قوم لوط اور معصوم بچے


خدا خدا کر کے گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوئیں۔ عید کے بعد ہمیں اسلام آباد جانا تھا۔ عید کا دن بھی کیا دن تھا۔ پھول نے شلوار، قمیض پہنی کھسہ پہنا۔ دادو کے پاس جاؤ۔ وہ میرے کپڑے کھنچنے لگا۔ ناں وہاں جعفر ہو گا کاٹ لے گا۔ جانا نہ نہ آ آ آ وہ ضد کر رہا تھا۔ ابھی سے پچکار رہی تھی کہ عاشی آگئی۔ یہ پانچ سال کی بچی خوبصورت فراک اور گلابی پونی میں پری لگ رہی تھی میری نند کو ابھی دوسرا ماہ لگا تھا۔ کہ شوہر پہاڑوں کی سیر کو گیا پاؤں پھسلا اور نیچے گہری کھائی میں جا گرا۔ عائشہ اب پانچ سال کی تھی۔ ایک گال پر مما نے بلش آن لگا یا ہے دوسری پر کیوں نہیں عاشی؟ میں نے سوال کیا۔

آنٹی بلش آن تو لگایا ہی نہیں۔ تو پھر یہ لمبی چوڑی لائینیں کس چیز کی ہیں۔ یہ تو جعفر بھائی نے پاری کی ہے کہتا تھا آج عید ہے۔
میراد ل مٹھی میں آگیا۔ چھوٹی یتیم بچی بیوہ ماں نند کو سمجھایا کہ جعفر سے پوچھو وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی یہ گھر مجھ سے چھوٹ جائے گا۔ تو بچوں کو سنبھالو، خیال رکھو یہ کیا بے غیرتی ہے؟ دن دھاڑے ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ اور کوئی بولنے ولا نہیں۔ جانے دوناں وہ منت بھر اندازمیں بولی میں کھول کر رہ گئی۔

اگلے دن دوپہر ایک بجے کا وقت تھا۔ میں کچن سے فارغ ہو کر لیٹی ہی تھی کہ چھت سے آوازیں آنے لگیں۔ جیسے کوئی دوسری دیوار سے کودا ہو پھر آوازیں ذرا زیادہ تیز ہو گئیں۔ میں نے دیکھاپھول دوسرے کمرے میں سو رہا تھا۔ میں مطمئن ہو گئی۔ ہنی جھولے میں تھا۔ مگر آوازیں مسلسل آرہی تھیں۔ تجسس نے مجبور کیا دبے پاؤں سیڑھیوں کا درواز کھولا آہستہ آہستہ دیوار کے ساتھ لگ کر اوپر پہنچی۔ ۔ چھت پر جو د یکھا۔ رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ہاشم جو عاشی سے بڑا تھا۔ ہمسائے کے نوسالہ بچے کو دبوچے ہوئے تھا۔ دونوں کی شلواریں اتری ہوئی تھیں۔ میں نے جھاڑو اُٹھایا اور دونوں کی خوب دھلائی کی دل میں کہیں پھول والا وہ غصہ موجود تھا۔ جو جعفر پر نہ نکال سکی تھی۔ مارتے مارتے دونوں کو نیچے لائی۔ میاں کو بتایا تو وہ بھی گرم ہو گئے۔ دونوں کو پیٹا اور گیٹ سے باہر نکال دیا۔ خدایا جعفر نے پوری ٹیم تیار کر لی تھی۔ کیا کیا جائے اسی اثنا میں گیٹ کو توڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔ صحن میں بھاگی گیٹ کھولا تو نند چیل کی طرح جھپٹی۔ شرم نہیں آتی۔ یتیموں کو مارتے ہوئے اب ہاتھ نہ لگانا ورنہ ڈیلے نکال لوں گی۔ اور یتیم جو کرتے ہیں اس کا کچھ حساب نہیں۔ مجھے ایک بڑی بوڑھی کی بات یا د آ گئی۔ کہ یتیم پر سب رحم کرتے ہیں۔ مگر یتیم کسی پر رحم نہیں کرتا، سچ کہا تھا۔ خدا خدا کر کے اسلام آباد جانے کا دن قریب آگئے۔

گھر پہنچی تو لگا جنت میں آگئی ہوں۔ اب کسی کا ڈر نہ کھٹکا۔ جہاں چاہے پھول کھیلے اور جہاں چاہے ہنی کو لٹا دوں۔

کبھی کبھی جب پھول کو نہلاتی جسم پر صابن لگاتی ناف کے نیچے اس کے نازک اعضاء کو نرمی سے چھوتی تو وہ ہائے کرتا۔ دل کانپ جاتا غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتا۔ ایک عرصہ رات کی تنہایوں میں اس کی درد بھری چیخیں میرے کانوں میں گونجتی رہیں۔ بہت سے ڈاکٹروں کو دکھایا۔ وہ طاقت کی دوائی کا نسخہ ہاتھ میں پکڑا دیتے۔ یونہی زندگی کے بہت سے ماہ وسال گزرگئے۔ میں سسرال جاتی تو چوکیدار کی طرح پہرے پر رہتی ہر دم بچوں کو نظر کے سامنے رکھتی۔ بچوں کو سمجھا بجھا کر لے جاتی۔ دیکھو اس سے بات نہیں کرنی۔ اس کو نہیں بلانا اگر کوئی یہاں ٹچ کرے تو مما کو بتانا ہے۔ زور سے پکڑے تو بھا گ جانا باڈی کو کسی کے ساتھ جوڑ کر نہیں بیٹھنا۔ کوئی گلی میں میٹھی چیز یا شربت دے تو نہیں پینا۔ کوئی کزن پیسے دے کر ساتھ لے جائے تو نہیں جانا ہے۔ پھول پانچویں اور اور ہنی چوتھی میں تھا۔ وہ زچ ہو جاتے اچھا مما نہیں جائیں گے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں میاں پر بھوت سوار ہو گیا۔ گھر چلیں گے دو ہفتے ادھر ہی گزاریں گے۔ ایک ہفتہ گزارا تھا۔ تو میاں نے کہا کہ آبائی گاؤں چلیں گھر کا پورا قافلہ ساتھ چل پڑا دو دن گزرے تیسرے دن بچوں کو لے کر زمیں پر نکلے تھکاوٹ سے برا حال ہو گیا تھا۔ پھول، ہنی، ککو، گل چاروں بھاگے۔
رُکو یہاں مت کچھ کرنا ابھی دس منٹ گھر پہنچ جائیں گے۔ میں اُن کو روکتی پیچھے بھاگی۔
کھیت کے بیچ وہ کھڑے تھے۔

چاروں میں کوئی معاہدہ طے پا گیا تھا۔ میرے پہنچتے پہنچتے معاہدے کو عملی جامہ پہنا نے کے لیے وہ تیار کھڑے تھے۔ چاروں نے اپنے جسموں کو اٹھایاہوا تھا۔
ہاتھ لگائے بغیر۔ پکڑنا نہیں ککو جو اسی گاؤں سے تھا ریفری کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔
ایک۔ دو۔ تین۔

اورپھر پیشاب کی دھاریں دور تک جانے کی آوازیں آئیں۔ مگر صرف تین دھاریں تھیں۔
چوتھی دھار پھول کے کپڑوں پر ٹانگوں پر اورپاؤ ں پر گر رہی تھی۔ زور لگا لگا کر اس کا منہ سرخ ہو گیا۔ کھیل کے قواعد میں ہاتھ کی اجازت نہ تھی۔ پھول کے چہرے پر بے بسی اور مردنی تھی۔ میرا بچہ اس کھیل سے یکسر نکل گیا تھا۔
کیا ہوا؟

مما کبھی بھی دھار دور نہیں جاتی ہے۔ کبھی بھی نہیں۔ میں ہار گیا ہوں میں لوزر ہوں۔
میں زمیں پر ڈھ گئی۔ جعفر دور کہیں کھڑا بفلیں بجا رہا تھا۔
پھول زندگی کی دوڑ سے نکل گیا تھا۔ شادی، گانا، سہرا اور بارات کے بھوت میرے ارد گرد ناچ رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2