ماہرِ معیشت عاطف میاں کو ایک ’غیر معاشی‘ مشورہ!


عاطف میاں نامی ایک ماہرِ معاشیات کا مضمون نیویارک ٹائمز میں چھپا ہے۔ فاضل مضمون نگار موجودہ حکومت کی طرف سے منتخب کردہ ان ماہرین میں شامل تھے کہ جنہوں نے ہمیں در پیش معاشی مشکلات سے نکلنے کے لئے اپنی ماہرانہ آراء سے فیض یاب کرنا تھا۔ تاہم ہم نے موصوف کے انتخاب کو بوجوہ رد کردیا تھا۔ اب نوبت کیا یہاں تک آن پہنچی کہ غیر مسلم ہمیں مشوروں سے نوازیں گے؟ ابتدائی برسوں میں قائداعظم کے وزیرخارجہ غیر مسلم تھے تو ضرور کوئی خاص وجہ ہو گی۔

اپنے مضمون میں عاطف میاں لکھتے ہیں کہ گزشتہ 60 سالوں میں پاکستان کم از کم 13 مرتبہ اس قدر شدید مالی بحران کا شکار ہوا ہے کہ اسے ہر بار آئی ایم ایف کے سامنے مدد کے لئے ہاتھ پھیلانا پڑا۔ اگرچہ اَسی کے عشرے میں پاکستان کی فی کس آمدنی چین، بھارت اور بنگلہ دیش سے بہتر تھی تاہم عاطف میاں ہمیں بتاتے ہیں کہ اب جب کہ ہم خطے میں سب سے پیچھے رہ چکے، تو قصور دراصل ہمارا اپنا ہے۔ عاطف میاں کا دعویٰ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت کو اس امر کا احساس ہی نہیں کہ ساراملک قرض کی پیتا ہے جس کے نتیجے میں عوام مہنگائی اورغربت کی ہولناک گہرائیوں میں غرق ہو چکے ہیں۔

حیران کن طور پر مضمون نگار نے ملک کی معاشی تباہی کا ذمہ دار دو بنیادی عوامل کو ٹھہرایا ہے، اولاً پاکستان کی اشرافیہ کہ جو نا صرف اپنے بے بہا اثر و رسوخ اور باہمی گٹھ جوڑ کی بناء پر عشروں سے ملکی وسائل کو لوٹتی رہی، بلکہ لوٹی گئی دولت کو کمال مہارت کے ساتھ سمندر پار ٹھکانے بھی لگاتی رہی ہے۔ مصنّف کے مطابق یہی حکمران طبقہ ہماری معیشت پر پوری طرح قابض ہے۔ معاشی پالیسیوں کو کنٹرول کرتا، ٹیکس چوری اور سرکاری وسائل بشمول بیش قیمت سرکاری اراضیوں کو اپنے زیر تصرف لانے کے گر جانتا ہے۔ عاطف میاں نے الزام دھرا ہے کہ شہری اور دیہی اشرافیہ سات عشروں سے پاکستانی عوام کا خون چوس رہی ہے اور یہ کہ روایتی حکمراں طبقے کی امارت کے پیچھے ان کی اپنی قابلیت ہرگز کار فرما نہیں، بلکہ ان کی ذاتی تجوریوں کے لبا لب بھرے ہونے کا منبع دراصل کروڑوں محنت کش پاکستانیوں کی خون پسینے کی کمائی ہے۔ میں چونکہ ماہرِ معاشیات نہیں ہوں، لہٰذا عاطف میاں کے الزامات کی تکنیکی تصدیق یا تردید سے خود کو قاصر پاتا ہوں، تاہم ان کے پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے سمجھتا ہوں کہ ہو نا ہو، وہ دور کی کوڑی لائے ہیں۔

ویسے بھی مضمون نگار نے اپنے مضمون میں کوئی نئی بات نہیں لکھی۔ یہ باتیں تو معیشت کو سمجھنے والے کئی لوگ برسوں سے کہتے چلے آرہے ہیں۔ عاطف میاں اپنے آپ کو اگر بہت بڑا معاشی دانشور سمجھتے ہیں تو ان کو کوئی انوکھا خیال مارکیٹ میں لانا چاہئے۔ یوں بھی ہم سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف اغیار کی سازشیں ستر سالوں سے جاری ہیں۔ بالکل جیسے کفار صدیوں قبل اندلس کی اسلامی حکومت کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتے تھے۔ یقین نا آئے تو نسیم حجازی صاحب کے ناول پڑھ لیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے پیچھے بھی صیہونی چالیں ہی کارفرما تھیں۔ اس میں ہمارا کیا قصور تھا؟

عاطف میاں کوعمران خان سے بھی سخت گلہ ہے کہ لوٹ مار سے اکتائے عوام بالخصوص پڑھے لکھے متوسط طبقے نے ان کو تبدیلی کی امید کے ساتھ ووٹ دیئے اور وہ ان لٹنے والوں کی امیدوں پر پورا اترنے میں قطعی طور پر ناکام رہے ہیں۔ اب بندہ فاضل مضمون نگار سے پوچھے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ عمران خان شمشیر بکف، اسپ تازی پر سوار ملک میں انارکی پھیلانے کو نکل پڑیں۔ ایسا آپ کے ہاں مغربی دنیا میں ہوتا ہو گا۔ ہم سے ایسی امید نہ باندھیئے گا۔ ہمارے ہاں احتساب کے ادارے ہیں، عدالتیں ہیں، قانون ہے، آئین ہے۔ پاکستان میں جنگل کا راج تھوڑی ہے کہ جس کا جو جی چاہے کرتا پھرے، عوام کو جتنا جی چاہے لوٹے اور پھر من موجی سات سمندر پار بیوی بچوں سمیت سدھار جائے۔

ہماری معاشی زبوں حالی کے پیچھے دوسری بنیادی وجہ جو عاطف میاں نے بیان کی ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر مضحکہ خیز ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فاضل مضمون نگار اب کھل کر سامنے آنے والے ہیں۔ معاشی تجزیہ پیش کرتے کرتے اپنے دل کے آبلوں کو پھوڑنے پر اتر آئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ پاکستان میں معاشی زبوں حالی کی دوسری بنیادی وجہ مذہبی انتہا پسندی اور اس سے پھوٹنے والا نفرت کا بیانہ ہے۔ الزام دھرتے ہیں کہ عشروں سے پاکستان کی سول اور فوجی حکومتوں نے مذہبی تقسیم پر استوار نفرت کے بیانئے کو بالاہتمام فروغ بخشا ہے۔

حال ہی میں اسلام آباد میں مولانا کے دھرنے میں جو تقریریں فرمائی گئیں، فاضل مضمون نگاران کا حوالہ دینے سے بھی نہیں چوکے۔ ان کو گلہ ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی والے اس دھرنے میں مولانا کے ساتھ بالکل ایسے کھڑے رہے، جیسے پی ٹی آئی 2017ء میں مولانا رضوی کے دھرنے کی پشت پر کھڑی بتائی جاتی ہے۔ مذکورہ معاشی ماہر کا خیال ہے کہ خوف کے اس ماحول میں غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آنے سے ڈرتے ہیں۔ چنانچہ جہاں ملکی اشرافیہ کاروبار میں سرمایہ کاری کی بجائے گھر بیٹھ کر لگا بندھا کرایہ اور بینک بیلنس پر سود کھانے کو ترجیح دیتی ہے، وہیں خوف اور دہشت کا ماحول بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان آنے سے روکتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان میں سرمایہ کاری کا حجم اس کی مجموعی پیدوار کا 15% ہے، کہ جو خطے میں سرمایہ کاری کی اوسط شرح سے نصف ہے۔ چنانچہ مضمون نگار کے خیال میں ہم ’صارفین کی قوم‘ بن چکے ہیں۔ ایک ایسی قوم جو ایجادات اور کاروبار میں نت نئے خیالات کو آزمانے کی صلاحیتوں سے یکسر عاری ہو۔ جس کے پاس چار پیسے آگئے، وہ غیر ملکی مصنوعات خریدنے میں خوشی ڈھونڈتا ہے۔

میری رائے میں عاطف میاں کو بے پر کی اڑانے کے بجائے یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہماری دینی حمیت کا سوال کھڑا ہو جائے تو ہم اغیار کی بنائی ہوئی اشیاء کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔ دنیا کے کسی کونے میں کوئی احمق کسی شرانگیز حماقت کو اٹھے تو ہم اپنے ملک میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ سڑکیں بلاک کرتے ہیں، چوراہوں میں آگ لگاتے ہیں، دوکانوں مارکیٹوں اور اپنے ہی بینکوں کو لوٹ لیتے ہیں۔ اور پھر غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیتے ہیں۔

ہمارے معاشی بحرانوں کا الزام ہماری اشرافیہ اور ان کے لونڈے لپاڑوں کے سر دھرنے سے قبل میں عاطف میاں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان کے دل میں پاکستان کا درد اگر اس شدت سے اٹھتا ہے تو وہ سب چھوڑ چھاڑ خود وطن کیوں لوٹ نہیں آتے؟ یقیناَ ان کا عذر لنگ ہو گا کہ پاکستان میں اقلیتوں کی حب الوطنی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ہمارے موجودہ مشیرِ خزانہ اور گورنر سٹیٹ بنک جو کہ بظاہر کلمہ گو پاکستانی ہیں، ہم ان کو بھی اغیار کے کارندے سمجھتے اور اسی نام سے پکارتے ہیں۔ پس ثابت ہو اکہ ہم اقلیتوں سے امتیازی سلوک نہیں کرتے۔

 ہماری اشرافیہ کو معاشی بحرانوں کا ذمہ دار ٹھہرانے سے پہلے عاطف میاں یاد رکھیں کہ حکمران خاندانوں کے مال و اسباب اور جائیدادیں اگرچہ بیرون ملک ہیں، لیکن وہ پھر بھی ہمارے ہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ پورے کے پورا خاندان اگر لندن میں ہو تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ واپس نہیں آئیں گے۔ ضرور آئیں گے اور عوام کے کاندھوں پر چڑھ کر آئیں گے۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ چنانچہ یہ حق صرف عوام کوحاصل ہے کہ وہ جسے چاہے اپنے اوپر مسلط کریں۔ اگرچہ میڈیا ہمارے ہاں آزاد نہیں مگرسوشل میڈیا تو بالکل آزاد ہے۔ چنانچہ عاطف میاں جیسے شخص کو ہمارے معاشی معاملات پر بنِ بلائے رائے زنی کے باب میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).