پاکستانی حکام کو دریائے ستلج میں سیلاب کی خبر یو ٹیوب سے ملی


سیلاب

چوہدری فاروق کا ڈیرہ اب جزیرے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہاں ان کے مال مویشی، زرعی مشینری اور کئی من اناج محصور ہوا پڑا ہے۔ سینکڑوں میٹر چوڑے ریت کے اس ٹیلے پر جھاڑی نما پودوں کی بہتات ہے۔

پاکستان اور انڈیا کی سرحد پر واقع گاؤں مستیکی سے لے کر کئی کلومیٹر دور واقع قصبے شیخ پورہ نو تک سیلاب کا پانی موجود ہے۔ چند روز قبل تک دریائے ستلج کی یہ گزرگاہ محض ریت کا میدان ہوتی تھی۔ لیکن اب کہیں امرود کے باغات سیلاب کے پانی میں آدھے ڈوبے ہیں تو کہیں مکئی اور دیگر فصلوں میں پانی تین فٹ تک کھڑا ہے۔

مشرقی سمت میں واقع یہ بستیاں مستیکی گاؤں میں آتی ہیں جہاں چوہدری فاروق کی 50 ایکڑ زمین ہے۔ اس پر مکئی اور چاول کی کھڑی فصلیں اب مکمل زیرِ آب ہے۔ پہلی بستی تک جانے کے لیے ریسکیو سروس کی موٹر والی کشتی کو چار سے سات کلو میٹر کا چکر کاٹنا پڑتا ہے۔

چوہدری فاروق کا اندازہ ہے کہ ‘دریا کے اس پاٹ کی گہرائی اس وقت 30 فٹ سے زیادہ ہو گی۔’

دریائے ستلج کے تیز رفتار ریلے اب بھی یہاں سے گزر رہے ہیں جو اگر کشتی سے ٹکرائیں تو اس کی سمت قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

جزیرے نما ڈیرے کی دوسری جانب دریا کا پاٹ مزید چوڑا ہو جاتا ہے۔ اس لیے وہاں گہرائی تقریباً 20 فٹ تک ہو جاتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ان کے کچھ مویشی غلطی سے دریا میں اتر گئے تو ان کا ایک ملازم تیر کر کئی منٹوں کی کوششوں کے بعد انھیں واپس لانے میں کامیاب ہوا۔

دریا کی مغربی حد کے اس پار ان کے ڈیرے پر مکئی کا ڈھیر پکی سڑک سے صاف دکھائی دیتا ہے۔ مستیکی گاؤں اور اس کے پار پاکستان اور انڈیا کی سرحد بھی یہاں موجود فوج، ریسکیو اور پولیس کے اہلکار دیکھ سکتے ہیں۔

دریائے ستلج میں یہ پانی دو روز قبل انڈیا سے آیا ہے۔ قصور کی ضلعی حکومت کے ڈپٹی ڈائریکٹر طارق محمود ملک کے مطابق ایک لاکھ کیوسک سے زیادہ پانی آ چکا ہے۔ تاہم حکام کے مطابق ‘یہ کوئی زیادہ اونچے درجے کا سیلاب نہیں۔’

انڈیا سے دو روز قبل 70 ہزار کیوسک پانی کے ریلے کے آنے کا خدشہ تھا مگر وہ فی الوقت ٹل گیا۔

سیلاب

سیلاب نے کتنا نقصان کیا؟

ضلعی انتظامیہ کے حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ مستیکی سمیت دریا کے راستے میں آنے والے 12 دیہاتوں میں پانی داخل ہوا تھا۔

گنڈا سنگھ والا کے اس علاقے، جہاں دریائے ستلج انڈیا سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے، کے قریب نشیبی علاقوں میں زیادہ نقصان دیکھنے میں آیا ہے۔ متاثرہ علاقوں سے ریسکیو 1122 نے پاکستانی فوج اور دیگر اداروں کی مدد سے سات ہزار کے قریب افراد کو نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔

طارق محمود ملک کے مطابق اس کے علاوہ تقریباً دو سے تین ہزار افراد اپنی مدد آپ کے تحت بھی وہاں سے محفوظ مقامات کی جانب چلے گئے تھے۔

‘یہاں کے لوگوں کا روزگار کھیتی باڑی اور اس کے بعد مویشیوں سے جڑا ہے۔ ہم نے انسانوں سے زیادہ تقریباً 15 ہزار کے قریب مویشیوں کو بھی محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔’

مویشی

حکام کے مطابق سرحد کے قریب پانی کی سطح زیادہ بلند تھی مگر جوں جوں پانی پھیلتا گیا وہ بتدریج کم ہوتی چلی گئی۔ تاہم پانی سرحد سے لے کر کئی کلومیٹر دور واقع قصبے شیخ پورہ نو تک پہنچا۔ راستے میں آنے والی کئی ایکڑ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ ایک بچے کی لاش دریا میں بہہ کر آئی ہے جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ انڈیا سے آئی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر کے مطابق اسے امانتاً دفن کر دیا گیا تھا۔

آفات سے بچاؤ کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے پنجاب کے حکام نے کہا کہ دریا کے پانی نے باہر نکل کر زیادہ نقصان نہیں کیا۔ پی ڈی ایم اے کے ترجمان نثار احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘پانی دریا سے باہر نہیں نکلا۔’

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پانی دریا کی حدود سے باہر ہی نہیں نکلا تو اس قدر زیادہ افراد متاثر کیوں ہوئے۔

نثار احمد کے مطابق زیادہ تر نقصان ان افراد کا ہوا جو دریا کے اندر آباد تھے۔ ‘بہت سے لوگوں نے دریا کے راستے میں فصلیں کاشت کر رکھیں تھیں یا ڈیرے بنا رکھے تھے۔ ایسے ہی افراد کے مال مویشیوں اور املاک کو نقصان پہنچا ہے۔’

چوہدری فاروق تسلیم کرتے ہیں کہ لوگوں نے دریا کے راستے میں کاشت کاری کر رکھی تھی۔ ‘دریا کافی عرصے سے سوکھا پڑا تھا۔ ہم تو پھر بھی کنارے پر لگاتے ہیں اب دریا ہی اپنا رستہ بدلتا رہتا ہے۔’

تاہم یہ دیکھا جا سکتا تھا کہ ان کی زمین کا وہ حصہ جو پانی کے اندر آ چکا تھا وہ نسبتاً نشیب میں تھا اور اس میں مکئی کاشت کی گئی تھی۔

شیخ پورہ نو میں پاکستانی فوج اور دیگر اداروں نے ضلعی انتظامیہ کی نگرانی میں امدادی اور ریلیف کیمپ لگا رکھا ہے جہاں سیلاب متاثرین کو راشن، طبی سہولیات اور پناہ فراہم کی جاتی ہے۔ مگر ضلعی انتظامیہ کے مطابق ان کے پاس کیمپ میں صرف ایک خاندان ٹھہرا ہوا ہے۔

حکام کے مطابق زیادہ تر افراد اپنے رشتے داروں کے گھروں میں چلے گئے تھے۔

ایمرجنسی کیمپ

بے خبر حکام کو یوٹیوب کا سہارا

پاکستانی حکام کے مطابق یہاں علاقوں میں پانی دور تک پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انڈیا کی طرف سے پانی چھوڑے جانے کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔

قصور کی ضلعی حکومت کے ڈپٹی ڈائریکٹر طارق محمود ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا کی جانب سے دریائے ستلج میں پانی چھوڑنے کے حوالے سے حکام کو یوٹیوب کے ذریعے معلوم پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں ماہ کی 18 تاریخ کو ضلع قصور کے ڈی سی او نے تمام متعلقہ محکماجات کے اہلکاروں کی میٹنگ اچانک رات کے وقت طلب کی۔

وہاں پہنچ کر انھیں معلوم ہوا کہ ‘ڈی سی صاحب نے یوٹیوب پر انڈیا کے شہر جالندھر کے ڈی سی کی پریس کانفرنس دیکھی جس میں وہ وہاں کے لوگوں سے علاقہ خالی کرنے کا کہہ رہے تھے۔ کیونکہ دریائے ستلج میں پانی چھوڑا جا رہا تھا۔’

طارق محمود ملک کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ایک ایمرجنسی میٹنگ بلائی گئی جس میں پاکستانی فوج کے نمائندگان بھی موجود تھے اور فیصلہ کیا گیا کہ ‘اپنی طرف لوگوں کو خبردار کیا جائے اور تمام حفاظتی تدابیر لی جائیں۔’

سیلاب

کیا اب بھی لوگ پھنسے ہیں؟

طارق محمود کے مطابق میٹنگ کے فوراً بعد کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیاریاں مکمل کر لی گئیں تھیں۔ تاہم اب بھی سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مستیکی اور نواحی دیہاتوں میں بدستور اپنے گھروں میں موجود ہیں۔

مستیکی کے ایک رہائشی عبدالمجید اپنے کنبے اور مویشیوں سمیت وہاں سے نکل کر تلوار پوسٹ کے علاقے کے قریب رہائش پذیر اپنے رشتہ داروں کی طرف چلے گئے تھے۔

ان کے اندازے کے مطابق ‘ایک سو کے قریب گھر اب بھی ایسے ہیں جہاں خواتین اور بچوں سمیت لوگ موجود ہیں۔’

سیلاب

ان کی بستی میں دریا کے گہرے ترین پاٹ کے کنارے پر واقع پہلے گھر میں اب بھی بچے دور سے کھیلتے کودتے نظر آتے ہیں۔

مگر حکام کے مطابق ایسے تمام افراد اپنی مرضی سے وہاں ٹھہرے ہیں اور کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں تک ریسکیو کی ٹیمیں پہنچ نہ پائی ہوں۔

ریسکیو آپریشن کی نگرانی کرنے والے ضلع قصور میں ریسکیو 1122 کے ڈسٹرکٹ ایمرجنسی افسر ڈاکٹر فرزند علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان افراد کو وہاں سے نکلنے کے لیے قائل کرنا ہی ان کا سب سے بڑا چیلنج تھا۔

‘ریسکیو اور انتظامیہ کے اہلکار بار بار جا کر انھیں سمجھا چکے ہیں کہ انھیں یہ جگہ چھوڑ دینی چاہیے مگر وہ نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں۔’

ڈاکٹر فرزند کے مطابق خطرہ ابھی مکمل طور پر ٹلا نہیں۔ ‘ابھی پانی کی سطح نیچے نہیں جا رہی اور یہ بھی نہیں معلوم کے مزید پانی انڈیا کی طرف سے آ جائے۔’

سیلاب

‘چھوڑ کر کیسے جائیں، دل نہیں مانتا’

چوہدری فاروق کے خاندان کی خواتین اور بچے بھی چلے گئے، مگر وہ خود نہیں گئے۔ اب بھی اپنے جزیرہ بن جانے والے ڈیرے پر موجود ہیں۔

‘یہاں ہمارا اناج پڑا ہے، اتنی مشینری ہے، مویشی ہیں، فصلیں ہیں ہماری، ان سب کو چھوڑ کر کیسے جائیں۔ دل نہیں مانتا۔’

چوہدری فاروق سمیت یہاں بسنے والے لوگوں کو سیلابی ریلے کی آمد سے دو روز قبل ہی انتظامیہ کی جانب سے خبردار کر دیا گیا تھا۔

سیلاب

تاہم ان افراد نے پانی کی سطح کو ناپنے کے لیے خود سے پانی میں ڈنڈے کھڑے کر رکھے ہیں جس کی مدد سے وہ کسی ممکنہ خطرے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ موبائل فون تاحال کام کر رہے ہیں جنھیں وہ بجلی کی بندش کے باعث سولر انرجی پر چارج کرتے ہیں۔

طارق محمود ملک کے مطابق’ان لوگوں کو ابھی کوئی فوری خطرہ لاحق نہیں ہے۔ پانی کی سطح ابھی اس قدر بلند نہیں ہوئی کہ اسے خطرناک قرار دیا جا سکے۔’

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر قصور غفار قیصرانی نے بتایا کہ ‘ایک موقعے پر ان افراد کو زبردستی وہاں سے نکالنے کے خیال پر بھی غور کیا جا رہا تھا۔ تاہم کوئی فوری بڑا خطرہ لاحق نہ ہونے کی وجہ سے اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔’

حکام کو امید ہے کہ اب انڈیا مزید پانی ستلج میں نہیں چھوڑے گا اور چند روز مزید انتظار کے بعد متاثرین کی بحالی کا کام شروع کر دیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32721 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp