موڈاسا


موڈاسا: لاہوری صوفی کے ہاتھوں ایک ہندو راجہ کا مسلمان ہونا۔ تاتہ ٹوپے۔ جنگِ آزادیٔ کا ہیرو۔ اورنگزیب کی جائے پیدائش۔

اس پورے سفر میں مجھے جس بات کا مسلسل احساس ہو رہا تھا وہ یہ تھی کہ اب شاید ہی کبھی دوبارہ ان علاقوں کا دورہ کرنے کا موقع ملے۔ اس لیے میں کوشش کرتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ علاقے دیکھوں۔ میں سونے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد دوبارہ ریل کے دروازے کے پاس کھڑا ہو کر کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔ اس دوران ایک صاحب جن کی عمر پچاس سال سے زائد ہوگی بھی میرے پاس آ گئے۔ ان کے لباس اور سر پر ٹوپی سے لگتا تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے بڑی محبت سے جواب دیا۔ ہم نے آپس میں گفتگو شروع کر دی۔

جب میں نے انھیں بتایا کہ میرا تعلق لاہور سے ہے تو بے حد خوش ہوئے۔ میں نے ان کی غیر معمولی خوشی کا سبب جاننا چاہا تو انھوں نے بتایا کہ ان کا تعلق اس علاقے سے دور ایک قصبے موڈاسا سے ہے۔ انھوں نے پرجوش انداز سے بتایا کہ ہمارے علاقے میں کئی صدیوں پہلے ایک بزرگ تشریف لائے تھے جن کا نام مخدوم شاہ لاہوری ہے۔ ان کی کوششوں سے اس علاقے میں اسلام کی اشاعت ہوئی۔

ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ انھوں نے اس وقت کے ہندو راجہ پر مار، جو موڈاسا کے حکمران تھے کو بھی مسلمان کیا۔ موڈاسا کے بارے میں یہ بات سن کر میری دلچسپی میں بے حد اضافہ ہو گیا۔ میں نے مزید جاننے کے لیے ان سے باتیں شروع کر دیں۔ جو ہندو راجہ مسلمان ہوا اس نے مخدوم صاحب کے قدموں کی جانب دفن ہونا پسند کیا۔ یہ اس کی عقیدت کا ایک انداز تھا۔ میں نے اب تک ہندوستان کے بارے میں جو کچھ پڑھا اس کے مطابق یہ ہندوستان کے واحد ہندو راجہ ہیں، جنہوں نے ایک صوفی کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔ مخدوم صاحب کا مزار بہت مشہور ہے اور علاقے کے لوگ انھیں شہنشاہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

ہندوستان میں تبلیغ اسلام کا یہ پہلو اب تک میری نظر سے پوشیدہ تھا۔ ان تمام معلومات کے لیے میں نے ان صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان سے آخری سوال کیا کہ انھیں لاہوری کیوں کہتے تھے؟ اس پر انھوں نے بتایا کہ صحیح بات تو معلوم نہیں لیکن ہم سب کا یہ اندازہ تھا کہ وہ حضرت علی ہجویریؒ عرف داتا صاحب کے مرید تھے اور لاہور سے یہاں آئے تھے اس لیے انھیں لاہوری کہا جاتا ہے۔ یہ جان کر میرے دل سے داتا صاحب کے لیے بے حد دعائیں نکلی جن کی تبلیغ کے اثرات اتنی دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔

انھوں نے ایک دلچسپ بات بتائی کہ پرانے وقتوں میں جب لوگ حج کے لیے پیدل جاتے تھے تو موڈاسا وہ شہر تھا جہاں شمالی ہندوستان سے مکہ مکرمہ کے لیے سورت بندرگاہ جانے والے مسافر آتے تھے اور پھر یہاں سے آگے جاتے تھے۔ اس طرح اس شہر کو حاجیوں کی خدمت کا موقع ملتا تھا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ شہر دو ہزار سال پرانا ہے۔ جس کا ثبوت یہاں سے ملنے والے آثار قدیمہ ہیں۔ جب میں نے اس شہر کے بارے میں مزید جاننا چاہا تو مجھے پتہ چلا کہ یہ راجستھان کے جنوب میں واقع ہے اور اس علاقے پر راجستھانی تہذیب کے اثرات بھی پائے جاتے ہیں۔

اس علاقے پر سلاطین دلی کے ساتھ ساتھ مغلوں نے بھی حکومت کی۔ اس شہر کی اہم بات یہ ہے کہ یہ ان چند شہروں میں سے ہے جس پر انگریزوں کا براہِ راست کنٹرول تھا۔ اس لیے یہاں دوسرے علاقوں کی نسبت تعلیم کا معیار بہت بہتر ہے۔ مہاتما گاندھی کی جنگِ آزادی کی تحریک میں اس شہر نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انگریزوں کو بھی یہ شہر بے حد پسند تھا اور ان کے ایک مسافر بردار جہاز کا نام بھی موڈاسا تھا۔ موڈاسا کے بارے میں یہ سب جان کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ یہاں ایک علاقہ ایسا بھی ہے جس کا نام درگاہ سید رانا ہے۔ مجھے رانا اور سید کا اشتراک کچھ عجیب سا لگا۔ اس درگاہ کے بارے میں مجھے ایک وڈیو دیکھنے کا موقع ملا جس کی وجہ سے مجھے اس بارے میں جاننے میں سہولت ہوئی 1۔

داہود: مغل شہنشاہ اورنگزیب کی جائے پیدائش

ہماری گاڑی رات گئے داہود سے گزری۔ اس کے بارے میں میں نے پڑھا تھا کہ یہ شہر مغل شہنشاہ اورنگزیب کی جائے پیدائش ہے۔ اس وجہ سے اس شہر کی مغل تاریخ میں ایک خاص اہمیت ہے۔

اورنگزیب کے متعلق تاریخ میں بہت کچھ لکھا ہوا ہے۔ ایک مضمون جسے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ”اورنگ زیب عالمگیرؒ، تاریخ کا مظلوم حکمران“ کے نام سے لکھا ہے اور یہ جامعہ العلوم اسلامیہ کراچی کے رسالہ بینات میں اکتوبر 2017 ء میں شائع ہوا ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں کہ اورنگزیب ایک متقی آدمی تھا اور اس نے عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے بہت کام کیے۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگر اس نے کوئی مندر گرائے یا سکھوں کے ساتھ زیادتی کی یہ اس کا ایک سیاسی کردار تو ہو سکتا ہے کیونکہ وہ ایک بادشاہ تھا اور یہ سب کچھ اپنی ریاست کو بچانے کے لیا۔ اسے مذہب سے جوڑنا مناسب نہیں 2۔

داہود گجرات اسٹیٹ میں واقع ایک شہر ہے۔ اس کا نام ایک ہندو پروہت کے نام پر رکھا گیا۔ احمد آباد سے اس کا فاصلہ دو سو کلومیٹر سے زائد ہے۔ اس شہر کو دو حد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ جس کی وجہ اس شہر کا راجستھان اور مدھیہ پردیش کے درمیان واقع ہونا ہے۔ اس کے دونوں اطراف ان اسٹیٹس کی سرحدیں لگتی ہیں۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب نے اس شہر کی بہتری کے لیے خصوصی احکامات جاری کیے ہوئے تھے۔ داہود کی ریلوے کالونی کو انگریزوں نے تعمیر کیا جو فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ بھارت فلیگ شپ اسمارٹ اسٹیشن مشن کے تحت داہود کو سمارٹ شہروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

اس شہر کی ایک پہچان یہاں سے تعلق رکھنے والے جنگ آزادی کے ایک جنگجو سے بھی ہے۔ اُن کے کئی نام ہیں لیکن وہ زیادہ تر انتیا ٹوپے اور تاتہ ٹوپی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ 1857 ء کے جنگ آزادی کے دوران انھیں ایک جنرل کی حیثیت حاصل تھی۔

بھارت میں ان کی زندگی کے متعلق کئی کتابیں لکھی گئیں ہیں۔ مجھے سید جعفر محمود کی کتاب Pillars of Modern India, 1757-1947 کتاب دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کتاب میں کئی اور لوگوں کا ذکر بھی ہے جن میں نمایاں نام رانی جھانسی کا بھی ہے۔ اس کتاب کے مطابق (صفحہ 14 ) انھوں نے کوئی فوجی تربیت حاصل نہیں کی تھی لیکن اس کے باوجود انھیں ایک بہترین اور موثر جنگجو سمجھا جاتا تھا۔ جنگ آزادی میں ان کے کارناموں کی وجہ سے انھیں اس علاقے میں ایک ہیرو کے طور پر جانا جاتا ہے۔

جنگ آزادی کے ہیروز کی قدر ہر علاقے میں کی جاتی ہے۔ یہ میں نے بھارت اور پاکستان، ہر جگہ دیکھا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو۔ یہ سب عظیم لوگ تھے جنہوں نے ہمیں غلامی سے نجات دلائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments