تحریک انصاف کا سنی اتحاد کونسل میں ادغام؟


میری عاجزانہ رائے میں تحریک انصاف کو محض خواتین اور اقلیتوں کے لئے مختص نشستوں کے حصول کے لئے خود کو سنی اتحاد کونسل میں تقریباً مدغم ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ بہتر یہی تھا کہ تحریک انصاف کی حمایت سے 8 فروری کے روز منتخب ہوئے اراکین قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں حلف اٹھالینے کے بعد ”انصاف پارلیمانی گروپ“کی حیثیت میں اپنا وجود منواتے۔

تحریک انصاف کے سیانے مگر بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف نے ”فی الوقت“ خو د کو سنی اتحاد کونسل میں تقریباً مدغم اس لئے کیا ہے کیونکہ یہ ”اتحاد“ الیکشن کمیشن کے ہاں بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کو اجتماعی طورپر جو ووٹ ملے ہیں وہ اب سنی اتحاد کونسل کے کھاتے میں شمار ہوں گے۔اس کی بدولت سنی اتحاد کونسل میں مدغم ہوئی تحریک انصاف کو آئندہ قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی سب سے زیادہ نشستیں مل جائیں گی۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ بالآخر مذکور ہ ترکیب کی بدولت سنی اتحاد کونسل میں مدغم ہوئی تحریک انصاف آئندہ قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت بن جائے گی جس کی نشستوں پر کم از کم 130 خواتین وحضرات براجمان ہوں گے۔ یہ بھاری بھر کم تعداد شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت کو بے ثباتی کے خوف سے مفلوج ر کھے گی۔

تحریک انصاف کے سیانے مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی میں اتفاق کو بھی دیرپا تصور نہیں کرتے۔ فرض کیا بے تحاشہ مجبوریوں کی وجہ سے ان کا اتحاد کچھ دیر برقرار رہا تب بھی ایم کیو ایم کی سیمابی طبیعت حکومتی اتحاد سے کسی وقت بھی الگ ہو سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت اسے ممکنہ علیحدگی کے جواز فراہم کرے گی۔ ایم کیو ایم حکومتی اتحاد سے الگ ہوگئی تو سنی اتحاد کونسل میں مدغم ہوئی تحریک انصاف آ ئندہ وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی گیم لگاسکتی ہے۔ اگر یہ گیم تیار ہوگئی تو مولانا فضل الرحمن بھی اس میں شامل ہونے کو آمادہ ہوسکتے ہیں اور یوں جب چاہے آئندہ حکومت کا تختہ بآسانی ”آئینی طریقے“ سے الٹا جا سکتا ہے۔

طویل المدت تناظر میں جو کہانی مجھے سنائی گئی ہے وہ ٹھوس اعتبار سے قابل عمل محسوس ہوتی ہے۔سیاست مگر ایک ظالم شے ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ تحریک انصاف کے سنی اتحاد کونسل میں ادغام کے بعد قومی اسمبلی میں اس کا پارلیمانی لیڈر کون ہو گا۔ صاحبزادہ حامد رضا یا تحریک انصاف کی صفوں سے نامزد ہوا کوئی شخص۔ تحریک انصاف عمر ایوب خان کو وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کر چکی ہے۔وہ ا گر وزیر اعظم کے منصب کے لئے منتخب ہو پائے تو آئندہ قومی اسمبلی میں انہیں قائد حزب اختلاف کا منصب سنبھالنا چاہیے۔ سوال اٹھتا ہے کہ صاحبزادہ حامد رضا صاحب اپنی جماعت ”قربان“ کر دینے کے بعد قائد حزب اختلاف کے باوقار منصب کو اپنے ہاتھ سے کیوں جانے دیں گے؟۔ان کی ”نیک نیتی“پر میری دانست میں سیاست و اقتدار کا سفاک کھیل کھیلتے ہوئے ضرورت سے زیادہ اعتماد کیا جا رہا ہے۔

بہرحال کسی کی نیت پر سوال اٹھانے کا مجھ دو ٹکے کے رپورٹر کو حق حاصل نہیں۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے اگرچہ میں سیاسی جماعت میں کمانڈاینڈ کنٹرول کی اہمیت کو خوب سمجھ چکا ہوں۔ 1988ء کے انتخاب ہوئے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دوران مسلم لیگ کی صفوں سے ابھرے خواجہ غلام حیدر وائیں قائد حزب اختلاف تعینات ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ”قابو“ میں رکھنے کے لئے مگر مقتدر کہلاتے حلقوں کی جانب سے فیصلہ ہوا کہ پیپلز پارٹی سے طویل برس کی رفاقت کے بعد جدا ہوئے غلام مصطفی جتوئی کو کوٹ ادوکی سے خالی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست سے کامیاب کرواکر قومی اسمبلی میں لایا جائے۔وہ ضمنی انتخاب کے ذریعے کامیاب ہوگئے تو اپنی جماعت یعنی نیشنل پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ میں مدغم کرنے کو رضا مند نہ ہوئے۔ بالآخر فیصلہ ہوا کہ قومی اسمبلی میں موجود تمام حکومت مخالف جماعتیں اور افراد ”متحدہ اپوزیشن“ میں یکجا ہوجائیں۔ انگریزی میں اسے کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز(COP) کا نام دیا گیا۔ غلام مصطفی جتوئی اس کے سربراہ کی حیثیت میں وائیں کی جگہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تسلیم کر لئے گئے۔

”حزب اختلاف“ میں بیٹھے لوگوں کی کثیر تعداد مگر ان سے رہ نمائی کی طلب محسوس نہیں کرتی تھی۔ان کی اکثریت نواز شریف سے رجوع کرنے کو ترجیح دیتی جو ان دنوں پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہیں آٹھویں ترمیم کے اختیارات سے مالا مال صدر کی شفقت بھی میسر تھی۔ ”مقتدرہ“ سے ان کے تعلقات بھی دوستانہ تھے۔ صدر غلام اسحاق خان اور ”مقتدرہ“ اگرچہ غلام مصطفی جتوئی مرحوم کے ”تجربے اور  ٹھنڈے مزاج“ کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ ان دونوں کے ایما پر ستمبر 1989ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔ایوانِ صدر اور مقتدرہ کی بے باک شفقت کے باوجود مذکورہ تحریک ناکام ہوگئی۔

غلام مصطفی جتوئی مرحوم مرتے دم تک مصر رہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد درحقیقت نواز شریف کے مبینہ ”عدم تعاون“ کی وجہ سے ناکام ہوئی تھی۔ ان کے خیال میں پنجاب سے ابھرے اور صنعت کار گھرانے سے تعلق رکھتے جواں سال نواز شریف دل سے نہیں چاہتے تھے کہ 1988ء کی اسمبلی سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی تحریک عدم اعتماد کی بدولت فراغت کے بعد سندھ کے تجربہ کار سیاستدان وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال لیں اور ان کے ٹھنڈے مزاج اور بردباری کی بدولت 1988ء میں قائم ہوئی اسمبلی پانچ سالہ مدت مکمل کرے۔ وہ اسمبلی 1989ء میں محترمہ کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد غلام مصطفی جتوئی کی وزارت عظمیٰ میں 1993ء تک اپنا وجود برقرار رکھتی تو غلام مصطفی جتوئی برگد کا ایسا درخت ثابت ہوتے جس کے تلے کوئی اور پودا پروان نہیں چڑھ پاتا۔ یوں نواز شریف بالآخر 1990ء کے انتخاب کے بعد وزارت عظمیٰ کے منصب تک نہ پہنچ پائے۔

1988ء کی اسمبلی کے واقعات مجھے تحریک انصاف کی سنی اتحاد کونسل میں تقریباََ ادغام کی وجہ سے یاد آ رہے ہیں۔ حامد رضا خان کا قد کاٹھ مذکورہ اتحاد کے بعد بے تحاشہ بلند ہو گیا ہے۔ بنیادی طور پر شکی مزاج صحافی ہوتے ہوئے میں ہرگز سمجھ نہیں پا رہا کہ وہ خود کو ملی سیاسی قوت کو ”چار دن کی چاندنی“ کی طرح آسانی سے اپنے سرسے گزرنے کیوں دیں گے۔

(بشکریہ روزنامہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments