توبہ شکن ۔ بانو قدسیہ کا شاہکار افسانہ


”آپ کی سہیلیاں کدھر گئیں؟ “۔

”وہ نیچے چلی گئی ہیں شاید“

”اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو تو میں یہاں بیٹھ جاؤں چند منٹ۔ “

بی بی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

وہ اپالو کی طرح وجیہہ تھا۔ جب اس نے ایک گھٹنے پر دوسرا گھٹنا رکھ کر سر کو صوفے کی پشت سے لگایا تو بی بی کو عجیب قسم کی کشش محسوس ہوئی۔ جمالی ملک کے ہاتھ میں سارے ہوٹل کی ماسٹر چابیاں تھیں اور اس کی بڑی سی انگوٹھی نیم روشنی میں چمک رہی تھی۔ اس خاموش خوبصورت آدمی کو بی بی نے اپنے نکاح سے آدھ گھنٹہ پہلے پہلی بار دیکھا اور اس کی ایک نظر نے اسے اپنے اندر اس طرح جذب کر لیا جسے سیاہی چوس سیاہی کو جذب کرتا ہے۔

”میں آپ کو مبارکباد پیش کر سکتا ہوں؟ “ اس نے مضطرب نظروں سے بی بی کو دیکھ کر پوچھا۔

وہ بالکل چپ رہی۔

”لڑکیاں خاص کر آپ جیسی لڑکیوں کو ایک بڑا زعم ہوتا ہے اور اسی ایک زعم کے ہاتھوں وہ ایک بہت بڑی غلطی کر بیٹھتی ہیں۔ “

نقلی پلکوں والے بوجھل پپوٹے اٹھا کر بی بی نے پوچھا ”کیسی غلطی؟ “

”کچھ لڑکیاں محض رشی سادھوؤں کی تپسیا توڑنے کو خوشی کی معراج سمجھتی ہیں“ وہ سمجھتی ہیں کہ کسی کی بے نیازی کی ڈھال میں سوراخ کر کے وہ سکون معراج کو پالیں گی۔ کسی کے تقویٰ کو برباد کرنا خوشی کے مترادف نہیں ہے۔ کسی کے زہد کو عجز و انکساری میں بدل دینا کچھ اپنی راحت کا باعث نہیں ہاں دوسروں کے لئے احساسِ شکست کا باعث ہو سکتی ہے یہ بات

چابیاں ہاتھ میں گھوم پھر رہی تھیں۔ ذہانت اور فصاحت کا دریا رواں تھا۔

”یہ زعم عورتوں میں، لڑکیوں میں کب ختم ہو گا؟ میرا خیال تھا آپ ذہین ہیں لیکن آپ بھی وہی غلطی کر بیٹھی ہیں جو عام لڑکی کرتی ہے۔ آپ بھی توبہ شکن بننا چاہتی ہیں۔ “

”مجھے مجھے پروفیسر فخر سے محبت ہے۔ “

”محبت؟ آپ پروفیسر فخر کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ اندر سے وہ بھی گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں۔ اپنے تمام آئیڈیلز کے باوجود وہ بھی کھانا کھاتے ہیں۔ سوتے ہیں اور محبت کرتے ہیں ان کا کوٹ آف آرمر اتنا سخت نہیں جس قدر وہ سمجھتے ہیں۔ “

وہ چاہتی تھی کہ جمالی ملک سے کہے کہ تم کون ہوتے ہو مجھے پروفیسر فخر کے متعلق کچھ کہنے والے! تمہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ یہاں لیدر کے صوفے سے پشت لگا کر سارے ہوٹل کے ماسٹر چابیاں ہاتھ میں لے کر اتنے بڑے آدمی پر تبصرہ کرولیکن وہ بے بس سنے جا رہی تھی اور کچھ کہہ نہیں سکتی تھی۔

”میں پروفیسر صاحب سے واقف نہیں ہوں لیکن جو کچھ سنا ہے اس سے یہی اندازہ لگایا ہے کہ وہ اگر مجرد رہتے تو بہتر ہوتا عورت تو خواہ مخواہ توقعات سے وابستہ کر لینے والی شے ہے۔ وہ بھلا اس صنف کو کیا سمجھ پائیں گے؟ “

”جمالی صاحب! اس نے التجا کی۔

”آپ سی لڑکیاں اپنے رفیق حیات کو اس طرح چنتی ہیں جس طرح مینو میں سے کوئی اجنبی نام کی ڈش آرڈر کر دی جائے محض تجربے کی خاطرمحض تجسس کے لئے۔ وہ پھر بھی چپ رہی۔ “ اتنے سارے حسن کا پروفیسر صاحب کو کیا فائدہ ہو گا بھلامنی پلاٹ پانی کے بغیر سوکھ جاتا ہے۔ عورت کا حسن پرستش اور ستائش کے بغیر مرجھا جا تا ہے کسی ذہین مرد کو بھلا کسی خوبصورت عورت کی کب ضرورت ہوتی ہے؟ اس کے لئے تو کتابوں کا حسن بہت کافی ہے۔ ”

شمعدان اپنی پانچ موم بتیوں سمیت دم سادھے جل رہا تھا اور وہ کیوٹیکس لگے ہاتھوں کو بغور دیکھ رہی تھی۔

”مجھ سے بہتر قصیدہ گو آپ کو کبھی نہیں مل سکتا قمر مجھ سا گھر آپ کو نہیں مل سکتا کیونکہ میرا گھر اس ہوٹل میں ہے اور ہوٹل سروس سے بہتر کوئی سروس نہیں ہوتی اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ میری باتوں پر آپ کو اس وقت یقین آئے گا جب آپ کے چہرے پر چھائیاں پڑ جائیں گی۔ ہاتھ کیکر کی چھال جیسے ہو جائیں گے اور پیٹ چھاگل میں بدل جائے گا میں تو چاہتا تھا میری تو تمنا تھی کہ جب ہم اس ہوٹل کی لابی میں اکٹھے پہنچتے جب اس کی بار میں ہم دونوں کا گزر ہوتا۔ جب اس کی گیلریوں میں ہم چلتے نظر آتے تو امریکن ٹورسٹ سے لے کر پاکستانی پیٹی بورژوا تک سب، ہماری خوش نصیبی پر رشک کرتے لیکن آپ آئیڈیلسٹ بننے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ حسن کے لئے گڑھا ہے بربادی کا۔ “

ساون کی رات جیسا گہرا نیلا سوٹ، کارنیشن کا سرخ پھول اور آفٹر شیو لوشن سے بسا ہوا چہرہ بالآخر دروازے کی طرف بڑھا اور بڑھے ہوئے بولا۔

”کسی سے آئیڈیلز مستعار لے کر زندگی بسر نہیں ہو سکتی محترمہ آدرش جب تک اپنے ذاتی نہ ہوں ہمیشہ منتشر ہو جاتے ہیں۔ پہاڑوں کا پودا ریگستان میں نہیں لگا کرتا۔ “

اس میں تو اتنا حوصلہ بھی نہ رہا تھا کہ آخری نظر جمالی ملک پر ہی ڈال لیتی۔ دروازے کے مدور ہینڈل پر ہاتھ ڈال کر جمالی ملک نے تھوڑا سا پٹ کھول دیا۔ گیلری سے لڑکیوں کے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں۔

”میں بھی کس قدر احمق ہوں۔ اس سے اپنا کیس pleadکر رہا ہوں جو کبھی کا فیصلہ کر چکی ہے اچھا جی مبارک ہو آپ کو“

دروازہ کھلا اور پھر بند ہو گیا۔ جاتے ہوئے وجیہہ مینجر کو ایک نظر بی بی نے دیکھا اور اپنے آپ پر لعنت بھیجتی ہوئی اس نے نظریں جھکا لیں۔ چند لمحوں بعد دروازہ پھر کھلا اور ادھ کھلے پٹ سے جمالی ملک نے چہرہ اندر کر کے دیکھا۔ اس کی ہلکی براؤن آنکھوں میں نمی اور شراب کی ملی جلی چمک تھی جیسے گلابی شیشے پر آہوں کی بھاپ اکٹھی ہو گئی ہو۔

”مجھ سے بہتر آدمی تو آپ کو مل رہا ہے لیکن مجھ سے بہتر گھر نہ ملے گا آپ کو مغربی پاکستان میں۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8