لڑکے کا کرائے کا مکان ہو تو استخارہ نہیں آتا


ہمارے ایک دوست کو اپنے بیٹے کے لیے ایک لڑکی کی تلاش تھی انہوں نے ہم سے کہا، لڑکا خوب صورت اور فوج میں اچھے عہدے پر تھا۔ ہم نے اپنی صفیہ خالہ سے ان کی بھا نجی ندا کے لیے بات کی۔ لڑکی والوں کی طرف سے سوال کیا گیا مکان اپنا ہے۔ ہم نے بتا یا کرائے کا ہے۔ بس لڑکے والوں سے ملے بغیر ہی انہوں نے ہمیں کہہ دیا کہ ہم ان سے کہہ دیں کہ استخارہ نہیں آیا۔

نغمی آپا ہماری عزیز ہیں اپنے خاندان میں سب سے زیادہ پڑھی لکھی ہیں۔ امیر بیوہ ہیں اپنے بہن بھائیوں کے اخراجات بھی اکثر پورے کرتی ہیں اس لیے ان سے مشورے کے بغیر خاندان بھر کوئی قدم نہیں اٹھاتا۔ ان کی بھتیجی انابیہ ایک لڑکے کو پسند کرتی تھی۔ لڑکا بینک میں جاب کرتا تھا ستر ہزار روپے سیلری تھی۔ پوش علاقے میں رہتے تھے۔ سب اس رشتے سے خوش تھے، لیکن ایک روز باتوں میں انکشاف ہوا کہ مکان کرائے کا ہے۔ نغمی آپا نے سب قائل کر دیا کہ ساری آمدنی تو کرائے کے مکان میں چلی جائے گی۔ لڑکا لڑکی کو کیسے خوش رکھ پائے گا۔ کہلوا دیا گیا استخارہ نہیں آیا۔ کچھ عرصے بعد کورنگی ڈھائی نمبر سے یعقوب کا رشتہ آیا اس کا اپنا مکان اور اپنی کریانے کی دکان تھی۔ صرف ماں کا دم تھا۔ نغمی آپا کے خیال میں یہ بہت اچھا رشتہ تھا، انابیہ اپنے گھر اور دکان کے مالک یعقوب سے بیاہ دی گئی۔ یعقوب رات کے بارہ بجے دکان بند کرتا ہے اور صبح دس بجے دکان کھولتا ہے۔ انابیہ اپنے گھر میں کم اور میکے میں زیادہ پائی جاتی ہے۔

بلقیس پھپو بھی کرائے کے مکینوں کے رشتے مسترد کر دیا کرتی تھیں۔ بالاآخر ایک جگہ اپنی بیٹی جازمہ کی شادی کی تو سب کو خوشی خوشی بتایا کہ نارتھ ناظم آباد میں چار سو گز کا یہ بڑا مکان ہے۔ بلقیس پھپو نے تو استخارہ کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ دوسال بعد جازمہ کا صبر جواب دے گیا اس نے ماں کو بتا یا کہ جٹھانی اور ساس تو کام کاج کو ہاتھ نہیں لگا تیں، آئے روز مہمانداری ہوتی ہے۔ گود میں چھوٹا بچہ ہے اب اس سے یہ سب نہیں سہا جا تا۔ بلقیس پھپو نے داماد کو مجبور کیا کہ وہ جازمہ کو الگ کرائے کے گھر میں لے کر رہے گا تب ہی وہ اسے بھیجیں گی۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگ لڑکی کی شادی میں اپنے گھر کواہمیت اور گھر والے کو نظر انداز کیوں کر دیتے ہیں۔ لڑکے کا اپنا گھر دیکھ کر رشتہ طے کرنے والے یہ کیوں بھول جا تے ہیں کہ اس مکان کے اور بھی حصے دار ہیں اور آپ کی بیٹی کے تصرف میں اس گھر کا ایک ہی حصہ ہے جسے باورچی خانہ کہتے ہیں۔

اور افتخار عارف کے اس شعر کو بھی لوگوں نے معتبر بننے کے لیے گھر کی آرازو میں مبتلا کر دیا ہے۔ لیکن افتخار عارف کی مکان سے گھر بنانے کی خوا ہش کسی نئے گھر کی نہیں بلکہ ایک ایسے ساتھی کی ہے جو، ان کے مکان کو گھر کر دے۔ گھر میں بچوں کی کھلکھلاتی ہنسی، اس کے در و دیوار میں جان ڈال دیتی ہے۔ دروازے کھڑکیاں آپس میں سرگوشی کرتے ہیں۔ گھر ایک چمن کی مانند ہوتا ہے جو کرائے کا ہو یا اپنا پھولوں کی مہک اسے ترو تازہ رکھتی ہے۔ ننھی کونپلوں کی آبیاری کی جائے تو ہی وہ چٹکتی ہیں۔ گلشن میں پرندوں کی چہکار اس کے مالک کا نام نہیں پوچھتی۔

کوئل کی مدھر آواز بلا تخصیص چمن کے ہر کونے میں جاتی ہے۔ خوشی سکون اور بچوں کا مسقبل سب سے اہم ہے۔ کرائے کا مکان نہ کو ئی گالی ہے نہ مصیبت بلکہ اس میں بہت سی راحتیں پنہاں ہیں۔ مثلاً آپ مکان ایسی جگہ لے سکتے ہیں جہاں بچوں کا بہتر اسکول، اور آپ کا آفس نزدیک ہو۔ اگر کبھی ارد گرد کا ماحول آپ کو مستقل بے سکون کر رہا ہو تو آپ جب چاہیں مکان بدل سکتے ہیں۔ نئے ماحول، نئے پڑوسی اور نئے گھر کی تبدیلی مزاج پر اچھا اثر چھوڑتی ہے۔ ہاں کبھی کبھی میرؔ کی طرح گلی سے اٹھتے وقت دل بھی نکلتا محسوس ہو تا ہے۔ لیکن کب کس کی بارات دل ہی لے بیٹھے۔ گلی سے دل لگی تادیرنہیں رہ سکتی۔

ہم بھی کرائے کے فلیٹ میں رہتے ہیں۔ اور اکثر لوگوں کے چہرے پر یہ جان کر ہم ایک احساسِ ترحم دیکھتے ہیں۔ لیکن سچ پوچھیے تو ہمیں اکثر اپنے گھر کے مکینوں کی حالتِ زار پر رحم آتا ہے۔ گھر کے باہر گٹر لائن مستقل ابلی رہتی ہے۔ لیکن اپنے گھر کی آسودگی میں انہیں شاید اس کی بد بو محسوس نہیں ہوتی۔ برابر میں عجیب سے پڑوسی آکر بس گئے ہیں۔ لیکن اپنا مکان اونے پونے بیچ دیا تو اس قیمت میں کہیں اور کہاں ملے گا۔ سو خوف کی فضا میں رہنے پر مجبور ہیں۔

ہمارے ہاں لوئر مڈل یا مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے گھرکی خواہش میں اپنا دم دیے دیتی ہیں۔ ہ اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی اور زیورات اپنے گھرکی تعمیر میں لگا دیتی ہیں شہر سے دور افتادہ علاقے میں سستا پلاٹ دیکھ زمین خرید لی۔ اب کچا پکا مکان بن گیا تو کرائے سے جان چھڑا کر اس میں آباد ہو گئے۔ میاں کا آفس بچوں کا اسکول میلوں دور، پانی اور گیس کا مسئلہ بھی اب کو فت کا سبب بن رہا ہے۔ مکان کی تعمیر میں اندازے سے زیادہ روپیہ خرچ ہونے کے سبب قرضہ الگ سر پر سوار ہے۔ بچے پھل مٹھائی اور کھلونوں کو دور سے دیکھتے ہیں۔ اب لوگ بھی قرض کی واپسی کا تقاضا کرنے لگے ہیں۔ نتیجے کے طور پر مرد کو اوور ٹائم کرنا پڑ رہا ہے۔
کیا آگ ہے مکیں میں گھر جس سے پُھنک رہا ہے
دیوار چھو کے دیکھو دیوار جل رہی ہے

کسمپرسی کی زندگی بسر کرتے وقت سے پہلے بڑھاپا آگیا بچوں کی شرارتیں اور ان کے بچپن کی معصوم خواہشات ماں کے خواب پر قربان ہو گئیں۔ خواب کی تکمیل میں جوانی اور روپ ڈھ گئے۔ لیکن مکان بن گیا۔ اب علاقے میں خاصے گھر آباد ہونے کی وجہ سے علاقے میں رونق ہے لیکن ” اپنے‘‘ گھر کی ویرانی نہیں جاتی۔ بچوں کی پڑھائی، یکسوئی نہ ہو نے اور تنگ دستی کی وجہ سے ایسی متاثر ہوئی کہ جیسے تیسے میٹرک ک ہی کر پائے۔
یہ گھر نہیں کسی دشت کا بگولہ ہے
بسا نہیں ہے تو کیا ہے، بسا اگر ہے تو کیا

بچوں کی کی خوشیوں کے مول اپنے گھر کی خواہش فضول بات ہے، اپنی توانائی، صلاحیت اور پیسہ بچوں کی پرورش اور تعلیم تربیت پر خرچ کیجیے۔ انہیں اپنی آمدنی کے حساب سے سالانہ چھٹیوں پر ملک کے اندر یا باہر خوب گھمائیے پھرائیے۔ یہ تفریح ان کے ذہن کو جلا بخشے گی۔ ان کا مسقبل تابنا ک ہو گا تو خوش حالی اور ترقی آپ کو طمانیت اور سکون کے ایسے مسکن میں آباد کر دے گی، جہاں خوشیوں کا راج ہو گا اورکو ئی آپ کو بے دخلی کا نوٹس نہیں دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).