنسز کے نام پر خرچ کر دیے جاتے ہیں نتیجہ صفر جمع صفر، جواب صفر۔ ہماری تو عقل یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئی جاتی ہے کہ جنہیں ہم کچے کے ڈاکو کہتے ہیں دراصل یہ مستقبل کے دہشت گرد ہیں۔

سوال اٹھتا ہے کہ ایسے میں ہماری حکمت عملی کیا ہے؟ خیال تو یہ آتا ہے کہ اگر یہ سب دہشت گرد عناصر اور کچے کے ڈاکو مستقبل میں ایک دوسرے کے سہولت کار بن گئے یا ان سب نے ریاست کے خلاف ایکا کر کے چاروں طرف سے بیک وقت محاذ کھول دیا تو انجام کیا ہو گا؟

ریاست کے پاس اختیار بھی ہے طاقت اور ہتھیار بھی۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ کچے کے ڈاکو معصوم شہریوں، سکیورٹی، ریسکیو اہلکاروں کو یرغمال بنا کر تاوان وصول کریں اور ریاست تماشا دیکھتی رہے۔ ہر گزرتے دن کچے کے اردگرد علاقوں میں خوف کی فضا پھیلتی جا رہی ہے۔

واضح شواہد موجود ہیں کہ کچے کے ڈاکو جب چاہیں، جیسے چاہیں، جس سے چاہیں، مسافر گاڑیاں روک کر بھتہ وصول کرتے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مسافروں کی طرف سے مزاحمت پر انہیں فائرنگ کر کے قتل تک کر دیا جاتا ہے اور قانون یہاں بالکل بے بس نظر آتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ڈاکو کچے سے نکل کر پکے کے علاقے یعنی شہر تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ ایک انتباہ ہے کہ مستقبل میں ریاست کے لئے وہ خدا نخواستہ ایک بڑا چیلنج بننے والے ہیں۔ حکومت کو ان کا قلع قمع کرنے کے لئے کوئی بڑا قدم اٹھانا پڑے گا

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments