رقص کا عالمی دن، پنجاب حکومت اور الحمرا آرٹس کونسل


رقص کو اعضا کی شاعری کہا جاتا ہے۔ ردھم وہ توازن ہے جو خوبصورتی کہلاتا ہے۔ کوئی بھی چیز جس کا توازن بگڑ جائے اس کا حسن مانند پڑ جاتا ہے۔ رقص پرفارمنگ آرٹ کی وہ قسم ہے جس کی تاریخ پاک و ہند میں کافی گہری اور پرانی ہے۔ وہ خطہ جس کی ثقافت کا رقص ایک اہم حصہ ہو وہاں اس کی اہمیت اور موجودگی لازم ہے۔ لیکن اسی خطے میں مذہب کی ہی بنیاد پہ کلچر سے ٹکراؤ دیکھنے میں آتا ہے جس کی بنیاد پہ تہذیب کے اس حسن اظہار پہ بے جا پابندی ہے۔ حسن انسان کی فطری جبلت ہے جس کا اظہار اور اس کو سراہنا ناگزیر ہے۔ اس پہ پابندی تو لگائی جا سکتی ہے لیکن فطرت کو کون بدل سکتا ہے۔

انتیس اپریل کو رقص کے عالمی دن کے طور منایا جاتا ہے۔ رقص وہ ردھم جو تمام انسانوں کو بغیر کسی شناختی تخصیص کے ایک ہی لے میں جوڑتا ہے۔ پاکستان میں وہ فنکار موجود ہیں جو اس روایت کو مکمل حسن کے ساتھ زندہ رکھے ہوئے ہیں ان میں زریں سلمان پنہ وہ نام ہے جو کتھک ڈانس کو پچاس کی دہائی سے نہ صرف پرفارم کر رہی ہیں بلکہ اس کو پروموٹ کرنے کے لیے ہر مکمن کوشش کر رہی ہیں۔

رقص کے عالمی دن پہ الحمرا آرٹس کونسل میں پی این سی اے اور شاکر علی میوزیم کے اشتراک سے ایک محفل سجائی گئی۔ جس میں رقص کے آرٹ اور نامور کلا کاروں کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ پاکستان میں یہ ایک خوش آئند قدم ہے جسے پنجاب حکومت نے سمجھا ہے اور وہ مختلف صلاحیتوں کے اظہار اور تہواروں کی پرموشن کے لیے کوشاں ہے۔ کسی بھی متوازن اور مہذب سماج کے لیے اس طرح کی سرگرمیاں لازم ہیں تاکہ لوگوں کو تفریح کے مواقع ملیں اور وہ ذہنی طور پہ روزمرہ کی روٹین سے بریک رہ سکیں اور تازہ دم اور توانائی سے بھرپور رہ سکیں۔

بہرحال اس تقریب کا انعقاد ایمرجنسی بنیادوں پہ کیا گیا تھا جس کی بدولت کچھ بد انتظامی نظر آ رہی تھی۔ لیکن ناظرین کا صبر اور رویہ قابل تعریف تھا کہ لمبے وقفوں غلط اناؤنسمنٹ اور لمحہ لمحہ بدلتے پروگرام میں بھی کسی طرح کی کوئی بدتہذیبی نہیں دکھائی۔ اینکرز میں نعمان ملک، سعدیہ بخاری اور پی این سی کی جانب سے صائمہ ناز شامل تھیں جنہوں نے خوش اسلوبی سے اچانک ہونے والے پروگرام کو سنبھالا۔

بات ہو جائے پرفارمنس کی تو اس میں لالی وڈ رقص سے لے کے بھارت ناٹیم اور اوڈیسی تک کو پیش کیا گیا۔ فنکاروں کی اتنی پرفارمنس میرے لیے ایک سرپرائز تھا اور ان سب کے لیے دل میں گہر احترام بھی پیدا ہوا کہ اس سماج میں رہتے ہوئے جو اس آرٹ کو قدر کی نظر سے نہیں دیکھتا اتنے کمٹمنٹ سے کام کر رہے ہیں اور اپنے آرٹ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ فلک جو پی این سی اے یعنی پنجاب نیشنل آف آرٹس کونسل کو پریزنٹ کر رہی تھی پنجابی، لالی وڈ قص کی کمال پرفارمنس پیش کی۔ مکھنا بھارت ناٹیم کی رقاصہ ہیں۔ ان کا رقص سب سے زیادہ حیران کن تھا کہ بہت کم وسائل اور نہ ہونے کے برابر اکنالجمنٹ والے معاشرے میں وہ یہ رقص زندہ رکھے ہوئے ہی۔ اے پی سی اے کے گروپ نے صوفی رقص پیش کیا۔

ہال میں موجود کے پی کے سے تعلق رکھنے والے طلبا کے اتن پیش کیا۔ جو اس بات کا اظہار تھا کہ موسیقی کا ردھم کیسے انسانوں کو ساتھ جوڑ دیتا ہے۔ تقریب میں وزیر ثقافت فیصل ایوب بھی موجود تھے اور لیجنڈری اداکار راشد محمود صاحب مہمان خصوصی تھے۔

پروگرام کے اچانک انعقاد کے باعث رقص سے منسلک صرف زریں سلمان پنہ صاحبہ موجود تھیں۔ دیگر فنکار جن میں بینا جواد، ناہید صدیقی، نگہت چوہدری، شیما کرمانی، اور مہاراج غلام حسین صاحب کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

ایک ایسے ملک میں جہاں اگر آپ گوگل پہ ٹاپ پاکستانی رقاص سرچ کریں تو آپ کو ان میں سے کوئی ایک نام بھی نہیں ملے گا رقص کو زندہ رکھنا بذات خود ایک آرٹ ہے ان تمام اداروں اور آرٹسٹس کو سلام جو اس خوبصورتی کو نامساعد حالات میں بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments