میں کھانا گرم کروں گی نہ ہی بستر


جس طرح ہمارے آس پاس کوئی نا کوئی ایسا بے چارہ ضرور ہوتا ہے کہ اس کی قسمت اتنی ماڑی ہوتی ہے کہ سیدھے اور آسان کام کا بھی ہمیشہ ستیاناس کر دیتا ہے ٹھیک اسی طرح ہمارے ہاں کچھ ایسے تعلیم یافتہ نمونے ویمن ڈے پر عورت مارچ کے نام پر اس دن کی اہمیت کا بیڑا غرق کر دیتے ہیں۔ چلو کوئی ان پڑھ یا بد تہذیب ایسا کرے تو سمجھ آتی ہے مگر جب اچھے خاصے پڑھے لکھے، عزت یافتہ ایسا کریں تو پھر سوال تو اٹھیں گے ہی، تنقید تو ہو گی ہی۔

کیا ہم واقعی میں اس خاص دن کو کامیابی اور مفید طریقہ سے منا پاتے ہیں؟ کیا ہم واقعی ان تمام ایشوز کو اچھے سے ایڈریس کرتے ہوئے میڈیا میں ہائی لائٹ کر پاتے ہیں جو واقعی میں اس ملک کی خواتین کے ہیں؟ ان خواتین کے مسائل جو روزانہ رکشوں اور بسوں پر دھکے کھاتیں روزگار کے لئے جاتیں ہیں، جن کو اپنی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا، جائیداد میں حصہ نہیں ملتا، اسپتالوں میں بچہ جننے کو جگہ نہیں ملتی اور ایسے کئی قابلِ ذکر اہم مسائل۔ ۔ مگر نہیں جناب یہاں تو لگتا کہ اس ملک کی خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ ”جنسی آزادی“ ہے یا میرا جسم، میری مرضی ہے۔

کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ عورت مارچ میں جو بیانیہ پلے کارڈ کی صورت میں پوری دنیا کو دکھایا جاتا وہ ٹھیک ہے؟ وہ جینوئن ہے؟ کیا واقعی میں میرے اور آپ کے گھر میں موجود ماں و بہن یا بیوی کا بھی یہی المیہ ہے؟ یہی رونا ہے؟ ایک طرف تو ہم جنسی ہراسانی پر بات کرتے اور بالکل ٹھیک کرتے کہ یہ سنگین مسئلہ واقعی موجود ہے۔ مگر دوسری سے یہ ٹرینڈ لایا جانا کہ میری مرضی سے کرو تو پھر ٹھیک، وہ ہراسانی نہیں ہو گی۔ کیا یہ ذہنی بدلاؤ صحت مندانہ ہے؟

کتنا اچھا ہو کہ اس طرح کے اہم دنوں میں جن کو میڈیا بھی اچھی طرح ہائی لائٹ کرتا ہے وہاں خواتین کی عزتِ نفس اور صلاحیتوں کے حساب سے اصل ایشوز کو اجاگر کیا جائے۔ پلے کارڈز میں حقیقی بیانیہ لکھا جائے۔ پبلک سٹنٹ کے لئے سستے قسم کی چسکا آمیز جملہ بازی لکھنے سے دور رہا جائے۔ جن کو ”عام آدمی“ اپنی فیملی کی خواتین میں نہ بتا سکے نہ سمجھا سکے۔

یہ سب ہمارے اصل مسائل نہیں ہیں تبھی ایسی فضول قسم کی محدود سوچ رکھ کر ایسے مارچ منانے سے سوائے تنقید کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جتنی بری طرح سوشل میڈیا پر اس مارچ کو خواتین کی جانب ہی سے رگیدا جاتا ہے بندہ اسی فیڈ بیک کو سمجھ کر اپنا قبلہ درست کر لے۔ مگر نہیں یہاں تو بس ”کٙاں چِٹا ہی ہے“۔ آپ مذہب کو ایک سائیڈ پر رکھ کر بھی ایک باشعور انسان بن کر، غیر جانب دار ہو کر دیکھیں تو بھی اس ملک کی خواتین کا اصل مسئلہ ”اپنی مرضی سے کھانا و بستر گرم کرنے“ کرنے کا نہیں ہے۔ کم از کم میری ماں، بہن، بیوی یا بیٹی کا تو نہیں ہے۔ جن کا ہے، اللہ ان کو ہدایت و آسانیاں عطا فرماے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).