کینال پارک کی رات، میڈیکل سٹور پر موت اور گھر کا دروازہ


وہی دوست جس کا تذکرہ پہلے قابل توجیہہ تحیر میں ہوا تھا، اس واقعے کے تین سال بعد کی بات ہے، جب ہم دونوں لاہور منتقل ہو چکے تھے۔ میں کینال پارک کے دوکمروں اور ایک برآمدے والے گھر میں رہا کرتا تھا۔ گلی کے باہر مین بازار میں حسن نثار کی رہائش تھی۔ ہمارا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میرے اس دوست کا ہمارے مشترکہ دوست کی بہن سے افئیر چل رہا تھا۔ وہ کبھی کبھار رات گزارنے ہمارے ہاں آ جایا کرتے تھے۔ ہم میاں بیوی ہوتے ہوئے بھی ایک کمرے میں دور دور پڑی چارپائیوں پر لیٹے دوسرے کمرے میں ایک ہی پلنگ پر لیٹے اس جوڑے کے محبت کے عمل کے بعد کے قہقہوں کو سن کر شرما رہے ہوتے تھے۔

میں نے حسن سے کہا کہ وہ میری بات کو تو مذاق میں اڑا دے گا، تم اسے سمجھاؤ اس نے جواب میں کہا کہ تھا میں کسی کے ذاتی معاملے میں مداخلت نہیں کروں گا۔ اس کی بات درست تھی، وہ اس کے لیے تو کوئی تھا لیکن میرے لیے وہ میں ہی تھا۔ میں نے بھی ایک میڈیکل طالبہ سے بیاہ کیا تھا اور مشکلات کا شکار تھا۔ اس کی دوست بھی میڈیکل کی طالبہ تھی اور اس نے خود میڈیکل کو بیچ میں چھوڑا ہوا تھا۔ ذریعہ روزگار تھا نہیں۔ آخر میں نے سوچا کہ میں خود ہی سمجھاؤں گا۔

میں نے اسے ایک روز کہا تھا کہ آج رات تم رک جاؤ، میں نے تم سے ضروری باتیں کرنی ہیں۔ ہم صبح کاذب تک اس معاملے پر بحث کرتے رہے تھے۔ پہلے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بھی میں بتا چکا ہوں کہ بہت ذہین شخص کو سمجھانا بھی مشکل ہوتا ہے۔ خیر اس نے پھر کہا تھا کہ سگریٹ ختم ہو گئے ہیں، چلو سگریٹ لینے چلتے ہیں۔ ہم موٹر سائیکل پر سوار ہو کر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ سگریٹ مزنگ جا کر مل سکے تھے۔ میں وضع داری میں پوچھ بیٹھا تھا کوئی نشہ وشہ بھی چاہیے؟ اس نے پوچھا تھا، ”اس وقت کیا مل سکے گا؟“ مجھے پتہ تھا کہ وہ کبھی کبھار مسکن دوا ”ڈائزی پام“ کے ٹیکے رگ میں لگاتا ہے۔ میں نے اسے کہا تھا ”ڈائزی پام انجکشن“ ۔ بولا ٹھیک ہے لے دو۔

میو ہسپتال کے سامنے میرے ایک شناسا کا میڈیکل سٹور تھا جس کا تعلق بہاولپور سے تھا۔ ہم اس کی دکان میں پہنچے تو وہ پڑچھتی میں سویا ہوا تھا۔ لڑکا نیچے بیٹھا تھا۔ میں نے کہا تھا جگاؤ اسے۔ وہ میری آواز سن کر ہی جاگ کر نیچے آ گیا تھا اور آنکھیں ملتے ہوئے لڑکے سے بولا تھا، ”جاؤ چائے لے کر آؤ“ ۔

اس نے پوچھا تھا، ”ڈاکٹر صاحب اس وقت یہاں، خیر ہے“ ۔ میں نے اسے بتایا تھا کہ بس یوں ہی مٹر گشتی کے لیے نکلے تھے اور ہاں دو والیم کے انجکشن تو دو۔ اس نے کہا تھا کہ اس کے پاس نہیں ہیں مگر ابھی لا کر دیتا ہے۔ وہ ہمیں چھوڑ کر سامنے والے میڈیکل سٹور پر گیا تھا اور دو ٹیکے بمع دو ڈسپوزیبل سرنجوں کے لا کر میرے سامنے میز پر رکھ دیے تھے۔ ہم آپس میں باتیں کرنے لگے تھے۔ دوست کے جی میں نجانے کیا آئی کہ اس نے بازو چڑھایا، رگ ابھاری اور مجھے کہا، ”مجھے ٹیکہ لگا دو“ ۔

میں نے ناپسندیدگی سے دیکھا مگر بہر حال ٹیکہ لگا دیا۔ لڑکا چائے لے آیا تھا۔ اس دوست نے ضد کر لی کہ تم بھی لگاؤ ٹیکہ۔ میں نے اسے دو ایک بار کہا کہ، ”یار، میں نے کبھی نہیں لگوایا اور وہ بھی رگ میں“ ۔ وہ ضد پر ڈٹا رہا۔ میں نے بازو اس کے سامنے کر دیا تھا۔ اس نے میری رگ میں ایک تہائی ڈائزی پام انڈیلی تھی کہ میں نے اٹکی ہوئی زبان میں کہا تھا، ”نکال لو“ ۔ اس نے مارے ڈر کے سوئی نکال لی تھی۔ مجھے لگا تھا جیسے میں مر رہا ہوں۔

میں یہ سوچ کر کہ میڈیکل سٹور والا دوست کیا کہے گا کہ سالے مجھ سے نشے کے ٹیکے لیتے ہیں اور مرتے بھی میری دکان پر ہیں، خیال کیا تھا کہ میرا بلڈ پریشر کم ہو گیا ہے، میں نے آدھی کمر کرسی کی نشست پر ٹکائی اور سرین اٹھا کر ٹانگوں سمیت میز کے کنارے پر ٹکا دیے تھے۔ چائے بھی پیتا رہا اور سٹور والے سے باتیں بھی کرتا رہا۔ تھوڑی سی سدھ آئی، سیدھا ہوا، میزبان سے ہاتھ ملایا اور موٹر سائیکل پر بیٹھ کر چل دیے۔ چند قدم کے بعد پروگریسو پیپرز کی عمارت کی اوٹ میں جونہی سٹور والے کی نظروں سے اوجھل ہوئے تو میں نے موٹر سائیکل روکی اور دوست کو کہا تھا کہ وہ موٹر سائیکل چلائے، مجھے لگتا ہے کہ میں مر رہا ہوں۔

اس نے کہا تھا، ”ہاں تمہاری شکل عجیب سی ہو گئی تھی، میں نے اسی لیے ڈر کر سوئی نکال لی تھی“ ۔ میں نے اسے کہا تھا، ”گھر مت جاؤ، نہر کے کنارے موٹر سائیکل چلاتے رہو۔ طبیعت سنبھلے گی تو گھر چلے جائیں گے“ ۔ وہ بہت دیر تک نہر کے کنارے موٹر سائیکل چلاتا رہا تھا۔ صبح ہو گئی تھی۔ طبیعت بحال ہو چکی تھی۔ ہم گھر آ گئے تھے۔

گھر میں بیوی جھاڑ جھنکار، غصے سے لال پیلی بیدار ہو کر بیٹھی تھی۔ ہمارے داخل ہوتے ہی مجھ سے الجھ بیٹھی تھی کہ تم گھر آئے، تم نے صحن میں رکھی چاٹی سے نکال کر پانی پیا اور باہر کا دروازہ کھول کر چلے گئے۔ یاد رہے کہ ہم کمرے کا دروازہ کھول کر تالا لگا کر نکلے تھے اور وہی تالہ کھول کر گھر میں داخل ہوئے تھے۔ بیوی نے کہا تھا، ”میں تمہیں آوازیں دیتی رہی مگر تم نے جواب نہیں دیا۔ میں دروازے سے باہر تمہارے پیچھے گئی مگر تم پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئے تھے۔

ہمارے ایک کمرے میں میرے قصبے کا ایک دوست کبیر خان سویا ہوا تھا۔ وہ بھی جاگ چکا تھا۔ اس نے بتایا کہ بھابی کی آپ کو پکارنے کی آوازیں سن کر ہی میں جاگا تھا۔ انہوں نے مجھے یہی بتایا تھا جو وہ آپ کو بتا رہی ہیں۔

میرے ذہن میں ایک جھماکا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا تھا اندازہ ”وقت کیا تھا اس نے مثال کے طور پر کہا تھا،“ تین بج کر دس منٹ شاید ”۔ میں نے کہا تھا،“ تم بالکل ٹھیک کہتی ہو۔ ایک مظہر ہے جسے Embodification کہتے ہیں، یعنی کسی شخص کا ایک ہی وقت میں دو جگہ موجود ہونا، مطلب یہ کہ کسی دوسری جگہ اس کی تجسیم ہو جانا ”۔ اتفاق سے میں نے بھی اس موت کی سی کیفیت میں چائے پیتے ہوئے گھڑی میں وقت دیکھا تھا جو تقریباً وہی تھا جو اس نے بتایا تھا۔

موت کے خوف سے میری پوری توجہ بیوی کی جانب مرکوز ہو گئی تھی۔ میرا چائے پینا، گھڑے سے پانی پینا بن گیا تھا اور گھر سے نکلنا کچھ ٹھیک ہو کر میڈیکل سٹور سے نکلنا بن گیا تھا۔ باہر کا دروازہ کس نے کھولا تھا، میرے ہمزاد نے؟ آپ یقین نہیں کرنا چاہتے نہ کریں لیکن میری سابقہ اہلیہ اگرچہ جھگڑالو تھی مگر تھی سچی اور اسے جھوٹ بولنے کی ضرورت بھی بھلا کیا تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments