ہیڈونک ایٹنگ: جب پیٹ بھر جائے مگر دل نہ بھرے تو کیا کریں

اونر ارم - بی بی سی ورلڈ سروس


eating
خوراک کے ساتھ ہمارا تعلق پیچیدہ اور اکثر غیر صحت مندانہ ہوتا ہے۔

کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ آپ کو لگے کہ آپ نے کچھ کھایا اور اس سے جی بھر کر مزہ لینے اور پیٹ بھر جانے کے باوجود بھی آپ اسے کھائے جا رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ کھانے کی ایک ایسی عادت میں مبتلا ہو چکے ہیں جسے ماہرین ’ہیڈونک‘ یعنی پیٹ بھر جائے مگر دل نہ بھرے کی عادت کہتے ہیں۔

سائنس دان اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں ہوتا یہ ہے کہ ہم بھوک کی وجہ سے نہیں کھاتے بلکہ ہم کچھ بھی کھاتے چلے جاتے ہیں کیونکہ اس کھانے سے ہمیں خوشی کا احساس ہوتا ہے۔

ہیڈونک دراصل یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے خوشی۔ یونانی دیو مالائی کہانیوں میں ہیڈون کو خوشی کی دیوی کہا جاتا ہے۔

اگرچہ ہم جو بھی خوراک کھاتے ہیں اس سے کسی حد تک ہمیں لذت اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ بلاوجہ کھانے کی اصطلاح دراصل ان معاشروں میں عام استعمال ہوتی ہے جہاں کھانے کا حصول آسان ہوتا ہے جہاں لوگ بھوک میں کم مبتلا ہوتے ہیں اور ضرورت کے بغیر بھی کھاتے پیتے ہیں۔

کیک کو لالچ کے نظر سے دیکھتی ایک خاتون

میٹھا آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے

’ہیڈونک ہنگر‘ یا بھوک کیا ہوتی ہے؟

ہمارا جسم ان کیلوریز کے ذریعے کام کرتا ہے جو ہمیں اس خوراک سے ملتی ہے جو ہم کھاتے یا پیتے ہیں۔ جب ہم لی گئی کیلوریز سے زیادہ برن یا استعمال کر لیتے ہیں تو پھر ہمارے جسم کو زیادہ بھوک لگتی ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے معدے میں ایک ہارمونل سسٹم ہے جو ہمارے دماغ کو بتاتا ہے کہ معدہ خالی ہے۔ اس کو عام طور پر فیزیکل ہنگر یا جسم میں بھوک کا احساس کہا جاتا ہے۔

جیمز سٹبز برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم میں ہر کوئی ہیڈونک ایٹنگ کی عادت میں مبتلا ہوتا ہے اور ہر کسی کے کسی مقصد کے تحت کچھ رویے ہوتے ہیں۔

کچھ لوگوں کے لیے خوراک دیگر لوگوں کی نسبت زیادہ فرحت کا باعث ہوتی ہے۔

پروفیسر سٹبز کہتے ہیں کہ خوشی کے علاوہ بھی ہماری کھانے کی عادتیں دیگر مختلف وجوہات سے جڑی ہوتی ہیں۔ جن میں ہمارے جذبات، جیسے پریشانی سے بچنے یا بے چینی کے حالات بھی شامل ہیں۔ اور اس کی وجہ سے جسم کو کھانے کی حقیقی ضرورت اور کھانے کی ضرورت پوری ہونے کے باوجود بھوک کے احساس میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ایک خاتون

ہم خوشی کے احساس کے لیے زیادہ شکر، زیادہ نمک اور زیادہ چکنائی والی خوراک کھاتے ہیں

بہت زیادہ نہیں بس جب لوگ بنا بھوک کے کچھ کھانا چاہتے ہیں تو وہ سبز پتوں والی سبزیوں کو بطور سلاد کھانا چاہتے ہیں۔

لیور پول یونیورسٹی میں لیکچرر اور بھوک اور موٹاپے پر تحقیق کرنے والے ایک گروپ سے منسلک ڈاکٹر بیتھن کا کہنا ہے کہ ’ہم قدرتی طور پر ایسی خوراک کی تلاش کرتے ہیں جس میں چکنائی، نمک اور چینی زیادہ ہو کیونکہ انھیں اچھا سمجھا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ہم اس قسم کی خوراک کی جانب ان سے ملنے والی توانائی اور فرحت کی وجہ سے مائل ہوتے ہیں اور جب ہم انھیں کھا رہے ہوتے ہیں تو یہ فرق کرنا مشکل ہو سکتا ہے کہ کسی خوراک کو ہم جسم میں بھوک کے احساس کی وجہ سے کھا رہے ہوتے ہیں یا پھر فقط خوشی اور فرحت کے احساس کی وجہ سے کھا رہے ہوتے ہیں۔

موٹاپے کا خطرہ

دو مودے

کھانے کے لالچ کو نہ روک پانا موٹاپے کے اسباب میں شامل ہے

دراصل زیادہ چکنائی، نمک اور چینی والی خوراک کی وسیع پیمانے پر موجودگی کو ہیڈونک ایٹنگ کے عوامل میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اور پھر غیر صحت مند خوراک کھانے کے لیے اس طرح بغیر بھوک کے کھانے کی طلب کو موٹاپے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔

پروفیسر سٹبز کا کہنا ہے کہ اب ہمارے اردگرد ایسی خوراک کی بہتات ہے جو دیکھنے میں بہترین، باآسانی اور تیار شدہ یعنی پکی پکائی مل سکتی ہے۔

جدید معاشروں میں یہ وزن بڑھانے اور موٹاپے کا باعث بنتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بات حیرت کا باعث نہیں کہ آج زمین پر ہر آٹھ میں سے ایک شخص موٹاپے کا شکار ہے۔‘

ہم کیا کر سکتے ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ نظریاتی طور پر تو فرحت کے احساس کے لیے کھانے میں شاید کچھ قباحت نہیں ہے کیونکہ یہ ایک فائدہ مند احساس لگتا ہے لیکن اس میں حد سے زیادہ کھانے کی عادت میں مبتلا ہونے، کھانے کی لت لگنے اور موٹاپے کا شکار ہونے کے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔

ترکی میں رواں برس جنوری میں دی جنرل آف ہیومن نیوٹریشن اینڈ ڈایٹیکس میں شائع ہونے والی ایک تحقیق موٹاپے کے شکار بالغوں میں ہیڈونک ہنگر کے ساتھ تعلق کا جائزہ لیا گیا ہے۔

انھیں یہ پتہ چلا ہے کہ جسم کی ضرورت کے بغیر بھوک لگنے کا احساس زیادہ وزن کے حامل بالغوں میں بڑھ جاتا ہے اور اس سے ان میں خود اعتمادی میں کمی آتی ہے اور اپنے بڑھے ہوئے وزن کے بارے میں دوسروں کے سامنے بات کرتے ہیں۔

انھوں نے پتہ چلایا کہ جیسے جیسے زیادہ وزن والے بالغوں میں بھوک کا احساس بڑھتا ہے، خود اعتمادی میں کمی آتی جاتی ہے اور وزن کے معاملے میں خود کو بدنام کرنے میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ ہم ہیڈونک ایٹنگ کی وجہ سے زیادہ کھانے کی عادت سے بچ سکیں۔

کھانے کو دور کرتی ہوئی ایک خاتون

کھانے کے لالچ کو روکنا بہت مشکل امر ہے

ڈاکٹر میڈ کا کہنا ہے کہ تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ جب لوگ وزن کم کرتے ہیں تو ان میں بلاوجہ بھوک لگنے کا عمل بھی کم ہو جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو لوگ ایسا کر لیتے ہیں یعنی بنا بھوک کے بلاوجہ کھانے پر کنٹرول پا لیتے ہیں وہ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ وہ موٹاپے لج باعث بننے والی خوراک قسم کی خوراک پر ردعمل دینے کے انداز بدل لیں یا پھر وہ خوراک کو جس قدر فائدہ مند سمجھتے اس میں تبدیلی لائیں۔

پروفیسر سٹبز کہتے ہیں کہ شاید بہت سے لوگوں کے لیے وزن کم کرنا، خوراک کھانے کے لیے نئی عادتیں اپنانا یا پھر ایک نیا صحت مند طرزِ زندگی اپنانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔

مگر ان کا خیال ہے کہ ایسے طریقے ہیں جن کی وجہ سے اسے ہم خوشی کا باعث بننے والی ہیڈونک سرگرمی میں بھی بدل سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر آپ اپنی جسمانی سرگرمی کو بڑھانا چاہتے ہیں تو ان سرگرمیوں کے بارے میں سوچیں جو آپ کو خوشی دیتی ہیں۔ کیا وہ جم جانا ہے؟ شاید نہیں لیکن وہ دوستوں کے ساتھ چہل قدمی کرنا یا ڈانس کرنا بھی ہو سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ آپ کی زندگی میں خوشی کے کون سے پہلو تحریک پیدا کرتے ہیں، اور آپ اپنی نئی عادتوں کو ان چیزوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں جو کہ آپ کو خوشی دیتی ہیں۔

سوچ سمجھ کر کھانا ایک ایسا طریقہ ہو سکتا ہے جس کی مدد سے ہم حد سے زیادہ کھانے اور بنا بھوک کے زیادہ کھانا کھانے، دونوں ہی سے بچ سکتے ہیں۔

پروفیسر سٹبز مزید کہتے ہیں کہ ’گوبھی کو بطور ڈائٹ لینا آخری آپشن نہیں ہونا چاہیے۔ وہ مشورہ دیتے ہیں کہ اس کے بجائے ہمیں مزید متوازن نقطہ نظر سے خوراک لینی چاہیے۔

پروفیسر سٹبز کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو بنا بھوک کے کھانا کھانے سے روکنا نہیں چاہتے مگر ہم خوشی کے احساس کو زیادہ صحت مند طرز پر خوراک کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ ہم خوش کن نظر آنے والے کھانے پر سمجھوتہ کیے بغیر خوراک کے ساتھ ایک مثبت تعلق بنا لیں۔

پروفیسر سٹبز کہتے ہیں کہ ہم اس لائف سٹائل کی جانب جا سکتے ہیں جسے 80:20 کا طرز زندگی کہا جاتا ہے۔

اس میں ہوتا یہ ہے کہ اگر آپ اپنی خوراک میں سے 80 فیصد خوراک ایسی لیں جو کم کیلوریز والی ہوں اور اس میں ایسے غذائی اجزا زیادہ ہوں جو انھیں مزید پُرلطف بناتے ہیں تو پھر 20 فیصد خوراک ہم ایسی لے سکتے ہیں جس سے ہم خود کو ٹریٹ یا تحفے دے کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ یہ زندگی میں خوشی کا اضافہ کرتا ہے اور اکثر اسے سماجی تقریبات وغیرہ سے منسلک کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32786 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments