سوشل میڈیا، تعفن اور تفنن


\"barkat-kakar\"سوشل میڈیا کے ریاکارانہ پردے پر خبریں، معلومات، تصاویر، اقوال وغیرہ نظر سے گزرتے رہتے ہیں۔ فیس بک کے صفحات پیاز کی پرتوں کی مانند یکے بعد دیگرے کھلتے ہیں۔ ہم پراسراریت کے اس سراب میں خبروں کا تعاقب کرتے ہیں۔ غیر محسوس انداز میں ایک ٹائم لائین سے اگلے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ گھنٹے گذر جاتے ہیں۔ مجازی حقیقتوں اور لفاظی پر مبنی رفاقتوں کے پیچھے دور نکل جاتے ہیں۔ جذبات کی سیل رواں ہوتی ہے جس میں عقل اور دلیل کی ناؤ ہچکولے کھاتی، ڈوبتے سنبھلتے کہیں دور نکل جاتی ہے۔ آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ روایت ضعف یاداشت اور بصارت کی کمزوری جن امور سے منسوب کرتی ہے (یعنی کتبے پڑھنے اور فحش تصاویر دیکھنے) اس کا بھی بھرپور انتظام یہاں موجود ہوتا ہے۔ غرض کوئی بھی بڑا چھوٹا خوشگوار و ناخوشگوار واقع سوشل میڈیا پر عود آتا ہے۔ دیکھنے والا پہلو تہی کریں تو کہاں تک۔ ایک بھلے شخص نے چالیس سال پہلے کہا تھا کہ میڈیا اور ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرنے کا کام ہمارے ہاتھ سے جلد نکل جائے گا۔ ایسا وقت آنے والا ہے جب میڈیا ہمیں کنٹرول کرے گا۔ ہم ٹی وی کو نہیں بلکہ ٹی ہمیں دیکھ رہا ہو گا (حوالہ: ڈیرک ڈیکرچوف: دی سکن آف کلچر)۔

جیسے بریکنگ نیوز کے ساتھ بجنے والے میوزک نے ہماری حیرانگی کی جبلت کو مسخر کیا ہے۔ اور ہم بریکنگ نیوز سننے کے لئے کسی بھی لازمی کام کو التوا میں ڈال دیتے ہیں اسی طرح اب سوشل میڈیا پر براجمان زیادہ تر افراد بھی نیوز بریک کرنے کے لئے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ سنی ان سنی، جھوٹی سچی بات اتنے پختہ یقین کے ساتھ شئیر کرتے ہیں کہ فوراً یقین کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے۔ اسی لئے اب یہ تمیز ہی ختم ہوئی جا رہی ہے کہ دنیا کے ساتھ کیا شئیر کیا جا رہا ہے۔ شادی بیاہ، تجہیز و تکفین، سربریدہ لاشیں۔ خون میں لت پت انسان، آہ و بکا کرتی اور سسکتی ہوئی مخلوق وغیرہ ہی اب بریکنگ نیوز بن کر رہ گئے ہیں۔

حالیہ عید الاضحیٰ جسے حرف عام میں بکرا عید بھی کہا جاتا ہے۔ میں بھی کافی ہل چل دیکھنے کو ملی۔ عید سے ہفتہ بھر پہلے زرخرید قربانی کے جانوروں کی خوب ریل پھیل لگی رہی۔ سیلفیاں کھینچی جا رہی ہوتی ہیں، قیمتیں بتلائی جارہی ہوتی ہیں۔ جانوروں کے شجرہ نسب پر روشنی ڈالی جا رہی ہوتی ہے۔ عید کے دن جو تصاویر اور ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں وہ قربانی کے خون پرور مناظر سے لبریز ہوتی ہیں۔ فیس بک کی مجازی دنیا جتنی خون پرور دکھتی ہے اتنا ہی تعفن آس پڑوس سے بھی آ رہا ہوتا ہے۔ گلیوں میں قربان شدہ جانوروں کے بریدہ دست و پا، سر، انتڑیاں، فضلہ اور ڈھیر سارا تعفن ہمارے ایثاری جذبات کا داد دے رہا ہوتا ہے۔ اے سی گاڑیوں میں سفر کرنے والے اس تعفن سے یقیناً بچ جاتے ہیں لیکن جو لوگ سائیکل، موٹرسائیکل، رکشے یا پیدل مارچ کر رہا ہو وہ تو تعفن سے سانس بھی نہ لے سکیں۔

اس سال قربانی کے جانور نسبتاً کم قیمت میں ہاتھ لگے۔ اوپر سے قوم جنگ کے لپکتے ہوئے شعلے بھی دیکھ رہی ہے۔ خون گرم رکھنے کے لئے اور خون بہانے کے لئے یہ اور بھی اچھا وسیلہ ملا۔ البتہ اس سال کھالوں کی قیمت کافی حد تک گر گئی ہے۔ وجہ افغان مہاجروں کی انخلا ہے یا پاک بھارت تناؤ۔ لیکن کوئٹہ اور مضافات میں قربانی کی کھالیں عید کے دو ہفتے گذرنے کے باوجود بھی نہیں بیچی جاسکی ہیں۔ ظاہر ہے کھالیں خراب ہونے والے آٗئٹمز (پیرش ایبل) تو ہیں نہیں۔ جب مارکیٹ میں قیمتیں چڑھیں گی تب دیکھا جائے گا۔ رہ گئی بات تعفن اور بد بو کی وہ تو اب وہاں بھی رہتا ہے جہاں قربانی کی کھالیں مساجد میں سٹاک نہ کی گئی ہوں۔ کیا ہمارے شہروں میں تعفن نہیں؟ ہمارے گاؤں گندگی کے ڈھیر ثابت نہیں ہو رہے؟ اور تو اور کیا فیس بک کی برقیاتی اور ورچول دنیا میں خیر خیریت ہے۔ وہاں سے آپ کو اور ہمیں شفتالو کے عطر کی بو آرہی ہے۔

یہ سارے وہ سوالات ہیں جن سے پریشان ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ ویسے لاکھوں کی تعداد میں جانور کھا جانے کے بعد قومیں اور قومیتیں اونگھتی ہیں۔ گرد و پیش کے حالات بدلنے کے لئے دھرنوں کا پہلے استعمال ہو چکا ہے۔ سوچنے اور عرق ریزی کے جانفشاں کام اونگھنے والوں کے بس میں نہیں۔ ہمارے دوست جمعہ خان کہتے ہیں کہ جس طرح اپنی ٹانگوں کے استعمال سے اجتناب کرتےہوئے بیچارے سانپ کو اپنے پاوں اور ہاتھوں سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ اسی طرح ہمارے سوچنے کی استعداد بھی ارتقا کے قانون کے مطابق ناکارہ ہو چکی ہے۔ لیکن ’گھوڑا سوار‘ بیڑی کے آٹھ دس کش کھینچنے کے بعد، جدلیاتی مادیت کے ہمارے یہ پرانے دوست اپنا پینترا بدل دیتا ہے۔ یا شاید طنزیہ کہنا شروع کر دیتا ہے کہ! بھلا سوچنا بھی کوئی کام ہے؟ سوچنے کا سب سے نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ بندہ بزدل بن جاتا ہے، حساس بن جاتا ہے، جسمانی اور دماغی کمذوری رونما ہو جاتی ہے، آنکھوں سے گرد سیاہ حلقے بننا شروع ہوجاتے ہیں، بندہ ہر مسئلے پر بحث کی بدعت میں جتا رہتا ہے، تذبذب کا شکار رہتا ہے۔ اور تو اور اندرونی اور بیرونی تعفن کے احساس سے مرعوب ہونے لگتا ہے، کڑھتا رہتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ تعفن میں لپٹی ہوئی سستی کی اپنی جمالیات ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ بے ساختہ تفنن کا جو مزہ جڑا ہوا ہے اس سے خصوصاً وہ کفار ہمیشہ محروم رہتے ہیں اور رہیں گے جو ہر وقت صفائی اور ہائجین کی رٹ لگائے رہتے ہیں۔ بریکنگ نیوز کی لت پڑنے میں کیا حرج ہے؟ اس کے رسیا بننے میں کیا قباحت ہے؟ ہم چائے بھی تو پیتے ہیں۔ اخبار بھی تو ایسا ہی نشہ ہے۔

وہ تعفن اور تفنن کے تلازمے پر جب دلائل دینے پر آتے ہیں ہمیں بھی یقین ہونے لگتا ہے کہ تعفن یقینا ایک بیرونی عنصر ہے اور مسجدوں میں کھال سٹاک کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے بلکہ نمازیوں کو ایڈجسٹ کرنا سیکھ لینا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments