توبہ شکن ۔ بانو قدسیہ کا شاہکار افسانہ


”جی ہاں۔ میں انہیں پڑھا دوں گا۔ بخوشی“

اب پہلو بدل کر ریٹائرڈ ڈی سی صاحب نے کہامعاف کیجئے پروفیسر صاحب! لیکن بات پہلے ہی واضح ہو جانی چاہیے یعنی آپمیرا مطلب ہے آپ کی Remuneration کیا ہو گی؟ ”

ٹیوشن کی فیس کو خوبصورت سے انگریزی لفظ میں ڈھال کر گویا ڈی سی صاحب نے اس میں سے ذلت کی پھانس نکال دی۔

لیکن پروفیسر صاحب کا رنگ متغیر ہو گیا اور وہ مونڈھے کی پشت کو دیوار سے لگا کر بولے۔

”میں مجھے دراصل مجھے گورنمنٹ پڑھانے کا عوضانہ دیتی ہے سر۔ اس کے علاوہمیں ٹیوشن نہیں کرتا، تعلیم دیتا ہوں۔ جو چاہے جب چاہے مجھ سے پڑھ سکتا ہے۔ “ ”دیکھیے جناب میں اس لئے پڑھاتا ہوں کہ مجھے پڑھانے کا شوق ہے۔ اگر میں تحصیلدار ہوتا تو بھی پڑھاتا۔ اگر ضلع کا ڈی سی ہوتا تو بھی پڑھاتا۔ کچھ لوگ پیدائشی میری طرح ہوتے ہیں۔ ان کے ماتھے پر مہر ہوتی ہے پڑھانے کی ان کے ہاتھوں پر لکیر ہوتی ہے پڑھانے کی۔ “

بی بی کے حلق میں نمکین آنسو آ گئے۔ دو غیرتوں کا مقابلہ تھا۔ ایک طرف ڈی سی صاحب کی وہ غیر ت تھی جسے ہر ضلع کے افسرو ں نے کلف لگائی تھی۔ دوسری جانب ایک Idealistic آدمی کی غیرت تھی جو گھونگے کی طرح اپنا سارا گھر اپنے ہی جسم پر لاد کر چلا کرتا ہے اور ذرا سی آہٹ پا کر اس گھونگے میں گوشہ نشین ہو جاتا ہے۔

پروفیسر صاحب بڑی بھلی سی باتیںکیے جا رہے تھے اور اس کے ابا جی مونڈھے میں یو ں بیٹھے تھے جیسے بھاگ جانے کی تدبیریں سوچ رہے ہوں۔

”فائن آرٹس کا دولت کی ذخیرہ اندوزی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں میرا پروفیشن فائن آرٹس کا ایک شعبہ ہے۔ انسان میں کلچر کا شعور پیدا کرنے کی سعی انسان میں تحصیل علم کی خواہش بیدار کرناعام سطح سے اٹھ کر سوچنا اور سوچتے رہنا ایک صحیح استاد ان نعمتوں کو بیدار کرتا ہے۔ ایک تصویر، ایک گیت، ایک خوبصورت بت بھی یہی کچھ کر پاتے ہیں۔ ساز بجانے والے کو اگر آپ لاکھ روپیہ دیں اور اس پر پابندی لگائیں کہ وہ ساز کو ہاتھ نہ لگائے تو وہ غالباً وہ اگر وہ Genuine ہے تو آپ کی پیشکش ٹھکرا دے گا میں ٹیچر ہوں۔ Genuine ٹیچرمیں Fake نہیں ہوں زبیری صاحب! “

ڈی سی صاحب اپنی بیٹی کے سامنے ہار ماننے والے نہیں تھے۔

”اور جو پیٹ میں کچھ نہ ہو تو غالباً سازندہ مان جائے گا۔ “

”پھر وہ سازندہ Fake ہو گا۔ Passion کا اس کی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو گا بلکہ غالباً وہ اپنے آرٹ کو ایک تمغہ، ایک پاسپورٹ، ایک اشتہار کی طرح استعمال کرتا ہو گا۔ “

”اچھا جی آپ پیسے نہ لیں لیکن بی بی کو پڑھا تو دیا کریں۔ “

”جی ہاں۔ میں بخوشی پڑھا دوں گا۔ “

”تو کب آیا کریں گے آپ؟ میں کار بھجوا دیا کروں گا۔ “

پروفیسر فخر کی آنکھیں تنگ ہو گئیں اور وہ ہچکچا کر بولے ”میں تو کہیں نہیں جاتا شام کے وقت“

”تو میرا تو میرا مطلب ہے کہ آپ اسے پڑھائیں گے کیسے؟ “

”یہ چار پانچ کے درمیان کسی وقت آ جایا کریں۔ میں پڑھا دیا کروں گا۔ “

بی بی کے پیروں تلے سے یوں زمین نکلی کہ اس وقت تک واپس نہ لوٹی جب تک وہ اپنے پلنگ پر لیٹ کر کئی گھنٹے تک آنسوؤں سے اشنان نہ کرتی رہی۔

عورت کے لئے عموماً مرد کی کشش کے تین پہلو ہوتے ہیں۔ بے نیازی، ذہانت اور فصاحت۔ یہ تینوں اوصاف پروفیسروں میں بقدر ضرورت ملتے ہیں۔ اسی لئے ایسے کالجوں میں جہاں مخلوط تعلیم ہو لڑکیاں عموماً اپنے پروفیسروں کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہیں اس محبت کا چاہے کچھ نتیجہ نہ نکلے لیکن ہیروشپ کی طرح اس کا اثر ان کے ذہنوں میں ابدی ہوتا ہے جس طرح ملکیت ظاہر کرنے کے لئے پرانے زمانے میں گھوڑوں کو داغ دیا جاتا تھا اسی طرح اس رات بی بی کے دل پر مہرِ فخر لگ گئی۔

ابا جی ہر آنے جانے والے سے پروفیسر فخر کے احمق پن کی داستان یوں سنانے بیٹھ جاتے جیسے یہ بھی کوئی ویت نام کا مسئلہ ہو۔ ان کے ملنے والے پروفیسر فخر کی باتوں پر خوب ہنستے۔ بی بی کو شبہ ہو چلا تھا کہ انہوں نے بیٹی کو ٹیوشن کی اجازت نہ دی تھی پھر بھی اندر ہی اندر اباجی فخر کی شخصیت سے مرعوب ہو چکے تھے۔

ایک دن جب بی بی اپنی سہیلی سے ملنے سمن آباد گئی اور سامنے والی لائن میں اسے پروفیسر فخر کا مکان دکھائی دیا تو اچانک اس کے دل میں ایک زبردست خواہش اٹھی۔ وہ خوب جانتی تھی کہ اس وقت پروفیسر صاحب کالج جا چکے ہوں گے۔ پھر بھی وہ گھر کے اندر چلی گئی۔ سارے کمرے کھلے پڑے تھے۔ لمبے کمرے میں ایک چارپائی بچھی تھی جس کا ایک پایہ غائب تھا اور اس کی جگہ اینٹوں کی تھٹی لگی ہوئی تھی۔ تینوں کمروں میں کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ ہر سائز، ہر پیپر اور ہر طرح کی پرنٹنگ والی کتابیں۔ ان کتابوں کو درستگی کے ساتھ آراستہ کرنے کی خواہش بڑی شدت کے ساتھ بی بی کے دل میں اٹھی۔ جستی ٹرنک پر پڑے ہوئے کپڑے، زرد رو چھپکلیاں جو بڑی آزادی سے چھت سے جھانک رہی تھیں اور کونوں میں لگے ہوئے جالے۔ ان چیزوں کا بی بی پر بہت گہرا اثر ہوا۔ باورچی خانے سے کچھ جلنے کی خوشبو آ رہی تھی لیکن پکانے والا دیگچی سٹوو پر رکھ کر کہیں گیا ہوا تھا۔ بی بی نے تھوڑا سا پانی دیگچی میں ڈالا اور سہیلی سے ملے بغیر آ گئی۔

جس روز بی بی نے پروفیسر فخر سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اسی روز جمالی ملک کا رشتہ بھی آگیا۔

جمالی ملک لاہور کے ایک نامی گرامی ہوٹل میں مینجر تھے۔ بڑی پریس کی ہوئی شخصیت تھی۔ اپنی پتلون کی کریز کی طرح۔ اپنے چمکدار بوٹوں کی طرح جگمگاتی ہوئی شخصیتوہ کسی ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار نظر آتے تھے۔ صاف ستھرے دانتوں کی چمک ہمیشہ چہرے پر رہتی۔ جمالی ملک اپنے ہوٹل کی تنظیم، صفائی اور سروس کا سمبل تھے۔ ائیر کنڈیشنڈ لابی میں پھرتے ہوئے، مدھم بتیوں والی بار میں سرپرائز وزٹ کرتے ہوئے لف کے بٹن دباتے ہوئے۔ ڈائننگ ہال میں وی آئی پیز کے ساتھ پر تکلف گفتگو کرتے ہوئے، ان کا وجود کٹ گلاس کے فانوس کی طرح خوبصورت اور چمکدار تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8