اپنے شوہر کے ساتھ مقدس مقام کی سیر پر ’اچانک غائب‘ ہونے والی 77 سالہ خاتون جن کا بیٹا انھیں ایک دہائی سے ڈھونڈ رہا ہے


ریٹائرڈ ڈیلمار ونک 21 اکتوبر 2012 کی سہ پہر ساؤ پالو کے اندرونی علاقے میں ایک سٹور میں تھے۔ باہر ان کی بیوی بیٹریز ونک ان کا انتظار کر رہی تھیں لیکن جب وہ سٹور سے باہر نکلے تو وہ وہاں موجود نہیں تھیں۔

اس خاتون کو ان کے گھر والوں نے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔ اس وقت ان کی عمر 77 برس تھی اور اس کے بعد سے ان کے رشتہ دار انھیں تلاش کرتے رہے ہیں۔

بیٹریز کی گمشدگی نے اہلخانہ اور پولیس حکام کو پریشان کر دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے معاملے کی تحقیقات کی ہیں لیکن کچھ پتا نہیں چلا۔

ان کے خاندان نے نجی جاسوسوں کی خدمات بھی حاصل کیں لیکن وہ بھی کوئی نئی معلومات حاصل کرنے سے قاصر تھے۔

اہلخانہ کا کہنا ہے کہ ڈیلمار، جو اس وقت 90 سال کے ہیں، اکثر اپنی بیوی کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آج تک وہ حیران ہیں کہ وہ کس طرح لمحوں میں بغیر کوئی نشان چھوڑے غائب ہو گئیں۔

بیٹریز اور ڈیلمار کے چار بچوں میں سے بڑے بیٹے جواؤ ونک، جن کی عمر 62 سال ہے، بنیادی طور پر اپنی ماں کی تلاش کے ذمہ دار ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’یہ کہنا مشکل ہے لیکن یہ سب سیکھنے کا تجربہ رہا ہے۔ آپ بہت جلدی پختہ ذہن ہو جاتے ہیں۔ جب سے میں نے اپنی ماں کی تلاش شروع کی، مجھے ایک ایسی حقیقت کا سامنا کرنا پڑا جس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے بیٹریز کی تلاش میں اپاریسیڈا کے علاقے میں صحافیوں، پولیس افسران اور یہاں تک کہ منشیات کے سمگلروں سے بھی بات کی۔ ایک جج نے مجھ سے کہا کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن میں نے ان سے کہا کہ اس وقت جو چیز سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی وہ میری ماں کی تلاش تھی۔‘

جواؤ کا خیال ہے کہ ان کی والدہ زندہ ہیں لیکن رشتہ داروں کا خیال ہے کہ اتنے برسوں کے بعد شاید بیٹریز مر چکی ہیں۔ اختلاف کے باوجود خاندان کے افراد کی ایک مشترکہ خواہش ہے: یہ جاننا کہ بیٹریز کے ساتھ کیا ہوا تھا۔

ساؤ پالو سول پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تحقیقات کے ذمہ دار وفد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ساؤ پالو پبلک سکیورٹی سیکریٹریٹ کے پریس آفس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

لاپتہ کیسے ہوئیں

بیٹریز اور ان کے شوہر تقریباً 60 سال سے ایک ساتھ تھے۔ ان کی پسندیدہ سرگرمیوں میں سے ایک خطے میں بزرگ افراد کے گروپوں کے ساتھ سفر کرنا تھا۔ اکتوبر 2012 میں بیٹریز اور ڈیلمار 30 سے زیادہ افراد کے ساتھ ایک دورے پر اپاریسیڈا گئے تھے۔

یہ سفر تقریباً ایک ہفتے تک جاری رہنا تھا۔ ان کی بس اتوار کے روز اپریسیڈا پہنچی تھی، ایک ایسا وقت جب اس مقدس مقام پر عام طور پر ہزاروں سیاح جمع ہوتے ہیں۔

ڈیلمار اور بیٹریز ہوٹل گئے، اپنی چیزیں چھوڑیں اور علاقے میں چہل قدمی کرنے کا فیصلہ کیا۔

جواؤ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے سٹور سے اپنی مرضی کا سامان منتخب کیا اور کیشئر کی طرف چلے گئے لیکن چونکہ رش تھا تو میرے والد نے میری ماں سے سٹور سے باہر نکلنے کے دروازے پر انتظار کرنے کو کہا۔ انھوں نے دیکھا کہ میری ماں باہر کھڑی ہیں اور انتظار کر رہی ہیں۔ جب ان کی باری آئی تو انھوں نے پیسے دیے اور باہر گئے لیکن انھیں میری ماں نہیں ملیں۔‘

اس کے بعد سے ان کی گمشدگی کا معمہ شروع ہو گیا۔

ڈیلمار نے مقدس مقام کے گارڈ کو بلایا۔ ان سے اپنی بیوی کی تلاش میں جانے والوں کی مدد حاصل کی لیکن کوئی سراغ نہیں ملا۔

ایک معمر خاتون جو اس جوڑے کی طرح سیر پر تھی، نے بتایا کہ بیٹریز نے تھکاوٹ کی شکایت کی تھی اور وہ ’گھر‘ جانا چاہتی تھیں لیکن جواؤ کو یقین نہیں کہ ان کی ماں اس وقت وہاں سے نکلی تھیں۔‘

جواؤ کہتے ہیں ’وہ میرے والد کو بتائے بغیر باتھ روم نہیں جاتی تھی۔ وہ بھی میری ماں کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ وہ بہت قریب تھے۔ جب میرے والد نے انھیں سٹور کے دروازے پر انتظار کرنے کے لیے کہا، تو مجھے یقین ہے کہ وہ دروازے پر کھڑی انتظار کر رہی تھیں لیکن کسی وجہ سے غائب ہو گئیں۔‘

جواؤ کا کہنا ہے کہ انھوں نے جلد ہی اپریسیڈا کے لیے پرواز پکڑی۔ اگلے دن انھوں نے اپنی ماں کی گمشدگی کے بارے میں پولیس میں رپورٹ درج کرائی۔

پولیس نے معاملے کی تحقیقات کا آغاز کیا اور تلاش میں مدد کرنا شروع کردی۔

مسلسل تلاش

بیٹریز کی گمشدگی کے بعد ان کے اہلخانہ جوابات کی تلاش میں کچھ عرصے کے لیے اپریسیڈا میں رہے۔ ان کی تصویر کے ساتھ 50 ہزار سے زائد پمفلٹ بنائے گئے جو شہر اور آس پاس کے دیگر علاقوں میں تقسیم کیے گئے۔

اس کے علاوہ بیٹریز کی تلاش میں مدد کے لیے متعدد رضاکار متحرک ہوئے لیکن کوئی سراغ نہیں ملا۔

جواؤ کہتے ہیں ’ہمیں ان کی گمشدگی کے 15 دن بعد ہی کیمروں تک رسائی حاصل ہوئی اور اس سے ہماری کوئی مدد نہیں ہوئی کیونکہ ہمیں پتا چلا کہ وہاں کی فوٹیج کے اوپر دوسری فوٹیج ریکارڈ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا کچھ بھی ریکارڈ نہیں کیا گیا تھا۔‘

بی بی سی نیوز برازیل کو لکھے گئے ایک نوٹ میں اپریسیڈا کے قومی مقدس مقام کی جانب سے کہا گیا کہ ’لوگوں کے اپنے اہلخانہ سے الگ ہو جانے کے بعد یہ نظام لگایا گیا جو اسی دن دوبارہ مل بھی جاتے ہیں‘ تاہم انتظامیہ نے رپورٹر کو بھیجے گئے نوٹ میں اس بات کی تفصیل نہیں دی کہ اس نے گمشدگی کی تحقیقات میں کس طرح مدد کی۔

بیٹریز کی گمشدگی کے بارے میں اٹھائے گئے مفروضوں میں ایسے حالات بھی شامل تھے جیسے یہ امکان کہ وہ شہر میں گم ہو گئیں، غلط دورے پر بس میں سوار ہوئیں یا یہاں تک کہ اپنے خاندانی گھر واپس جانے کا فیصلہ کیا لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے، ان امکانات کو ترک کر دیا گیا۔

بیٹریز کی خصوصیات کے ساتھ اپریسیڈا یا اس کے آس پاس کسی معمر خاتون کے گم ہونے کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ اس وقت ٹورز نے غلط بس میں عمر رسیدہ خاتون کا کوئی کیس رپورٹ نہیں کیا تھا اور اس بات کا کوئی اشارہ نہیں تھا کہ بیٹریز نے گھر واپس جانے کی کوشش کی۔

بیٹریز کی تلاش جاری رہی لیکن ان کی گمشدگی نے اہلخانہ اور تلاش میں شامل افراد کو مزید پریشان کر دیا۔

اغوا کی صورت میں تاوان کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا تھا، یا ایسی کوئی صورتحال نہیں تھی جس سے یہ اشارہ ملتا کہ وہ کسی قسم کے جرم کا شکار ہوئیں۔

جواؤ کا کہنا ہے کہ ان کی ماں کسی ایسی بیماری میں مبتلا نہیں تھیں جس کی وجہ سے وہ بے چین ہو جائیں۔ ’سفر سے پہلے ان کا چیک اپ ہوا اور ڈاکٹر نے بتایا کہ انھیں صحت کا کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ سفر کرنے کے لیے فٹ تھیں۔ انھیں الزائمر یا کوئی ایسی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے انھیں یادداشت کی کمی کا سامنا کرنا پڑے۔‘

’میں حیران ہوں کہ میں نے میڈیا میں اتنا شور مچایا، میں نے اتنے سارے لوگوں سے بات کی، میں نے 50 ہزار سے زیادہ پمفلٹ منگوائے اور انھیں علاقے میں تقسیم کیا، مجھے رضاکاروں سے مدد ملی اور آج تک مجھے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں ملا؟‘

اس وقت انھوں نے اپنی والدہ کی گمشدگی کی تشہیر کے لیے کئی میڈیا اداروں کا پیچھا کیا تھا۔ جواؤ نے کئی پولیس افسران سے بھی بات کی، نجی تفتیش کاروں کی خدمات حاصل کیں اور یہاں تک کہ اپنی ماں کی تلاش میں مدد مانگنے کے لیے اپریسیڈا کے علاقے میں پرتشدد سمجھے جانے والے علاقوں کا دورہ بھی کیا۔

’ہمیں بالکل کوئی سراغ نہیں ملا۔‘

ان کا خیال ہے کہ اس کی ماں زندہ ہیں اور انھیں کہیں لے جایا گیا ہے۔

جواؤ کہتے ہیں’میرا احساس یہ ہے کہ وہ یادداشت کی کمی یا اسی طرح کی کسی چیز کی وجہ سے غائب نہیں ہوئیں۔ کچھ ہوا لیکن میں نہیں جانتا۔ مجھے یقین ہے کہ میں انھیں اب بھی پولیس کے ذریعے تلاش کروں گا۔‘

حالیہ برسوں میں بیٹریز کے اہلخانہ کو ہسپتالوں یا سڑکوں پر عمر رسیدہ خواتین کے بارے میں کئی رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔

جواؤ کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ ان رپورٹس پر توجہ دیتے ہیں، خاندان کے ساتھ مل کر خواتین کی تصاویر کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا ان کی والدہ ہیں یا نہیں لیکن انھیں کبھی کوئی ایسا نہیں ملا جو بیٹریز جیسا نظر آتا ہو۔

ساؤ پاؤلو سول پولیس کا کہنا ہے کہ بیٹریز کا کیس جون 2013 میں عدالت میں رپورٹ کیا گیا تھا، جو ان کی گمشدگی کے آٹھ ماہ بعد تھا۔

دو ماہ بعد بیٹریز کی تلاش کے لیے نئے طریقہ کار کی درخواست کرنے کے بعد یہ معاملہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آف ہومی سائیڈ اینڈ پرسنل پروٹیکشن کو بھیج دیا گیا، جو اس وقت سے تحقیقات کا ذمہ دار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ففتھ مسنگ پرسنز انویسٹی گیشن سٹیشن اس کیس کی تحقیقات کر رہا ہے اور تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔

ساؤ پالو پبلک سکیورٹی سکریٹریٹ کے ایک نوٹ میں کہا گیا کہ پولیس کے کام میں مدد دینے والی کوئی بھی معلومات ہاٹ لائن کے ذریعے فراہم کی جاسکتی ہیں۔

’مجھے واقعی لگتا ہے میں انھیں تلاش کر لوں گا‘

جواؤ کے خاندان میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو انھیں اپنی والدہ کی تلاش چھوڑنے کے لیے کہتے ہیں تاہم جواؤ اپنی تلاش چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچتے۔

انھوں نے درست رقم کی تفصیلات تو نہیں بتائیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی ماں کی تلاش میں پمفلٹ، سفر اور نجی جاسوسوں کو ادائیگیوں کے ذریعے ’لگژری کار سے زیادہ‘ پیسے خرچ کیے۔

جواؤ کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے والد اپنے ساتھی کی گمشدگی کے بارے میں جواب حاصل کیے بغیر نہ مریں۔

’کبھی کبھی وہ سوچتے ہیں کہ میری ماں زندہ ہیں لیکن اگر کوئی آتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ مر چکی ہیں، تو وہ اس پر بھی یقین کرتے ہیں۔ ہر لمحے وہ اس بارے میں کچھ نہ کچھ سوچتے ہیں۔‘

جواؤ نے اس کیس کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے فیس بک پر ’بیٹریز کہاں ہیں؟‘ پیج میں سرمایہ کاری کی، جسے اب 18 ہزار سے زیادہ لوگ فالو کرتے ہیں اور یہاں تک کہ تلاش میں مدد کے لیے اسی نام سے ایک ویب سائٹ بھی بنائی۔

انھوں نے ایک سوشل میڈیا ماہر کی مدد حاصل کی اور فیس بک پیج پر ایک پوسٹ کو فروغ دینے کے لیے ادائیگی کی، جس میں انھوں نے اپنی والدہ کی گمشدگی کی تفصیل اور ان کی تصاویر دکھائیں۔ کچھ ایسی تصاویر بھی تھیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے اتنے برسوں بعد بیٹریز کیسی نظر آتی ہوں گی۔

فیس بک پوسٹ نے جواؤ کی توقع سے کہیں زیادہ رسائی حاصل کی اور اسے 106،000 بار شئیر کیا گیا۔

فیس بک پر زبردست رسائی کے بعد ان کے رشتہ داروں کو کئی عمر رسیدہ خواتین کے بارے میں معلومات ملیں، جن کی یادداشت کھو چکی تھی اور جو ہسپتال یا سڑکوں پر تھیں تاہم ان میں سے کوئی بھی بیٹریز نہیں تھیں۔

پھر جواؤ کو لاپتہ افراد کے رشتہ داروں سے ڈی این اے جمع کرنے کی قومی مہم سے ایک نئی امید ملنا شروع ہوئی۔

وزارت انصاف اور عوامی سلامتی کی جانب سے شروع کیے گئے اس اقدام کا مقصد ٹیسٹ اور جینیاتی پروفائل بینکوں کے ذریعے لاپتہ افراد کی شناخت کو ممکن بنانا ہے۔

حکومت کے مطابق اس ٹیکنالوجی کی مدد سے بغیر شناخت کے موجود افراد اور بینک میں رجسٹرڈ افراد کے درمیان جینیاتی روابط کی نشاندہی ممکن ہوتی ہے۔

جواؤ نے جینیاتی مواد جمع کیا اور اسے مہم میں بھیج دیا لیکن اب تک ایسی کوئی خبر سامنے نہیں آئی، جس سے یہ اشارہ مل سکے کہ بیٹریز کے ساتھ کیا ہوا۔

جواؤ اور ان کے خاندان کے دیگر افراد اب بھی پریشان ہوتے ہیں تاہم ان کا ماننا ہے کہ ان کی اپنی والدہ سے ملاقات قریب ہے۔

جواؤ کہتے ہیں ’میری ماں اور والد کی فیملی بہت طویل عرصے سے زندہ ہے۔ وہ ایسے لوگ ہیں جو کئی سال تک زندہ رہتے ہیں۔ مجھے واقعی لگتا ہے کہ میں انھیں کہیں زندہ پا لوں گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 33050 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments