توبہ شکن ۔ بانو قدسیہ کا شاہکار افسانہ


اس وقت دائی کرمو کی بیٹی گرم دوپہر میں اس کے سامنے کھڑی تھی اور سارے میں سیب کا مربہ پھیلا ہوا تھا۔

پانچ روپے کا نوٹ نقدی والے ٹرے میں سے اٹھا کر سراج نے چپچی نظروں سے خورشید کی طرف دیکھا اور کھنکھار کر بولا ”ایک ہی سانس میں اتنا کچھ کہہ گئی۔ آہستہ آہستہ کہو نا۔ کیا کیا خریدنا ہے؟ “ ایک بوتل مٹی کا تیل دو سات سو سات صابن تین پان سادہ، چار میٹھے۔ ایک نلکی بٹر فلائی والی سفید رنگ کی۔ ایک بوتل سیون اپ کی، جلدی کر، گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں۔

سب سے پہلے تو سراج نے کھٹاک سے سبز بوتل کا ڈھکنا کھولا اور بوتل کو خورشید کی جانب بڑھا کر بولا۔

”یہ تو ہو گئی بول اور“

”بوتل کیوں کھولی تو نے اب بی بی جی ناراض ہو ں گی۔ “

”میں سمجھا کہ کھول کر دینی ہے“

”میں نے کوئی کہا تھا تجھے کھولنے کے لئے“

”اچھا اچھا بابا۔ میری غلطی تھی۔ یہ بوتل تو پی لے۔ میں ڈھکنے والی اور دے دیتا ہوں تجھے“

جس وقت خورشید بوتل پی رہی تھی، اس وقت بی بی کا چھوٹا بھائی اظہر ادھر سے گزرا۔ اسے سٹرا سے بوتل پیتے دیکھ کر وہ مین بازار جانے کی بجائے الٹا چودھری کالونی کی طرف لوٹ گیا اور این ٹائپ کے کوارٹر میں پہنچ کر برآمدے ہی سے بولا۔

”بی بی! آپ یہاں بوتل کا انتظار کر رہی ہیں اور وہ لاڈلی وہاں کھوکھے پر خود بوتل پی رہی ہے سٹرا لگا کر۔ “

بھائی تو اخبار والے کے فرائض سر انجام دے کر سائیکل پر چلا گیا لیکن جب دو روپے تیرہ آنے کی ریزگاری مٹھی میں دبائے، دوسرے ہاتھ میں مٹی کے تیل کی بوتل اور بکل میں سات سو سات صابن کے ساتھ سیون اپ کی بوتل لئے خورشید آئی تو سنتو جمعدارنی کے حصے کا غصہ بھی خورشید پر ہی اترا۔

”اتنی دیر لگ جاتی ہے تجھے کھوکھے پر۔ “

”بڑی بھیڑ تھی جی“

”سراج کے کھوکھے پراس وقت؟ “

”بہت لوگوں کے مہمان آئے ہوئے ہیں جی سمن آباد میں ویسے ہی مہمان بہت آتے ہیں سب نوکر بوتلیں لے جا رہے تھے۔ “

”جھوٹ نہ بول کمبخت! میں سب جانتی ہوں۔ “

خورشید کا رنگ فق ہو گیا۔

”کیا جانتی ہیں جی آپ“

”ابھی کھوکھے پر کھڑی تو بوتل نہیں پی رہی تھی۔ “

خورشید کی جان میں جان آئی۔ پھر وہ بپھر کر بولی۔

”وہ میرے پیسوں کی تھی جی آپ حساب کر دیں جی میرا۔ مجھ سے ایسی نوکری نہیں ہوتی“

بی بی تو حیران رہ گئی۔ سنتو کا جانا گویا خورشید کے جانے کی تمہید تھی۔ لمحوں میں بات یوں بڑھی کہ مہمان بی بی سمیت سب برآمدے میں جمع ہو گئے اور کترن بھر لڑکی نے وہ زبان دراز کی کہ جن مہمان بی بی پر بوتل پلا کر رعب گانٹھنا تھا وہ الٹا اس گھر کو دیکھ کر قائل ہو گئیں کہ بد نظمی، بے ترتیبی اور بد تمیزی میں یہ گھر حرف آخر ہے۔

آناً فاناً مکان نوکرانی کے بغیر سونا سونا ہو گیا۔ ادھر جمعدارنی اور خورشید کا رنج تو تھا ہی، اوپر سے پپو کی کھانسی دم نہ لینے دیتی تھی۔

جب تک خورشید کا دم تھا کم از کم اسے اٹھانے پچکارنے والا تو کوئی موجود تھا۔ اب کفگیر تو چھوڑ چھاڑ کے بچے کو اٹھانا پڑتا۔ اسے بھی کالی کھانسی کا دورہ پڑتا تو رنگت بینگن کی سی ہو جاتی۔ آنکھیں سرخا سرخ نکل آتیں اور سانس یوں چلتا جیسے کٹی ہوئی پانی کی ٹیوب سے پانی رس رس کے نکلتا ہے۔

سارا دن وہ یہی سوچتی رہی کہ آخر اس نے کونسا گناہ کیا ہے جس کی پاداش میں اس کی زندگی اتنی کٹھن ہے۔ اس کے ساتھ کالج میں پڑھنے والیاں تو ایسی تھیں گویا ریشم پر چلنے سے پاؤں میں چھالے پڑ جائیں اور یہاں وہ کپڑے دھونے والے تھاپے کی طرح کرخت ہو چکی تھی۔ رات کو پلنگ پر لیٹتی تو جسم سے انگارے جھڑنے لگتے۔ بدبخت خورشید کے دل میں ترس آ جاتا تو دوچار منٹ دکھتی کمر میں مکیاں مار دیتی ورنہ اوئی آئی کرتے نیند آ جاتی اور صبح پھر وہی سفید پوش غریبوں کی سی زندگی اور تندور میں لگی ہوئی روٹیوں کی سی سینک!

اس روز دن میں کئی مرتبہ بی بی نے دل میں کہا۔

”ہم سے اچھا گھرانہ نہیں ملے گا تو دیکھیں گے۔ ابھی کل برآمدے میں آئی بیٹھی ہوں گی۔ دونوں کالے منہ والیاں“ پر اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس سے اچھا گھر ملے نہ ملے وہ دونوں اب ٹوک کر نہ رہیں گی۔ سارے گھرمیں نظر دوڑاتی تو چھت کے جالوں سے لے کر رکی ہوئی نالی تک اور ٹوٹی ہوئی سیڑھیوں سے لے کر اندر ٹپ ٹپ برسنے والے نلکے تک عجیب کس مپرسی کا عالم تھا، ہر جگہ ایک آنچ کی کسر تھی۔ تین کمروں کا مکان جس کے دروازوں کے آگے ڈھیلی ڈوروں میں دھاری دار پردے پڑے تھے، عجیب سی زندگی کا سراغ دیتا تھا۔ نہ تو یہ دولت تھی اور نہ ہی یہ غریبی تھی۔ ردی کے اخبار کی طرح اس کا تشخص ختم ہو چکا تھا۔ جب تک ابا جی زندہ تھے اور بات تھی۔ کبھی کبھار مائیکہ جا کر کھلی ہوا کا احساس پیدا ہو جاتا۔ اب تو ابا جی کی وفات کے بعد امی، اظہر اور منی بھی اس کے پاس آ گئے تھے۔ امی زیادہ وقت پچھلی پوزیشن یاد کر کے رونے میں بسر کرتیں۔ جب رونے سے فراغت ہوتی تو وہ اڑوس پڑوس میں یہ بتانے کے لئے نکل جاتیں کہ وہ ایک ڈپٹی کمشنر کی بیگم تھیں اور حالات نے انہیں یہاں سمن آباد میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ منی کو مٹی کھانے کا عارضہ تھا۔ دیواریں کھرچ کھرچ کر کھوکھلی کر دی تھیں۔ نا مراد سیمنٹ کا پکا فرش اپنی نر م نرم انگلیوں سے کرید کر دھر دیتی۔ بہت مرچیں کھلائیں۔ کونین ملی مٹی سے ضیافت کی۔ ہونٹوں پر دہکتا ہوا کوئلہ رکھنے کی دھمکی دی پر وہ شیر کی بچی مٹی کو دیکھ کر بری طرح ریشہ خطمی ہوتی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8