میں بروں میں لاکھ برا سہی


میں حیران تھا کہ لاہور کتنا پھیل گیا ہے۔ لاہور کی اس آبادی میں شہر کی اشرافیہ رہتی ہے۔ میرے دوست عرفان قیصر شیخ کا تعلق چنیوٹ سے ہے۔ ان کے والد اس ہی علاقہ سے حالیہ قومی اسمبلی کے ممبر بھی ہیں۔ عرفان قیصر شیخ ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں۔ چیمبر آف کامرس کے صدر بھی رہ چکے ہیں اور سابق صوبیدار پنجاب میاں شہباز شریف کے قریبی حلقے کے اہم فرد تصور کیے جاتے ہیں۔ ہم دونوں کے درمیان ایک اور قدر بھی مشترکہ ہے۔ وہ بھی میرے روحانی مرشد سید سرفراز شاہ کے بہت ہی مداح ہیں۔

جب عرفان قیصر شیخ نے چند دوستوں کو ماحضر تناول پر مدعو کیا، جاتی ہوئی سردی میں بارش کافی خنکی کا باعث تھی۔ جب بارش اور لاہور کی ٹریفک کے رش میں کافی وقت گزارنے کے بعد ان کی قیام گاہ پر پہنچا تو اس وقت مجھ سے پہلے ایک اور د وست جناب رضا حیات ہراج سابق وزیر اور کامیاب کاشتکار موجود تھے۔ ان کے پاس سیاسی اور سماجی معلومات کا بڑا وسیع ذخیرہ ہے اگرچہ ان کا حلقہ ساؤتھ پنجاب میں ہے مگر وہ سنٹرل پنجاب سے جڑے نظر آتے ہیں وہ ساؤتھ پنجاب کے بھیدی بھی ہیں ان کی آج کل ساوتھ پنجاب کی سیاست پر گہری نظر ہے۔

ابھی ہماری بات چیت شروع ہی ہوئی تھی کہ اطلاع ملی کہ ایک اور دوست کی آمد ہے ہمارے دوست اور میرے مہربان بابر حسین بھروانہ بہت ہی خوشگوار شخصیت کے مالک ہیں وہ سابق مرکزی سرکار کے فیڈرل سیکرٹری تھے اور اپنی ملازمت کے چند آخری مہینے انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس میں گزارے وہ ایک بہت ہی دلچسپ اور معلومات سے بھرپور سفرنامے کے مصنف بھی ہیں ان کے پاس بھی یادوں اور باتوں کا مربوط ذخیرہ ہے۔ پھر وہ میرے دوسرے دوستوں کی طرح سید سرفراز شاہ صاحب کی ہفتہ وار محفل کے اہم رکن بھی ہیں اور ان کے سوالات روحانی معاملات اور تاریخ کے حوالہ سے بڑے فکرانگیز ہوتے ہیں ان سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے مگر مذہب اور روحانیت کے تناظر میں ان کا جواب حاصل کرنا مشکل لگتا ہے۔

ان کو پنجاب کے روحانی بابوں کے بارے بہت ہی جانکاری ہے اور پنجابی شاعری کے حوالے سے ان کی گفتگو بہت ہی دلچسپ ہوتی ہے وہ آج کل اپنی ایک کتاب پر کام بھی کر رہے ہیں۔ دوستوں کے لئے ان کا درہمیشہ کھلا ہی دیکھا ہے بہت ہی معاملہ فہم اور نرمی مزاجی نے ان کو دوستوں میں بہت مقبول حیثیت دے رکھی ہے۔ ابھی ان کا ذکر ہو رہی رہاتھا کہ وہ بھی تشریف لے آئے۔ رضا حیات ہراج ان کے پرانے نیازمند ہیں۔ اب ہماری گفتگو سابق وزیراعظم نواز شریف کے آخری ایام کے بارے میں ہو رہی تھی میں عرفان قیصر شیخ سے پوچھ رہا تھا کہ کس کس دوست نے آنا ہے۔

تو مجھے بتانے لگے کہ بارش کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے مگر میرا سوال تھا کہ کس کس کا انتظار ہے، کہ جناب سجاد میر کے آنے کی اطلاع ملی۔ سجاد میر پاکستان کی صحافت کی اہم شخصیت ہیں ایک عرصہ کراچی میں بڑے اخبار کے ساتھ گزارا اور اب چند سال سے لاہور میں ہیں ان کے مطابق ان کا آبائی علاقہ ساہیوال (سابقہ منٹگمری) ہے۔ سجاد میر صاحب پاکستان کی سیاست کو خوب جانتے اور پہچانتے ہیں یہ میرے بھی مہربان ہیں۔ ان کی سیاسی تحریر کا اپنا اسلوب ہے میں اکثر ان کو ناراض کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر سجاد میر صاحب فراخ دل اور پرشفقت ہیں۔

ان کی آمد سے گفتگو کا رخ ذرا سا بدل گیا وہ وزیراعظم پاکستان عمران خاں کی سیاست کے اچھے ناقد بھی ہیں مگر وہ لیگی سیاست کے مدا ح بھی ہیں۔ اردو ادب پر ان کی گہری نظر ہے۔

ابھی سجاد میر صاحب سے بات ہو ہی رہی تھی کہ دو قدآور بری فوج کے بریگیڈیئر صاحبان تشریف لے آئے۔ جناب بابر عباسی حاضر سروس ہیں اور ان کے ساتھ سابق ڈی جی پنجاب اینٹی کرپشن بریگیڈیئر رانجھا تھے۔ بریگیڈیئر رانجھا بھی کمال کی شخصیت ہیں سول میں کام کرنے کے بعد وہ بہت کوشش کرتے ہیں کہ سویلین نظر آئیں مگر فوج ان کا پہلا عشق ہے اور سول سروس کے خمار کو بھولتے نہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خاں سے خوش نظر نہیں آتے۔ وہ ایک وقت ماسکو میں پاکستان کے سفارتخانہ کے اہم رکن بھی رہ چکے ہیں اور روس کے حوالہ سے ان کے پاس معلومات کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ وہ کم از کم دو تین کتابیں تحریر کر سکتے ہیں۔ وہ سابق صوبیدار پنجاب شہباز شریف کے کافی قریب رہے اور ان کے مزاج شناس بھی لگتے ہیں۔ وہ دبنگ طریقہ سے دلائل دیتے ہیں ہمارے میزبان کی بڑی کوشش رہی کہ گفتگو ساوتھ پنجاب سے نکل کر مرکزی سیاست پر ہو سکے مگر رضا ہراج اور بریگیڈیئر رانجھا نے اپنے حلقہ کی سیاست کا ایسا رنگ بھرا کہ بات صرف ان تک ہی رہی۔

اب صرف حبیب صاحب کا انتظار تھا حبیب صاحب ایک بڑی تعمیریاتی کمپنی کے مالک ہیں اور کچھ حلقوں میں یہ بھی تاثر ہے کہ وہ سابق صوبیدار پنجاب کے ساتھ ان کے منصوبوں کے نگران بھی رہے ہیں۔ بڑے زیرک ہیں اور حالات کے مطابق معاملہ فہمی کا ہنر جانتے ہیں۔ روس کی غیر سرکاری یا اعزازی سفارت کاری میں شریک ہیں ابھی بات ہو رہی تھی کہ عرفان قیصر شیخ نے کھانے کی نوید دی کھانے کی میز پر من وسلویٰ کی اتنی ورایٹی تھی کہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کہاں سے شروع کیا جائے۔ میں نے تو اپنی پلیٹ میں چیونٹی کنا سے آغاز کیا۔ کیا کمال کی ڈش تھی۔

ہمارے دوسرے دوست بھی میری طرح مصروف تھے کھانے کی میز پر سب لوگ ہی پکوان کی تعریف میں لگے رہے اور حق تو یہ ہے کہ تعریف کا حق ادا نہ ہوسکا۔ کھانے کے بعد دوبارہ محفل جمی اور عرفان قیصر شیخ کا اصرار تھا کہ ملکی سیاست پر بات کی جائے اور اندازہ لگایا جائے کہ عمران خاں کی سرکار کتنا عرصہ چل سکے گی مگر زیادہ بات ہو نہ سکی۔ میں نے کہا عمران کے ساتھ مولا ہے سو وہ اتنا برا نہیں۔

میں بُروں میں لاکھ بُرا سہی مگر ان سے ہے میرا واسطہ
میری لاج رکھنا میرے خدا یہ تیرے حبیب کی بات ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).