عمران خان صاحب اور طالبان سے مذاکرات کا اچھوتا خیال


تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد محترم عمران خان صاحب کو وزیر اعظم کا قلمدان چھوڑنا پڑا۔ جیسا کہ اس صورت حال میں توقع کی جا سکتی تھی، عمران خان صاحب نے مختلف تقاریر میں مختلف موضوعات پر اپنے موقف کا دفاع کیا اور تقاریر کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ عمران خان صاحب نے بحیثیت وزیر اعظم قوم سے جو آخری خطاب کیا اس میں انہوں نے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ دیگر امور کے علاوہ انہوں نے اس بات کا ذکر بھی کیا کہ میرا پروفائل مغربی طاقتوں کے پاس موجود ہیں اور وہ اس میں یہ لکھا دیکھتے ہیں کہ یہ وہ شخص ہے جس نے پہلے یہ کہا تھا کہ افغانستان کے مسئلہ کا کوئی عسکری حل نہیں، ان سے مذاکرات کرنے پڑیں گے۔ اور آخر میں یہی کرنا پڑا۔ اور کچھ عرصہ سے عمران خان صاحب اسی بات کا بار بار تذکرہ کر رہے ہیں میں تو ہمیشہ سے یہی کہ رہا تھا کہ دنیا کو طالبان سے مذاکرات کرنے پڑیں گے اور آخر میں دنیا کو یہی راستہ اپنانا پڑا۔

ان دعووں سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ نظریہ سب سے پہلے عمران خان صاحب نے پیش کیا تھا کہ دنیا کو طالبان سے مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیے، اور بہت نقصان اٹھانے کے بعد آخر میں امریکہ کو بھی طالبان سے مذاکرات کرنے پڑے۔ افغان طالبان آج بھی افغانستان پر قابض ہیں، تحریک طالبان پاکستان آج بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہے۔ اسی طرح دیگر دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیاں آج بھی جاری ہیں۔ اس لئے یہ مسئلہ ماضی کا قصہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو آج تک موجود ہے۔ اس پس منظر میں یہ ضروری ہے کہ عمران خان صاحب کے دعووں کا تجزیہ کیا جائے۔

طالبان یا دوسری دہشت گرد تنظیموں سے مذاکرات کا خیال کوئی ایسا منفرد خیال نہیں تھا جو سب سے پہلے عمران خان صاحب کے ذہن میں آیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ہو یا افغانستان کی سابق حکومت ہو یا پاکستان کی حکومت ہو، ہر ایک نے افغان طالبان، تحریک طالبان پاکستان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے مذاکرات کیے تھے یا ان مذاکرات کو شروع کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن ان مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلا؟ آخر کار پاکستان کے سابق قبائلی علاقے میں ضرب عضب آپریشن کر کے، وہاں پر پاکستان کی حکومت کی عملداری دوبارہ قائم کی گئی۔ کیا اس فوجی آپریشن سے قبل مذاکرات کی کوشش نہیں کی گئی تھی؟

جب 2003 میں جنرل مشرف صاحب پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تو وہ چاہتے تھے کہ جنوبی وزیرستان میں آپریشن کیا جائے۔ اس قاتلانہ حملہ کا منصوبہ القاعدہ کے ایک اہم رکن نے بنایا تھا۔ چنانچہ 2004 میں پشاور کے کورکمانڈر جنرل صفدر حسین صاحب نے طالبان کے کمانڈر نیک محمد صاحب سے معاہدہ کیا کہ ان کو اس شرط پر معافی دی جائے گی کہ وہ افغانستان کے علاقہ پر حملہ نہیں کریں گے اور اپنے علاقہ سے غیر ملکیوں کو نکال دیں گے۔ جلد ظاہر ہو گیا کہ نیک محمد اس معاہدہ کو پورا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ چنانچہ انہیں ایک ڈرون حملہ میں نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔

اس کے فوری بعد 2005 میں جنرل صفدر حسین صاحب نے تحریک طالبان پاکستان کے بیت اللہ محسود اور محسود قبیلہ سے معاہدہ کیا اور پانچ لاکھ ڈالر کا نذرانہ ان کی خدمت میں پیش کیا تا کہ ایفائے عہد میں سہولت رہے۔ لیکن بیت اللہ محسود نے بھی اس معاہدے کو توڑ کر اپنی معمول کی کارروائیاں جاری رکھیں۔ اس کے بعد 2006 میں شمالی وزیرستان کے قبائل سے، 2007 میں جنوبی وزیرستان کے قبائل سے اور 2008 میں آفریدی لشکر اسلام سے معاہدے کیے گئے۔ ان میں سے کسی ایک معاہدے پر پوری طرح عمل نہیں کروایا جا سکا۔ اور ان معاہدوں کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ہوشربا اضافہ ہو تا چلا گیا، یہاں تک کہ آپریشن ضرب عضب کا کامیاب آغاز کیا گیا۔

( Sleepwalking to Surrender by Khalid Ahmed p 48& 117)

حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان کی حکومت بلکہ مغربی حکومتوں کے کئی اہم عہدیدار بھی اس بات کی قائل تھے کہ طالبان سے مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے اور 2009 تک امریکی انتظامیہ میں بھی یہ ادراک پیدا ہو چکا تھا کہ صرف فوج کشی کے ذریعہ افغانستان کا مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔ صدر اوبامہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ رچرڈ ہالبروک طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرتے تھے لیکن ڈیوڈ پٹریاس جیسے جنرل اس بات کے قائل تھے کہ طالبان سے صرف اسی وقت مذاکرات کرنے چاہئیں جب ایک بار ان کا زور مکمل طور پر توڑ دیا جائے۔

مذاکرات تو ایک طرف رہے ان سالوں میں جب نیٹو ممالک کی فوج کو سپلائی پہنچانے والے ٹرک کابل اور قندھار کے درمیان سفر کرتے تو ان ٹرکوں کو لے جانے کے لئے نیٹو ممالک کی طرف سے طالبان کو بھتہ بھی دیا جاتا تھا اور طالبان ان مغربی ممالک سے یہ بھتہ وصول کر لیتے اگرچہ اس کے ساتھ وہ یہ اعلان بھی کر رہے تھے کہ وہ ان افواج کو افغانستان سے نکالنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگا رہے ہیں۔

جب 2011 میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات بہت خراب ہوئے تو ایک مرحلہ پر وزیر اعظم محترم یوسف رضا گیلانی، چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا نے کابل کا دورہ کیا اور افغان صدر کارزائی کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ امریکہ کو ایک طرف کر کے طالبان سے مذاکرات شروع کریں لیکن یہ کوشش اس لئے کامیاب نہیں ہوئی کیونکہ صدر کارزائی کی خواہش تھی کہ وہ کسی کی مداخلت کے بغیر یہ مذاکرات کریں اور دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ پاکستانی حکومت کا اصرار تھا کہ یہ مذاکرات پاکستانی اداروں کی وساطت سے ہوں۔ اور اسی سال کے دوران کافی لیت و لعل کے بعد ایک مرحلہ پر بھارت نے بھی افغان طالبان سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی تھی۔

لیکن جب بھی دو مخالف گروہ مذاکرات کرتے ہیں تو یہ ضروری نہیں ہوتا کہ یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ گو افغان جرگہ نے بھی طالبان سے مذاکرات کے حق میں رائے دی تھی لیکن ان کوششوں کو اس وقت دھچکا پہنچا جب طالبان کے ایک خود کش حملہ آور  نے سابق صدر برہان الدین ربانی کو قتل کر دیا۔ برہان الدین ربانی اس کمیٹی کے سربراہ تھے جس کمیٹی کے سپرد یہ کام تھا کہ وہ طالبان سے مذاکرات شروع کرے۔ نسلی اعتبار سے ربانی تاجک تھے، اس لئے فوری طور پر پشتون طالبان کے خلاف جذبات بھڑک اٹھے۔

بہر حال آخر طالبان سے مذاکرات شروع ہوئے لیکن جیسا کہ عمران خان صاحب یہ اعلان کرتے ہیں کیا یہ مذاکرات کامیاب رہے؟ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو وہ اپنے فوجیوں کو بحفاظت افغانستان سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا لیکن مذاکرات کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ طالبان دوسرے گروہوں کے ساتھ شریک اقتدار ہوں گے لیکن انجام تو یہ ہوا کہ طالبان نے بڑی آسانی سے کابل پر قبضہ کر لیا اور انہوں نے کسی اور گروہ کو اقتدار میں شریک نہیں کیا۔

ان مذاکرات کا ایک اور بنیادی نقطہ یہ تھا کہ خواتین کی تعلیم اور ان کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت دی جائے۔ کیا آج افغانستان میں لڑکیوں کو سکول کام کر رہے ہیں؟ کیا افغان خواتین کے حقوق محفوظ ہیں؟ یقینی طور پر اس کا جواب نفی میں ہے۔ ان مذاکرات کا ایک اور مقصد یہ تھا کہ آزادی رائے اور دوسرے بنیادی حقوق محفوظ کیے جائیں۔ کیا آج افغانستان میں یہ حقوق محفوظ ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو ان مذاکرات سے امریکہ نے تو فائدہ اٹھا لیا لیکن افغانستان کے عوام کو کیا حاصل ہوا؟ طالبان نے مذاکرات کی آڑ میں اپنے آپ کو مضبوط کیا اور انجام ہمارے سامنے ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرنے کا اچھوتا خیال صرف محترم عمران خان صاحب کے ذہن میں آیا تھا اور جہاں تک افغانستان کے عوام کے حقوق کا تعلق ہے تو مذاکرات سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments