موسمیاتی تبدیلی اب ہمیں دوزخ کی راہ دکھا رہی ہے


پاکستان سمیت خطے کے کئی ممالک اس وقت شدید گرمی اور بے موسمی بارشوں کی لپیٹ میں ہیں جس سے انسانوں سمیت پرند چرند اور حشرات الارض کا جینا مہال ہوتا جا رہا ہے، یہ تمام تر صورتحال کوئی ایک دو روز، مہینے یا سال کی نہیں بلکہ کئی سالوں سے بنی آدم کی ترقی کی دوڑ میں معدنیات کے بے دریغ استعمال کا نتیجہ ہے۔

پاکستان میں رواں سال فروری کے مہینے میں جہاں بلوچستان اور کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں ریکارڈ بارشیں ہوئیں وہیں اب ہیٹ ویو نے ہمیں آ جکڑا ہے، اس وقت شمالی سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں ہیٹ ویو کے دوران درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ رہا ہے جو کہ کسی بھی جاندار کے لیے نہایت ہی خطرناک ہے، بڑھتا درجہ حرارت قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع سمیت زرعی پیداوار میں کمی سمیت پورے ایکو سسٹم کو متاثر کر رہا ہے۔ جان لیوا گرمی کا یہ سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو شاید آنے والے سالوں میں ہمارے کئی شہر رہنے کے قابل نہیں ہوں گے اور موسم گرما میں لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑ جائے گی۔

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے ملک میں موسم سرما کے بعد اچانک تیز گرمیاں شروع ہو گئیں، بہار کی موسم میں بھی گرمی کی شدت بڑھنے سے بہار کی موسم کا بس نام ہی رہ گیا ہے، محکمہ موسمیات کا اپنے ایک جائزے میں کہنا تھا کہ 1961 کے بعد مارچ 2022 پاکستان کا گرم ترین مہینہ تھا جس کے بعد ستمبر کے مہینے میں ملک میں شدید بارشوں کی بعد سیلاب آیا تھا جس سے انسانی جانیں ضائع ہوئی، لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی اور لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی بھی تباہ ہوئی جس سے ملکی معیشت کو نقصان ہوا۔ 2023 میں بھی درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا جو کہ اب بتدریج بڑھتا ہی جا رہا ہے، حالیہ موسمیاتی ماڈل بھی گرمی کی شدت میں اضافے کے بعد ریکارڈ بارشوں کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

عالمی سطح پر پاکستان گرین ہاؤس گیسز میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے جو کہ گرمی کا درجہ حرارت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک کی فہرست میں شامل ہے، پاکستان میں پہلے تقریباً ایک دہائی کے بعد سیلاب کی صورتحال پیدا ہوتی تھی لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اب ہمیں ہر تیسرے سال شدید سیلابی طوفان کا سامنا رہتا ہے۔

اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (آئی پی سی سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے تو ہمیں مزید ہیٹ ویو، خشک سالی، سیلاب اور خوراک کی کمی کا سامنا کرنا ہو گا۔ عالمی درجہ حرارت بڑھنے سے بے موسم ژالہ باری اور جنگلات میں آگ کا لگنا بھی معمول بن چکا ہے۔ درختوں کی کٹائی اور جنگلات کا ختم ہونا بھی گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ پورے ایکو سسٹم کو متاثر کر رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیے سنجیدہ اقدامات ناگزیر ہو گئے ہیں، بڑھتے درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے زیادہ درخت لگانے ہوں گے، حکومتی سطح پر کاربن کے استعمال میں کمی کے لیے ماحول دوست منصوبوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہو گا، آئل اور کوئلے کے بجائے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں جیسا کہ سولر اور ونڈ انرجی کا استعمال بڑھانا ہو گا، گاڑیوں اور فیکٹریوں کا دھواں بھی ماحول کی خرابی کی بڑی وجہ ہیں جس سے بچنے کے لیے ہمیں ماحول دوست گاڑیوں کا استعمال کرنا ہو گا۔ اگر اس وقت بھی ہم نے سنجیدگی سے ماحول کی بہتری کے لیے کام نہیں کیا تو آنے والی نسلوں کے لیے یہ دھرتی رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments