ان بچیوں کو بولنے دیں


 ’ہم سب‘ مجھے ایک ایسی پناہ گاہ لگتا ہے، جہاں انسان اپنے دکھ درد، زندگی کے اکثر راز، خوشیاں، تلخیاں، اور خوب صورت یادیں سب اس میں ڈال دیتا ہے۔ اور اس کے مدیران بھی عجیب مٹی کے بنے ہو ئے ہیں۔ لوگوں کے خود پر لعن طعن کے اظہار پر بھی کو ئی پابندی نہیں لگاتے۔ جو دل کے نہاں خانے میں چھپا ہے یہاں رکھ دو۔ لوگ اپنے دل کے پھپولے پھوڑ کر پر سکون ہو جاتے ہیں۔ اظہار پر پابندی سب سے بڑا ظلم ہے۔ اور یہاں دنیا کی سب سے بڑی آزادی میسر ہے، اسے پڑھنا، اس میں لکھنا میرے لیے ایک ایسا احساس ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

پچھلے دنوں ہماری بچیوں کو اکشے کمار کی فلم پیڈ مین نے اس موضوع پر کھل کے بات کرنے کی ہمت دی۔ مجھے لگتا ہے اس کا آغاز بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ یہ خواتین کے مسائل ہیں اور اور بہت خطرناک اور گھمبیر ہیں۔ بچیوں کی صلاحیت اور اعتماد کو ان مسائل نے بری طرح متاثر کیا ہے۔ کالج، اسکول، ملازمت، انٹر ویو کے دوران لاکھ بچیاں احتیاطی تدا بیر اختیار کریں۔ لیکن کبھی کبھی کسی مسئلے میں الجھی لڑکی اپنے ماہانہ نظام کی ممکنہ تاریخ بھول جاتی ہے یا کبھی اس کا آغاز توقع سے بہت جلد ہو جا تا ہے۔ اب اگر بچی انٹرویو کے انتظار میں ہے تو اچانک بے چین ہو جا تی ہے۔ اسی وقت اسے انٹرویو کے لیے پکارا جا ئے تو الٹے سیدھے جوابات دے کر کمرے سے باہر نکل آتی ہے۔ اس کی ساری ذہانت اور اعتماد کہیں غائب ہے۔ انٹرویو میں ناکامی کے بعد وہ لاکھ خود کو کوسے کہ اس وقت یہ بھی کیا جا سکتا تھا، وہ بھی کیا جا سکتا تھا، لیکن ایک بلاوجہ کے خوف یا شرم و حیا کے احساس نے اس سے ایک اچھی نوکری کو چانس گنوا دیا۔

ہم نے اپنے دور میں اس قدرتی پروسیس کو جھیلنے کے کیا کیا عذاب سہے ہیں، ہمیں معلوم ہے۔ آج بچیاں اس موضوع پر بظاہر بے باکی سے لکھ رہی ہیں، لیکن اندر سے وہ کتنا کٹ مر رہی ہوں گی میں سمجھ سکتی ہوں۔ اس پر بات کرنا کسی مرد کے لیے بھی آسان نہیں چہ جائکہ ایک لڑکی۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ سب باتیں کہنے کی نہیں ہوتیں۔ لیکن کاش یہ سیکس کی طرح کی کو ئی عام بات ہو تی، جس پر بات کرنے نہ کرنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ ایک فطری خواہش اور عمل ہے اور اس میں انسان کی مرضی اور خواہش کو دخل ہو تا ہے۔ مگر خواتین کا ماہانہ نظام ایک ایسا ان چاہا عذاب ہے جسے صرف خواتین ہی جانتی ہیں۔

نوے فی صد بچیوں کو اس کے آغاز میں اتنا شدید درد ہو تا ہے کہ بیان سے باہر ہے، میں اس کی مثال آپ کو گردوں کے درد سے دے سکتی ہوں۔ بعض بچیوں کو متلی کی شکائت اور الٹیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ بچیوں کو اگر مناسب غذا اور جوس نہ ملے تو ان کا چہرہ زرد پڑ جا تا ہے۔ وہ برسوں کی بیمار لگتی ہیں۔ وہ اپنے گھر والوں کی اسی طرح خدمت کرتی ہیں۔ ماں اگر کہے بھی کہ بچی کی طبیعت خراب ہے تو باپ اس کی کلائی پکڑ کر کہتا ہے اچھی بھلی تو ہے۔ لیکن ماں بھی شرم کی وجہ سے اپنے شوہر سے اصل بات نہیں کہتی۔ غیر معمولی تکلیف میں بچی مبتلا بھی ہو تو تو اسے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جا یا جا تا۔ اور آٹھ دس گھنٹے بعد بچی کسی حد تک نارمل ہو نا شروع ہوتی ہے۔ لیکن آفرین ہے ہماری بچیوں پر کہ وہ ماں بننے سے پہلے ہی ہر ماہ قدرت کی جانب سے ماں بننے کے عمل کے لیے تیاری چپ چاپ شروع کر دیتی ہیں۔

چودہ پندرہ سال کی دھان پان سی بچی پر درد کا یہ عذاب الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اب ذرا تصور کریں ایک بچی امتحان حال میں اچانک اس مصیبت میں گرفتار ہو جا ئے۔ ہمارے اسکول کالجز میں ابتدا ئی طبی امداد کی تمام میڈیسنز ہو تی ہیں، لیکن اس کی ان کے پاس کوئی ٹیبلیٹ نہیں ہو تی۔ اور پھر  ہماری بچیاں مر جائیں گی لیکن اپنی یہ تکلیف کبھی کسی مرد ٹیچر سے بیان نہیں کریں گی۔ اگر آج اس موضوع پر چند با وقار، قابلِ احترام بچیوں نے قلم اٹھایا ہے تو انہیں بولنے دیں۔ اپنی بہنوں، بیٹیوں سے اس بارے میں بات کریں تاکہ ان کی جھجک ختم ہو، اس کی بناء پر ذہنی، جسمانی کرب اور اذیت کا شکار نہ ہوں۔ اپنی بچیوں پر رحم کریں۔ انہیں چہکنے دیں، انہیں بولنے دیں۔ یہ بچیاں آج اس موضوع پر قلمی جہاد کر رہی ہیں۔ ہم نے جھیلا ہے یہ آزار ہمی جانتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).