پیدائش مخالف فلسفہ، فیمنزم اور ڈاکٹر طاہرہ کاظمی – حصہ دوئم


گزشتہ بلاگ میں ہم نے پیدائش مخالف فلسفے (Antinatalism) کے تعارف اور تاریخ پہ سرسری نگاہ ڈالی تھی۔ مختصر سے وقت میں یہ فلسفہ اس مقام پر آن پہنچا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک آبادی میں بے پناہ اضافے کا رونا رونے والی دنیا آج تیزی سے کم ہوتی ہوئی آبادی سے پریشان ہے۔ جہاں ایک صدی پہلے تک ایک عورت چھ سے دس بچے پیدا کرتی تھی عالمی اوسط شرح پیدائش کے مطابق اب وہی عورت ایک سے دو بچہ پیدا کر رہی ہے۔ جاپان اور کوریا جیسے ممالک کی حکومتوں نے اسقاط حمل کی ادویات مہنگی کر دی ہیں اور زیادہ بچے پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانے لگی ہے۔

صدیوں سے رینگتے ہوئے پیدائش مخالف فلسفے کو چلنا سکھانے کے لیے جس انگلی کے سہارے کی ضرورت تھی وہ سہارا فیمنزم کی تحریک بنی۔

یوں تو پیدائش مخالف فلسفے کو دو مرکزی شاخوں میں تقسیم کیا جاتا ہے کچھ اسے صرف انسانوں تک محدود رکھتے ہیں اور کچھ کا خیال ہے کہ جانور بھی ہماری طرح احساسات رکھتے ہیں اور عقاب سے جان بچاتی فاختہ یا شیر سے جان بچا کر بھاگتا پھرتا ہرن بھی کچھ زیادہ خوش نہیں ہے لیکن اب تک اس فلسفے کی زیادہ توجہ انسانی پیدائش ترک کر دینے پہ مرکوز رہی ہے۔

پیدائش مخالف فلسفے کو تین شاخوں میں تقسیم کر کے سمجھنا آسان ہو گا۔

اول تو وہ فلسفی اور ان سے اتفاق کرنے والے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ کسی صورت بھی بچہ پیدا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ بچے پر ظلم ہے کہ وہ اس دکھ بھری دنیا میں آ کر دکھ سہے۔

دوسرے وہ ہیں جن کا خیال ہے کہ جب تک آپ مالی طور پر مستحکم نہیں ہو جاتے تب تک بچہ پیدا نہیں کرنا چاہیے۔ ایسے لوگوں کی اکثریت کا تعلق ایسے غریب ممالک سے ہے جہاں تشدد، عدم برداشت اور جہالت کا راج ہے۔ ایسے تعلیم یافتہ مگر غریب لوگوں کا خیال ہے کہ یورپ یا کسی محفوظ ملک میں سیٹل ہونے، مالی طور پر مستحکم ہونے اور اگر آپ خود کو چوبیس گھنٹے بچے کی اچھی دیکھ بھال کے لیے تیار پائیں تو ایک دو بچہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ البتہ یہ لوگ پاکستان جیسے ممالک میں رہتے ہوئے بچہ پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔

تیسرے نمبر پر اس فلسفے کی مقبولیت کا اہم کھلاڑی فیمنسٹ خواتین ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ خواتین کو تو خود بچے پیدا کرنے کا بہت شوق ہوتا ہے، یہ ان کے لیے خوشی اور اطمینان کا باعث ہے۔ ہمارے اپنے صاحب پیدائش مخالف فلسفے پر یقین رکھتے تھے مگر ہم نے اپنی خواہش سے ایک بچی کو جنم دیا حالانکہ تب میری عمر محض سترہ برس تھی اور پیدائش مخالف تو کجا فلسفے کی ف کا بھی کچھ پتہ نہیں تھا لیکن پھر بھی مان لیجیے کہ بچہ پیدا کرنا ایک عورت کی خواہش ہوتی ہے۔ مگر رکیے! دیکھنا یہ ہو گا کہ یہ عورت کی ذاتی خواہش ہے بھی یا ایک سازش کے تحت عورت میں یہ خواہش پیدا کی گئی ہے؟

حیاتیاتی سائنس کے مطابق انسانی ذہن کے دو حصے ہیں جو درمیان میں دوڑتی اعصابی کیبل سے منسلک ہیں۔ دماغ کا دایاں حصہ جسم کے بائیں حصے اور بایاں حصہ جسم کے دائیں حصے پر حکمرانی کرتا ہے۔ یعنی اگر دماغ کا دائیں حصہ فالج کا شکار ہوتا ہے تو آپ جسم کے بائیں حصے کو نظر انداز کرتے ہیں۔ دماغ کے ان دونوں حصوں کے فرائض جدا ہیں۔ نوبل انعام یافتہ پروفیسر راجر والکاٹ اسپیری نے 1981 ء میں مرگی کے مریضوں پر تجربات کے دوران دماغ کے ان دونوں حصوں کا کنیکشن کاٹ کر مشاہدات مرتب کیے۔ ان کے تجربات کو ان کے شاگرد مائیکل گازنیگا نے وسعت دے کر ذہن کے دونوں حصوں کو سمجھنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔

2002 ء میں ایک اور نوبل انعام جیتنے والے ڈینیل کاہنی نے زیادہ دلچسپ تجربہ کیا۔ اس نے کچھ رضا کاروں کو تین تجربات کے ایک سلسلے میں حصہ لینے کی دعوت دی۔ پہلے حصے میں رضا کاروں کو اپنا ہاتھ 14 ڈگری سینٹی گریڈ پانی میں ایک منٹ کے لیے ڈالنے کا کہا گیا۔ سب نے اسے ناخوشگوار اور تھوڑا تکلیف دہ پایا۔ تجربے کے دوسرے حصے میں دوبارہ 14 ڈگری سینٹی گریڈ پانی میں ہاتھ ڈالنے کا کہا گیا اور ایک منٹ کے بعد بغیر بتائے تیس سیکنڈ کے لیے پانی کا درجہ حرارت بڑھا دیا گیا۔ تجربے کے تیسرے اور اہم ترین حصے میں رضاکاروں کو ایک یا ڈیڑھ منٹ والے تجربے میں سے کوئی ایک دوبارہ دوہرانے کا کہا گیا اور حیران کن طور پر 80 فیصد لوگوں نے ڈیڑھ منٹ والے تجربے کا انتخاب کیا کیونکہ ٹھنڈے پانی کے اس تجربے کے اختتام پر انہیں تھوڑی سی راحت اور کم تکلیف کا احساس یاد رہا۔ اس تجربے نے انسانی فکر کو ہلا کر رکھ دیا۔

1990 ء میں کاہنی مین نے 154 مریضوں پہ ایسا ہی ایک تجربہ دوہرایا۔ اس تجربے میں آٹھ منٹ کے آپریشن کے دوران ہر مریض کو چھ منٹ تک تکلیف دہ آپریشن سے گزارا گیا اور آخری دو منٹ کم سے کم تکلیف اور زیادہ سے زیادہ سکون فراہم کیا گیا۔ ٹھنڈے پانی کے تجربے کی طرح مریضوں نے پہلے چھ منٹ بھلا کر آخری دو منٹ کو یاد رکھا۔ ان تجربات سے یہ ثابت ہوا کہ ہمارے ذہن کا وہ حصہ جو اظہار کرتا ہے سارے تجربے کی بجائے صرف اختتام کو سامنے رکھ کر اعداد و شمار مرتب کرتا ہے۔ بالکل کسی نکمے ممتحن کی طرح جو صرف ہیڈنگ دیکھ کر نمبر دے دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ماہرین حیوانات اور بچوں کے ڈاکٹر دردناک انجیکشن لگانے کے بعد میٹھی اور مزیدار گولیاں کھانے کے لیے دیتے ہیں جس سے بچہ انجیکشن کا درد بھلا دیتا ہے۔

ارتقاء نے یہ طریقہ ماہرین اطفال سے صدیوں پہلے سیکھ لیا تھا۔ زچگی کے دوران خواتین دردناک اور قریب المرگ قسم کے درد سے دوچار ہوتی ہیں پھر زچگی کے بعد موٹاپے، پیشاب خطا ہونے اور حسن ڈھلنے جیسے مسائل کا سامنا کرتی ہیں۔ دردناک زچگی کے اس عمل سے گزرنے کے بعد کون سی عورت دوبارہ حاملہ ہونا پسند کرے گی؟ لیکن نظام تولید کا ستم کہیے کہ زچگی کے اختتام اور آنے والے چند دنوں میں جسم بڑے پیمانے پر کورٹی سول اور بیٹا اینڈورفن نامی ہارمونز بناتا ہے جو درد کو کم کر کے آہستہ آہستہ سکون میں بدل کر نشے جیسی مستی اور سرشاری پیدا کرتے ہیں۔ ہارمونز کی ستم ظریفی، ماں کی نوزائیدہ بچے سے بڑھتی ہوئی محبت، دوستوں عزیزوں کی صدائے آفرین، مذہبی عقائد اور قوم پرستی جیسے عناصر مل کر ایک ایسا سازشی ماحول تیار کرتے ہیں کہ عورت کی تکلیف دہ زچگی اس کے لیے خوبصورت یاد اور زندگی کے اچھے تجربے میں ڈھل جاتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں عورتوں کو حیاتیات اور ارتقاء پڑھایا جاتا ہے۔ وہاں فیمنسٹ لٹریچر کی بھی کمی نہیں۔ بچہ پیدا کرتے وقت خواتین کے محبوب ان کا ہاتھ تھامے ساتھ موجود کھڑے ہوتے ہیں اور یہ تکلیف دہ منظر دیکھنے کے بعد گا کہ اس کی محبوبہ ایسی تکلیف سے دوچار ہو؟ اوپر سے زچگی کے بعد ویجائنا ڈھیلی اور عورت کی کشش بھی پہلے سے کم پڑ جاتی ہے۔ ایسے میں محبت کا تقاضا ہے کہ ایسی خواہش سے اجتناب ہی برتا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں آبادی کی شرح تیزی سے گر رہی ہے اور خواتین ہر طرح کی سہولیات کی فراہمی کے باوجود بچہ پیدا کرنے سے انکاری ہیں۔

پاکستان جیسے غریب ملک میں سائنس کو مذہبی لباس پہنا دیا جاتا ہے۔ مطالعہ کی عادت اور فیمنزم کے مخالفین کی کمی نہیں لیکن فیمنزم پڑھ کر قائل یا مخالف ہونے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ مرد عورت کو بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھتے ہیں۔ زچگی میں تڑپتی بیوی کمرے میں پڑی ہوتی ہے اور مرد اس تکلیف سے دور باہر کھڑا ٹہل رہا ہوتا ہے یا پریم چند کے افسانے کفن کی طرح آلو بھون کر کھا رہا ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے کی مذہبی عورت تو ارتقاء کے زندگی کو آگے بڑھانے، مذہب اور سماج کے دام میں آ کر یہ تکلیف بھول جاتی ہے لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ڈاکٹر طاہرہ کاظمی جیسے گائناکالوجسٹ جو اس دردناک زچگی کے معاون اور نگران ہوتے ہیں اس سارے آنکھوں دیکھے پیچیدہ اور دردناک عمل کو بھلا نہیں پاتے۔ ان حساس لوگوں میں زچگی کروانے کے بعد کورٹی سول اور بیٹا اینڈورفن ہارمونز پیدا نہیں ہوتے۔ جب یہ اس تکلیف کو تحریر میں لاتے ہیں اور کیمرے کی ایجاد کے بعد زچگی کو ریکارڈ کر کے دیکھنا ممکن ہو گیا ہے تب سے فیمنسٹ لٹریچر نے پیدائش مخالف فلسفے کی راہیں بہت ہموار کر دی ہیں۔

سائنس، فلسفے اور فیمنسٹ لٹریچر سے آگاہی رکھنے والی خواتین زچگی کے اس تکلیف دہ عمل سے گزرنا نہیں چاہتیں۔ کچھ بچہ پیدا کرنے سے گھبراتی ہیں اور کچھ خود کو اس مقام پر نہیں پاتیں کہ وہ پیرنٹنگ کا فریضہ 24 / 7 ادا کر سکیں۔ کچھ اپنا حسن اور جنسی کشش برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ جون ایلیاء کہتے ہیں : نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم؟

ظاہر ہے پوری دنیا کی خواتین ہمیشہ جاہل تو نہیں رہیں گی ایک نہ ایک روز علم و آگہی کی روشنی سب تک پہنچے گی اور کیا ہو گا اگر سب عورتوں نے بچہ پیدا کرنے سے انکار کر دیا؟

اب یہ آپ پہ ہے اس سنجیدہ سوال کو ہنسی میں اڑا دیں، گالیاں دیں یا سوچیں اور سمجھیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments