ہاف کپ چائے


میں اور میرا دوست اکثر اپنے فری لیکچر یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا کی مخصوص ٹیبل پر مختلف موضوعات پر اس طرح بحث کرتے گزارتے جیسے تمام مسائل کا حل یہی ملنا ہے۔ اس آدھے گھنٹے میں ہم وہ تمام موضوع زیر بحث لاتے جس کا حل تقریبا ناممکن تھا۔ جس میں ملکی سیاست سے لے کر گھریلو سیاست آجاتی درمیان میں کہیں اساتذہ کی زیادتی اور ساتھی لڑکیوں کی غیر ضروری تیاریاں بھی گفتگو کا حصہ ہوتیں۔ کبھی لڑکوں کا پڑھائی سے زیادہ لڑکیوں پر فوکس کرنا اور کبھی لڑکوں کا لڑکوں سے لڑنا اور گروپ بنانا یہ سب موضوعات اس ایک ہاف کپ میں ختم ہو جاتے جو میرا دوست ہمیشہ اپنے لیے آرڈر کرتا تھا۔

اپنے لیے میں نے اس لیے کہا کیونکہ میں چائے سے ایک بیزار شخص ہوں یہ بات کبھی میرے پلے نہیں پڑی کہ لوگ چائے پر اتنا انحصار کیسے کر لیتے ہیں اور وہ بھی ہاف کپ چائے؟ گویا کہ اس بات کا تعلق اس پورے قصے سے نہیں مگر پھر بھی میں اس کا تذکرہ کسی بھی جگہ پر کرنا نہیں بھولتا تاکہ میری چائے میں غیر دلچسپی کی وجہ سے خود ساختہ یکسانیت قائم رہے۔

اسی دوران جب ویٹر میری کافی اور اس کا ہاف کپ اس کے سامنے رکھ کر گیا تو اچانک میرے ذہن میں ایک سوال ابھرا جو میں نے اسی وقت اس کے سامنے رکھ دیا ”اشعر تم ہمیشہ ہاف کپ چائے ہی کیوں منگواتے ہو؟ تمھیں تو چائے بہت پسند ہے۔ اتنے کریز کے باوجود ہر دفعہ ہاف کپ ہی کیوں آرڈر کرتے ہو“ اس نے میری طرف دیکھا اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تمھارے سوال میں ہی میرا جواب ہے یعنی مجھے چائے بہت پسند ہے اتنا کریز ہے کہ ہر مرتبہ اس کی طلب مجھے یہاں کھینچ لاتی ہے۔ ”تو ہادی بات تو بالکل سیدھی ہے نہ کہ میرے ہاف کپ کے بعد بھی میری طلب برقرار رہتی ہے اور دوبارہ آنے کی خواہش بھی۔ بس طلب باقی رہنی چاہیے طلب انسان کو غار حرا تک لے جاتی ہے طلب ہی انسان کو طور تک پہنچاتی ہے طلب معراج کرواتی ہے۔ تو پھر چاہے وہ چائے ہو یا چاہت۔

اس کا مطلب ہے اگر آپ کو کسی سے محبت ہے تو آپ اسے اس لیے چھوڑ دو کہ چاہت باقی رہے؟ اس کی تمام تر گفتگو میں مجھے صرف لفظ ”چاہت“ ہی قابل غور لگا سو میں نے اس سے پوچھ لیا۔ وہ میری بات سن کر ہنسا اور کہا لڑکیوں سے کبھی آگے بھی سوچ لیا کر یار لیکن پھر بھی تو کہتا ہے تو میں تیری ہی زبان میں پوچھتا ہوں کہ کیا تمھارے اور میرے ماں باپ ایک دوسرے کو چاہتے نہیں ہوں گے؟ لیکن پھر بھی لیلی مجنوں، ہیر رانجھا، سسی پنوں اور رومیو جولیٹ کی داستانیں ہی کیوں امر ہوئیں؟

کیونکہ ان کا دل نہیں بھرا اور طلب برقرار رہی۔ چل مجھے یہ بتا کہ اب تک کتنے بحری جہاز سمندر میں کامیاب سفر کر چکے، مگر پھر بھی ذکر ہمیشہ ٹائیٹینک کا ہی کیوں کیا جاتا ہے۔ کیونکہ وہاں بھی منزل تک پہنچنے کی طلب ادھوری رہ گئی تھی۔ بس کبھی بھی دل کو بھرنے نا دینا تشنگی باقی رہے تو پھر آنے کا مقصد باقی رہتا ہے۔ اگر ایک ہی بار میں دل بھر لیا جائے تو طور پر تجلی نہیں ہوتی، غار حرا میں فرشتے صحیفے لے کر نہیں اترا کرتے

تم لوگ یہاں بیٹھے ہو؟ جلدی سے آؤ مس تحریم کا لکچر شروع ہو گیا ہے۔ حسن ہمارے پیچھے اچانک ہمیں ڈھونڈتا ہوا آ گیا۔ اشعر فوراً اٹھا اور میں اس کے آدھے خالی کپ کو دیکھتے ہوئے نا جانے کہاں گم تھا۔ بس کانوں میں ایک ہی آواز گونج رہی تھی۔ ”طلب باقی رہنی چاہیے“ ۔

حدید احمد، رینالہ خورد
Latest posts by حدید احمد، رینالہ خورد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments