وہ لڑکی کہتی تھی کہ میں بیٹی نہیں بیٹا ہوں


نوے کی دہائی میں پورے کراچی میں شاید وہ واحد لڑکی تھی جو موٹر بائیک اڑائے پھرتی تھی۔ وہ مردانہ شلوار قمیض پہنتی مگر گھنے بالوں کی لمبی چٹیا کمر پر جھولتی تھی۔ معلوم نہیں اس کا رنگ، دھوپ اور دھول نے جھلسایا تھا یا حالات کی بھٹی میں تپ کر تانبا ہوا تھا۔ وہ بات چیت میں مونث کا صیغہ استعمال کرتی تھی مگر رویے میں بالکل مردوں کی طرح تھی سخت گیر، حاکمانہ اور سنگدل۔ مرد بھی اس سے دبتے تھے۔ کسی اوچھے کی مجال نہیں تھی اس کے منہ لگے ورنہ منہ توڑ کر ہتھیلی پر رکھ دیتی۔

لیکن میں جانتی تھی کہ ناریل کی مانند، بیرونی سخت خول کے اندر نرم ملائم شیریں گودا بھرا ہوا تھا۔ میں جانتی تھی کیونکہ میں اس کی دوست تھی۔ میں جو اس کے پیچھے بائیک پر اڑی اڑی پھرتی تھی۔ کٹھور، سخت کلام، مرد مار عورت میری دوست کیسے بنی، لوگ کیا خود میں بھی کبھی حیران ہوجاتی۔ ندرت سے پہلی ملاقات بلڈ بنک میں ہوئی تھی۔ میں رفیقی شہید روڈ پر واقع اس اسپتال کے بلڈ بنک میں ملازم تھی اور وہ آپریٹر تھی۔ ایکسچینج بلڈ بنک کے برابر والی عمارت میں تھا۔ میں نے اکثر اسے بائیک پر آتے جاتے دیکھا تھا۔ وہ قدرے بھاری جسم کی مالک تھی۔ تن کر بائیک پر بیٹھی ہوتی اور زن سے گزر جاتی۔ بلڈ بنک میں آ کر اس نے کڑاکے دار آواز میں اعلان کیا تھا کہ وہ خون کا عطیہ کرنے آئی ہے۔ میں نے ایک کاؤچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”لڑکیاں عموماً خون دینے سے گھبراتی ہیں“

”ہاں تو ؛ مچھروں کو پلانے سے تو بہتر ہے کہ کسی مریض کے کام آ جائے۔ ویسے میں تمہیں لڑکی دکھتی ہوں۔ مرد ہوں مرد۔“ اس نے بازو کی مچھلی دکھانے کی کوشش کی جو چربی کی تہہ میں کہیں مفقود تھی۔ ضروری معلومات اور معائنے کے بعد میں نے انتقال خون کے لئے بوتل لگادی اور اسے منہ پھیرنے کو کہا کیونکہ اپنے خون سے بھل بھل بوتل بھرتے دیکھ کر لڑکیاں تو کیا لڑکوں کو بھی چکراتے دیکھا تھا۔ لیکن وہ منہ پھاڑ کر ایسے ہنسی گویا میں نے کوئی لطیفہ کہہ دیا ہو۔

”ارے یہ بوتل میں بند خون مجھے کیا ڈرائے گا میں نے تو گولیوں سے چھلنی جسم سے خون کے فوارے ابلتے دیکھے ہیں۔ کراچی نے بڑی خونریزی دیکھی ہے تم تو دوسرے شہر سے آئی ہو تمہیں کیا پتہ۔

”تمہیں کیسے پتہ میں دوسرے شہر سے آئی ہوں۔“

”میں جاسوس ہوں جاسوس۔ مجھے تو یہ بھی پتہ ہے کہ تم ہاسٹل کے کس کمرے میں رہتی ہو۔“ وہ میری معصومیت سے محظوظ ہوتے ہوئی بولی۔

خون کی مقدار پوری ہونے پر میں نے سوئی نکالی اور ایک جوس اسے دیا جسے اس نے غٹاغٹ چڑھایا اور اتر کر چپل پہنتے ہوئے بولی۔ ”سن ؛ کہیں جانا ہو تو بتا دینا، لے جاؤں گی۔ بائیک پر بیٹھنے میں کوئی مسئلہ تو نہیں نا۔“

میرا اس سے لفٹ لینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن ہوا یوں کہ اپنی عزیز سہیلی کی سالگرہ کے لئے کیک کا آرڈر دیا تھا۔ اچانک کہیں سے بادل امڈ کر آئے، گرجے اور برسنے بھی لگے، اور ایسے برسے کہ کیک لینے جانا ممکن ہوتا دکھائی نہ دیا۔ درخت کے نیچے کھڑی کسی سواری کی تلاش میں نگاہیں دوڑا رہی تھی کہ وہ اپنی بائیک پر آتی دکھائی دی۔

”ہاسٹل چھوڑ دوں؟“
اس نے قریب آ کر بائیک روکی۔
”مجھے کیک لینے جانا تھا۔ شمی کی سالگرہ کے لئے آرڈر کیا تھا۔ پر کوئی سواری نہیں مل رہی۔“
”کیا بہت ضروری ہے؟“
”شاید“ ۔
”چل پھر بیٹھ، چلتے ہیں۔“
اور پہلی بار اس کی بائیک پر بارش میں بھیگتے ہوئے کیک لانا ہی ہماری دوستی کی ابتدا تھی۔

دسمبر کی بارش میں بھیگنے کا اعجاز تھا کہ اگلے ہی روز بخار نے آ لیا۔ میں نے اسے فون کیا۔ دو گولی لا دو۔ ذرا کی ذرا میں خدائی فوجدار کی مانند دو گولی کے ساتھ مکھن لگے دو سلائس اور پلاسٹک کی ٹرانسپیرنٹ تھیلی میں کیفے شہباز کی کڑک دار چائے لئے وہ دروازے پر کھڑی تھی۔

”ارے تم تو بڑی نازک نکلیں۔ ذرا سی بارش برداشت نہیں کرسکیں۔“
”اب تمہاری طرح مرد مار تو نہیں ہوں“

اس نے منہ پھاڑ کر فلک شگاف قہقہہ لگایا اور بولی۔ ”تمہاری زبان پر بخار کا اثر نہیں ہوا۔ جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ کراچی کے مضافات میں ایک گوٹھ چلنا ہے“

”کیوں مجھے کیوں لے جانا ہے“
”تمہیں ان کی بولی آتی ہے نا۔ غریب لوگ ہیں ان کے لئے کچھ لے جانا ہے“

جانے اسے ان کی ضرورتوں کا کیسے علم ہوا۔ شہر کے پہلو میں شہری سہولتوں سے نابلد اس چھوٹے سے گاؤں کے لئے وہ اجنبی نہیں لگتی تھی جیسے وہ آتی جاتی رہی ہو۔

اس کے بعد تو یہ معمول ہو گیا کہ مجھے کہیں جانا ہوتا تو اسے فون کرتی اور وہ کہتی تیار ہو جا، دو منٹ میں آتی ہوں۔ اب بھلا دو منٹ میں لڑکیاں کبھی تیار ہو سکتی ہیں لیکن وہ عین دو منٹ میں سر پر آن کھڑی ہوتی۔ رفتہ رفتہ قربت بڑھی تو اس کے گھر بھی جانا ہوا۔ وہ ہاسپٹل کے پچھواڑے، ملازمین کے کوارٹرز میں ہی رہتی تھی۔ گھر پر اس کی والدہ، ایک چھوٹی بہن اور دو چھوٹے بھائی تھے۔ ایک دن ڈیوٹی آف کر کے سیدھی میری طرف آئی۔

”چل آج دوپہر کا کھانا ہمارے دولت خانے پر تناول فرما۔ چھوٹی نے نہاری بنائی ہے۔“
”اپنے گھر کے لئے دولت خانہ نہیں غریب خانہ کہتے ہیں۔“ میں نے کہا

”ہمارے گھر میں اماں کے پیار کی دولت کا اتنا انبار ہے کہ ہمارا گھر غریب خانہ نہیں ہو سکتا۔“ اس نے لاجواب کر دیا۔

کالونی پہنچے تو ایک بچے کو کھیلتے دیکھ کر ڈانٹ لگائی ”گرمی اور لو میں باہر کیا کر رہا ہے۔ چل گھر میں جا“ اور وہ بچہ مڑ کر سرپٹ بھاگا۔ گھر میں داخل ہوئے تو اماں بستر پر لیٹی تھیں۔ چھوٹی ان کا بلڈ پریشر چیک کر رہی تھی۔ وہ پریشان ہو کر آگے بڑھی ”کیا ہو گیا اماں کو؟“

”کچھ نہیں بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے۔ آج صبح دوا کھانا بھول گئی تھیں۔“

ندرت پائنتی پر بیٹھ گئی اور ان کے پاؤں پکڑ لئے۔ ”خدا کی واسطے اماں مرنے کا سامان نہ کرو۔ تمہیں کچھ ہو گیا تو ریت کی دیوار کی طرح ڈھے جاؤں گی، اور یہ جو ذمہ داریوں کا بوجھ میرے سر پر ہے، اٹھا نہ پاؤں گی۔ اس لئے مرنے کا پروگرام اس وقت تک ملتوی رکھو جب تک یہ سارے بکھیڑے نہ نبیڑ لئے جائیں۔“

اماں نے ہنستے ہوئے کہا ”ابھی گولی کھا لوں گی ٹھیک ہو جائے گا۔ تم مہمان کو کھانا کھلاؤ۔“
”ارے یہ مہمان تھوڑی ہے“ وہ پھر منہ پھاڑ کر ہنسی

میرے دل میں بار بار خیال آ رہا تھا اس کی اماں سے پوچھوں کہ اس کے مردانہ بہروپ کے پیچھے کیا قصہ ہے۔ اس سے تو ایک بار پوچھا تھا تو بس یہ کہہ کر چپ ہو گئی تھی کہ بھیڑیوں کے جنگل میں عافیت کے لئے بھیڑیے کی کھال اوڑھنی پڑتی ہے۔ پر میں اس سے متفق نہیں تھی۔ لڑکی رہ کر بھی دنیا کے کام کیے جا سکتے ہیں۔ وجہ کچھ اور تھی۔ اور اس رمز کو میں جاننا چاہتی تھی۔ اور پھر اس کا موقع مل گیا۔ ندرت کے کزن کی شادی تھی اماں کی طبیعت بوجھل ہو رہی تھی اس لئے جانے کا ارادہ منسوخ کر دیا۔

چھوٹی نے تو منہ پھلا لیا۔ اتنے دن سے تیاری کر رہی تھی عین وقت پر کہہ دیا، نہ جاؤ۔ چھوٹی کا دل میلا ہو، یہ ندرت سے کہاں برداشت ہوتا، پر اماں کو گھر پر اکیلا چھوڑنا بھی منظور نہ تھا۔ طے یہ پایا کہ ندرت بہن بھائیوں کو لے کر شادی میں شرکت کرے اور جب تک وہ لوٹے میں اماں کے ساتھ رہوں۔ جانے سے پہلے اس نے ہم دونوں کا کھانا لگایا۔ اماں کو دوا کھلائی۔ چھوٹی تیار ہو رہی تھی ویسے ہی جیسے لڑکیاں تیار ہوتی ہیں۔

ریشمی ملبوس، ہلکا پھلکا زیور اور لپ اسٹک، کاجل، مسکارا۔ اور ندرت وہی جیبوں والا شلوار قمیض اور صابن سے دھلا چہرہ۔ میں نے زبردستی لپ اسٹک لگادی تو آئینے میں دیکھ کر خوب ہنسی کہنے لگی۔ ”لگتا ہے چڑیل کسی کا کلیجہ چبا کر آئی ہے۔“ ٹشو پیپر سے خونی رنگ پونچھ کر پھینک دیا۔ اور جلدی سے صحن میں جاتے ہوئے بولی میں ٹیکسی لینے جا رہی ہوں۔

انہیں رخصت کر کے، دروازے کی کنڈی چڑھائی۔ باورچی خانے میں جاکر دو کپ چائے بنائی اور اماں کے کمرے میں آ گئی۔ چائے پیتے ہوئے اماں سے وہ سوال کر ہی دیا جو بہت دنوں سے میرے دماغ میں کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔ اس سوال نے جوں اماں کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا۔ وہ ماضی کے اوراق پلٹتی رہیں۔ کبھی ان کا لہجہ دھیما ہوجاتا، کبھی آنسوؤں میں رندھ جاتا اور کبھی اس میں فخر جھلکنے لگتا۔

ندرت چار بچوں میں دوسرے نمبر پر تھی۔ پہلوٹھی کا ارشد تھا۔ ندرت سے چھوٹی بشرہ جس کی پیٹھ پر لگاتار دو بیٹے پیدا ہوئے تھے علی اور اظفر۔ ندرت کے والد شہر کے بڑے اسپتال میں ملازم تھے اور کالونی کے کوارٹر میں رہائش تھی۔ ندرت کو ڈاکٹر بننے کا شوق تھا۔ ہسپتال میں رہائش کی وجہ سے صبح و شام سفید کوٹ پہنے مسیحاؤں کو دیکھ کر اس کے دل میں یہ تمنا زور پکڑتی جاتی تھی۔ ابا نے اس کی خواہش کو سراہا تھا۔ انہیں امید تھی وہ ضرور اپنا خواب پورا کرسکے گی۔

پڑھنے کا اسے جنون کی حد تک شوق تھا۔ اسے ایک اور شوق بھی تھا، بائیک چلانے کا۔ اس نے ابا سے بائیک چلانا سیکھنے کی فرمائش کی۔ اور ابا راضی بھی ہو گئے۔ اسپتال کے کھلے میدان میں وہ موٹر سائیکل چلانا سیکھنے لگی۔ اماں نے تو سر پکڑ لیا۔ ”ارے یہ کیا سرپھرا شوق ہے لونڈوں کی طرح موٹر سائیکل چلانے کا۔ اور آپ نے بھی ذرا نہ سوچا۔“

”بھاگوان ؛ دنیا بھر میں لڑکیاں موٹر سائیکل چلاتی ہیں۔ پڑوس کے ملک میں ہی دیکھ لو۔“
”ارے، ہمارے ہاں تو کوئی نہیں چلاتا۔ دنیا باتیں بنائے گی۔“

”مجھے دنیا کی نہیں اپنی بیٹی کی خوشی عزیز ہے۔“ انہوں نے کہا اور یوں ندرت نے بائیک چلانا سیکھ لی پر اماں نے اسپتال سے باہر اس مہم جوئی کی ہرگز اجازت نہ دی۔

بارہویں کے امتحان میں کچھ ہی مہینے رہ گئے تھے۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر، ندرت ہر وقت کتابوں میں سر دیے رہتی۔ منزل کا پہلا سنگ میل عبور ہونے کو تھا۔ جب سے ارشد بھائی اپنی فیملی کو لے کر جہانگیر روڈ پر شفٹ ہوئے تھے گھر میں پڑھنے کا ماحول بڑا سازگار ہو گیا تھا۔ ورنہ بچوں کے اودھم میں کتابوں پر توجہ مرتکز کرنا خاصہ مشکل ہوجاتا تھا۔ ابا نے بادام لاکر رکھ دیے تھے۔ ہر رات گیارہ دانے بھگوتے اور ڈیوٹی پر جانے سے پہلے اسے نہار منہ کھلا کر جاتے۔

کچھ دنوں سے ان کے سینے میں درد رہنے لگا تھا جسے بد ہضمی کا درد سمجھ کر چورن اور گیس کے شربت سے علاج کر رہے تھے۔ ڈاکٹروں کے جھرمٹ میں ہوتے ہوئے بھی کسی ڈاکٹر کو نہ دکھایا۔ دن کے گیارہ بجے تھے۔ ساتھیوں کے ساتھ چائے پی رہے تھے کہ اچانک ایسے جھکے جیسے جوتے کا تسمہ کس رہے ہوں۔ اور کرسی سے لڑھک گئے۔ ساتھی سنبھالنے کو بڑھے ”۔ اقبال صاحب خیریت تو ہے۔“ ۔ لیکن جواب ندارد۔ اسٹریچر پر ڈال کر ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ میں لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نے نبض دیکھی اور دونوں ہاتھوں سے ان کا سینہ دبانا شروع کر دیا۔ دوسرے ڈاکٹر نے آکسیجن کا ماسک منہ پر چڑھا دیا۔ پھر بجلی کے جھٹکے دیے گئے مگر اقبال صاحب نے نہ سانس لی نہ دل کی دھڑکن لوٹی۔ ڈاکٹر نے موت کی تصدیق کردی۔

قیامت تو سب پر ہی ٹوٹی تھی لیکن ندرت تو گویا زندہ درگور ہو گئی تھی۔ گھر لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ارشد بھائی بھی بھابی اور بچوں کے ساتھ آئے تھے۔ سب ہی پسماندگان کو تسلی دے رہے تھے، صبر کی تلقین کر رہے تھے مگر نہ تسلی ہوتی تھی نہ صبر آتا تھا۔ سوئم کے بعد تعزیت کرنے والوں کا تانتا ٹوٹ گیا۔ ارشد بھائی بھی لوٹ گئے۔ اب وہ صرف جمعرات کی جمعرات فاتحہ پر ہی آتے۔ چہلم کے بعد تو جیسے محلے رشتے دار اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے ویسے ہی ارشد بھائی بھی نہ پلٹے۔ ان کی دیکھ بھال کون کرے گا، گھر کیسے چلے گا۔ یوں لگتا تھا ارشد بھائی کا اس سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ انتظامیہ کی جانب سے اقبال صاحب کی جگہ نوکری کی پیشکش کی گئی تھی۔ دوسری صورت میں سرکاری کوارٹر خالی کرنا تھا۔ مگر علی اور اظفر تو بہت چھوٹے تھے

ندرت کے امتحان سر پر آ گئے تھے۔ مگر وہ پڑھ نہیں پا رہی تھی۔ گھنٹوں صفحے پلٹ پلٹ کر پڑھنے کی کوشش کرتی، لیکن یوں لگتا کسی اجنبی زبان میں کھینچی گئی لکیریں ہیں۔ جن کے معنی سمجھنے سے وہ قاصر ہے۔ اس نے اماں سے کہا وہ ارشد بھائی سے بات کریں۔ ابا کے بعد وہی ان کے سرپرست ہیں۔

ارشد بھائی آئے ہوئے تھے اور اماں سے چپکے چپکے بات کر رہے تھے۔ پھر وہ اٹھے اور تیزی سے صدر دروازہ کھول کر چلے گئے۔ ندرت چائے لئے کھڑی رہ گئی۔ وہ کمرے میں داخل ہوئی تو اماں پلو سے آنکھیں مل رہی تھیں۔

”کیا کہا ارشد بھائی نے؟“
”وہ مجبور ہے۔ اس کی اتنی استعداد نہیں کہ ہمارا بوجھ اٹھا سکے۔ گھر کے لئے قرض لیا تھا وہ چکانا ہے۔“

”ابا کو ابھی نہیں مرنا چاہیے تھا۔ جب اتنی جانیں ساتھ لگی ہوں تو اپنی جان کی حفاظت کرنی چاہیے کیونکہ پھر وہ صرف اپنی جان نہیں ہوتی ان سب کی امانت ہوتی ہے۔“ ندرت الل ٹپ بولے جا رہی تھی۔

رکھے سنبھالے پیسے ختم ہو گئے تھے۔ گھر خالی کرنے کا فائنل نوٹس بھی آ گیا تھا۔ اماں نے زیور کا ڈبہ اسے لاکر دیا تاکہ رقم سے کرائے کے گھر کا بندوبست کیا جا سکے۔ اماں کی شادی کی انگوٹھی دیکھ کو ندرت تڑپ اٹھی۔

”اماں یہ ابا کی نشانی ہے“

”پگلی ابا کی نشانی تو تم سب ہو۔ چھت چھن گئی تو کہاں جائیں گے۔ علی اور اظفر بہت چھوٹے ہیں کاش بیٹے تم دونوں سے بڑے ہوتے۔“ ۔ اماں اب بھی بیٹوں کو ہی نجات دہندہ سمجھ رہی تھیں۔

ندرت نے کچھ نہ کہا پر اس کے اندر ایک جوالا مکھی دہک رہا تھا۔ وہ کمرے میں جاکر بند ہو گئی۔ نہ دوپہر کے کھانے پر آئی نہ رات کو نکلی۔ دروازہ بجا بجا کر تھک گئے مگر اس نے نہ کھولا۔ کمرے میں جلے پیر کی بلی کی طرح چکر کھائے جا رہی تھی۔ اگلی صبح اماں ناشتہ بنا رہی تھیں کہ اس نے دھڑ سے دروازہ کھولا۔ اس کے بازو کتابوں سے لدے ہوئے تھے، جنہیں اس نے صحن کے بیچوں بیچ ڈھیر کر دیا۔ ساری کتابیں کاپیاں لا لاکر ایک مینار کھڑا کر دیا۔

ایک کتاب اندر نہ رہی۔ نہ میز پر نہ الماری میں۔ بجلی کی تیزی سے مٹی کے تیل کی بوتل اٹھائی اور اس سے پہلے کہ اماں اسے روک پاتیں وہ کتابوں پر چھڑک کر آگ لگا چکی تھی۔ بھڑ بھڑ چٹختی کتابوں کی جلدیں نہ تھیں اس کے ٹوٹے ہوئے دل کی صدائیں تھیں۔ کتابوں میں لکھے حروف نہیں جل رہے تھے اس کے ڈاکٹر بننے کا نوشتہ جل رہا تھا۔ سفید کوٹ کی آرزو پر جلتے صفحوں کی سیاہی جم رہی تھی۔ آخر میں بس کچھ ادھ جلے کاغذ اور راکھ ہی بچی تھی اس کے خوابوں کی طرح۔

اماں بے بسی سے بس اتنا ہی کہہ سکیں ”یہ تونے کیا کیا۔“

اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور کمرہ پھر بند کر لیا۔ دوبارہ نکلی تو اس نے ابا کا شلوار قمیض پہنا ہوا تھا۔ صحن کے کونے میں کھڑی ابا کی بائیک کو جھاڑ پونچھ کر اسٹارٹ کیا اور چھوٹی کو آواز دے کر دروازہ کھولنے کو کہا۔

”کہاں جا رہی ہے“ اماں کی آواز میں شکستگی تھی
ابا کی جگہ نوکری سائن کرنے جا رہی ہوں۔ آج سے تمہاری بیٹی نہیں بیٹا ہوں۔ ”
بس اس دن سے اس نے اپنے آپ کو مٹا دیا۔ بہت سمجھاتی ہوں مگر سرپھری سنتی نہیں ہے۔

میں پتھر کے بت کی مانند ساکت تھی جیسے کسی نے منتر پھونک کر سنگی کر دیا ہو۔ تب ہی دروازہ بجا اور ندرت کی کڑک دار آواز آئی۔

ارے بھئی انجم جاگتی ہو ”
اور میرے جامد جسم میں جان لوٹ آئی۔
ہاں ندرت تم نے مجھے واقعی جگا دیا۔ میں نے کہتے ہوئے دروازے کے پٹ کھول دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments