توبہ شکن ۔ بانو قدسیہ کا شاہکار افسانہ


اب کار فوٹو گرافر کی دکان کے آگے کھڑی تھی۔ ابا جی اس کی طرف کا دروازہ کھولے کھڑے تھے لیکن تصویر کھنچوانے کی تمنا آپی آپ مر گئی۔

بی اے کرنے کے بعد کالج کا ماحول دور رہ گیا۔ یہ ملاقات بھی گرد آلود ہو گئی اور غالباً طاقِ نسیاں پر بھی دھری رہ جاتی اگر اچانک کتابوں کی دکان پر ایک دن اسے پروفیسر فخر نظر نہ آ جاتے۔ وہ حسب معمول سفید قمیض خاکی پتلون میں ملبوس تھے۔ رومن نوز پر عینک ٹکی ہوئی تھی اور وہ کسی کتاب کا غور سے مطالعہ کر رہے تھے۔ بی بی اپنی دو تین سہیلیوں کے ساتھ دکان میں داخل ہوئی اسے ویمن اینڈ ہوم قسم کے رسالے درکار تھے۔ عید کارڈ اور سٹچ کرافٹ کے پمفلٹ خریدنے تھے۔ لو کیلوری ڈائٹ قسم کی ایسی کتابوں کی تلاش تھی جو سالوں میں بڑھایا ہوا وزن ہفتوں میں گھٹا دینے کے مشورے جانتی ہیں لیکن اندر گھستے ہی گویا آئینے کا لشکارا پڑا۔

”سلام علیکم سر“

”وعلیکم السلام“ مٹھ کے بھکشو نے جواب دیا۔

”آپ نے مجھے شاید پہچانا نہیں سر میں آپ کی سٹوڈنٹ ہوں جی۔ “ قمر زبیری

اس نے دوستوں کی طرف خفت سے دیکھ کر کہا۔

”میں نے تمہیں پہچان لیا ہے قمر بی بی کیا کر رہی ہیں آپ ان دنوں؟ “

”میں جی کچھ نہیں جی سر! “

ایک سہیلی نے آگے چلنے کا اشارہ کیا۔ دوسری نے کمر میں چٹکی کاٹی لیکن وہ تو اس طرح کھڑی تھی گویا کسی فلم سٹار کے آگے آٹو گراف لینے کھڑی ہو۔

”آپ ایم اے نہیں کر رہی ہیں پولیٹیکل سائنس میں؟ “

”اس کی تو شادی ہو رہی ہے سر۔ “

کھی کھی کر کے ساری کبوتر زادیاں ہنس دیں۔

بی بی نے قاتلانہ نظروں سے سب کو دیکھا اور بولی۔ ”جھوٹ بولتی ہیں جی میں تو جی ایم اے کروں گی۔

اب پروفیسر مکمل پروفیسر بن گیا جو ان چہرے پر متانت آ گئی۔

”دیکھئے۔ پڑھی لکھی لڑکیوں کا وہ رول نہیں ہے جو آج کل کی لڑکیاں ادا کر رہی ہیں۔ آپ کو شادی کے بعد یاد رکھنا چاہیے کہ تعلیم سونے کا زیور نہیں ہے جسے بنک کے لاکرز میں بند کر دیا جاتا ہے بلکہ یہ تو جادو کی وہ انگوٹھی ہے جسے جس قدر رگڑتے چلے جاؤ اسی قدر خوشیوں کے دروازے کھلتے جاتے ہیں۔ آپ کو اس تعلیم کی زکوٰۃ دینا ہو گی۔ اسے دوسروں کے ساتھ Shareکرنا ہو گا۔ “

بات بہت معمولی اور سادہ تھی۔ اس نوعیت کی باتیں عموماً عورتوں کے رسالوں میں چھپتی رہتی ہیں لیکن فخر کی آنکھوں میں، اس کی باتوں میں وہ حسن تھا جو ہمیشہ سچائی سے پیدا ہوتا ہے جب وہ پمفلٹ اور وزن گھٹانے کی تین کتابیں خرید کر کار میں آ بیٹھی تو اس کی نظروں میں وہی چہرہ تھا، وہ بھیگی بھیگی آواز تھی۔

پروفیسر فخر کو دیکھنے کی کوئی صورت باقی نہ تھی لیکن اس کی آواز کی لہریں اسے ہر لحظہ زیر آبکیے دیتی تھیں۔ اٹھتے بیٹھتے، جاگتے سوتے، وہی شکاری کتے جیسا ستا ہوا چہرہ، اندر کو دھنسی ہوئی چمکدار آنکھیں اور خشک ہونٹ نظروں کے آگے گھومنے لگے۔ پھر یہ چہرہ بھلائے نہ بھولتا اور وہ اندر ہی اندر بل کھائی رسی کی طرح مروڑی جاتی۔

ان ہی دنوں اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کرے گی۔ حالانکہ اس کے گھر والے ایک اچھے بر کی تلاش میں تھے۔ ہاتھی مرا ہوا بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر ریٹائر ہو کر بھی اونچی نشست والی کرسی سے مشابہ ہوتا ہے۔ اباجی کے مال و متاع کو گو اندر سے گھن لگ چکا تھا لیکن حیثیتِ عرفی بہت تھی۔ نوکر چا کر کم ہو گئے تھے۔ سوشل لائف بھی پہلے سی نہ رہی تھی۔ فنکشنوں کے کارڈ بھی کم ہی آتے لیکن رشتے ڈی سی صاحب کی بیٹی کے چلے آ رہے تھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ آ رہے تھے۔ اس کی امی گو پڑھی لکھی عورت نہ تھی لیکن با اثر با رسوخ خواتین کی صحبت نے اسے خوب صیقل کر دیا تھا۔ اس میں ایک ایسی خوش اعتمادی اور پرکاری پیدا ہو گئی تھی کہ کالجوں کی پروفیسریں اس کے ہوتے ہوئے اپنے آپ کو کمتر سمجھا کرتیں۔

جس وقت بی بی نے پولیٹیکل سائنس کرنے پر ضد کی تو امی نے زبردست مخالفت کی۔ ابا جی نے قدم قدم پر اڑچن پیدا کی کہ جو لڑکی ہمیشہ پولیٹیکل سائنس میں کمزور رہی ہے وہ اس مضمون میں ایم اے کیونکر کرے گی۔ کئی گھنٹوں کی بحث کے بعد ابا جی اس بات پر رضامند ہو گئے کہ وہ پروفیسر سے ٹیوشن لے سکتی ہے۔

جس روز ریٹائرڈ ڈی سی صاحب کی کار سمن آباد گئی تو پروفیسر فخر گھر پر موجود نہ تھے۔ دوسری مرتبہ جب بی بی کی امی گئیں تو پروفیسر صاحب کسی سیمینار میں تشریف لے جا چکے تھے۔ ملاقات پھر نہ ہوئی۔ تیسری بار جب بی بی اور ابا جی ٹیوشن کا طے کرنے گئے تو پروفیسر صاحب مونڈھے پر بیٹھے ہوئے مطالعہ میں مصروف تھے۔ باہر کے نلکے کے ساتھ نیلے رنگ کی پلاسٹک کی ٹیوب لگی ہوئی تھی۔ ٹیوب ویل کا پانی سامنے کے تنگ احاطے میں اکٹھا ہو رہا تھا لیکن پروفیسر صاحب اس سے غافل مٹتی شفق میں حروف ٹٹول ٹٹول کر پڑھ رہے تھے۔

پہلے ابا جی نے ہارن بجایا۔ پھر خانساماں خانساماں کہہ کر آوازیں دیں۔ نہ تو اندر سے کوئی باورچی قسم کا آدمی نکلا اور نہ ہی پروفیسر صاحب نے سر اٹھا کر دیکھا۔ بالآخر ابا جی نے خفت کے باوجود دروازہ کھولا اور بی بی کو ساتھ لے کر برآمدے کے طرف چلے۔ ٹیوب غالباً دیر سے لگی ہوئی تھی اور مٹی کیچڑ میں بدل چکی تھی۔ بڑی احتیاط سے قدم دھرتے ہوئے سیڑھیوں تک پہنچے اور پھر کھنکار کر پروفیسر صاحب کو متوجہ کیا۔

پون گھنٹہ بیٹھنے رہنے کے باوجود نہ تو اندر سے کوکا کولا آیا نہ چائے کے برتنوں کا شور سنا ئی دیا۔ اس بے اعتنائی کے باوجود دونوں باپ بیٹی سہمے سے بیٹھے تھے۔ شام گہری ہو چلی تھی اور سمن آباد یے گھروں کے آگے چھڑکاؤ کرنے میں مشغول تھے۔ قطار صورت گھروں سے ہر سائز اور ہر عمر کا بچہ نکل کر اس چھڑکاؤ کو بطور ہولی استعمال کر رہا تھا۔ عورتیں نائیلون جالی کے دوپٹے اوڑھے آ جا رہی تھیں۔ ایک ایسے طبقے کی زندگی جاری تھی۔ جو نہ امیر تھا اور نہ ہی غریبدونوں کے درمیان کہیں مرغ بسمل کی طرح لٹک رہا تھا۔ جب بات پڑھانے تک جا پہنچی تو پروفیسر فخر بولے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8