کورونا وائرس: کیا آپ جانتے ہیں کہ سماجی دوری یا خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟


Woman looking out of window

جب ہمیں کسی عالمی وبا کا سامنا ہو تو عام آدمی کے لیے اس سے متعلق معلومات کا حصول اہم ہوتا ہے۔

ان معلومات میں اپنے تحفظ کی معلومات سب سے اہم ہوتی ہیں لیکن اکثر یہ معلومات لوگوں کو الجھن میں بھی مبتلا کر دیتی ہیں کیونکہ وہ ان اصطلاحات کا مطلب سمجھ نہیں پاتے جنھیں اختیار کرنے کا مشورہ انھیں دیا جا رہا ہوتا ہے۔

کورونا وائرس کے عالمی پھیلاؤ کے بعد ’سوشل ڈسٹینسنگ‘ یا ’سیلف آئسولیشن‘ جیسی اصطلاحات بھی کچھ ایسے ہی الفاظ ہیں۔ بی بی سی کے اس مضمون کی مدد سے جانیے کہ سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی اختیار کرنے کا مطلب کیا ہے اور یہ کہ آپ ان اقدامات کی وجہ سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

’سوشل ڈسٹینسنگ‘ یا سماجی دوری کیا ہے؟

عوامی صحت کے تناظر میں سوشل ڈسٹینسگ کا مطلب وہ اقدامات ہیں جن کے ذریعے آپ لوگوں کے بڑے گروہوں سے دور رہ سکتے ہیں۔

عام فہم انداز میں اگر سماجی دوری کا مطلب نکالا جائے تو وہ یہ ہے کہ باقی لوگوں سے تمام غیر ضروری رابطہ ختم کر دیا جائے اور کسی بھی قسم کے غیر ضروری سفر سے بھی گریز کیا جائے۔

کورونا وائرس

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کورونا وائرس: دنیا بھر میں لاک ڈاؤن پر کیسے عمل ہو رہا ہے؟

کورونا وائرس: کیا آپ کو خود ساختہ تنہائی کی ضرورت ہے؟

کورونا کے مریض دنیا میں کہاں کہاں ہیں؟

کورونا کے خوف میں تنہائی کیسی ہوتی ہے؟

کورونا وائرس: آپ کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟


اگر آپ سماجی دوری اختیار کر رہے ہیں تو آپ کو ایسے تمام افراد سے رابطہ منقطع یا کم سے کم کر دینا چاہیے جن سے ملنا انتہائی ضروری نہیں۔

یعنی کہ آپ شاپنگ مراکز، سنیما، کلب یا باغات جیسے عوامی مقامات پر جانے سے گریز کریں۔

ممکن ہو تو دفتر بھی نہ جائیں اور گھر سے کام کریں۔ اس کے علاوہ کسی بھی ایسے مقام کا سفر کرنے سے گریز کریں جہاں جائے بغیر آپ کا گزارہ نہ ہو۔

اگر آپ کسی فرد سے مل بھی رہے ہیں تو کوشش کریں کہ اس سے آپ کا فاصلہ کم از کم ایک میٹر ہو۔

https://twitter.com/FaheemYounus/status/1239710932059787265

حکومتِ پاکستان نے سماجی دوری کے لیے تعلیمی ادارے، عوامی اور مذہبی مقامات بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پنجاب کی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین نے بھی عوام سے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے اس بندش کا مطلب انھیں سیر و تفریح کا موقع فراہم کرنا نہیں بلکہ ان کا تحفظ ہے اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں پر رہیں۔

سیلف آئسولیشن یا خود ساختہ تنہائی کیا ہے؟

سیلف آئسولیشن یا خود ساختہ تنہائی سماجی دوری سے ایک قدم آگے کی بات ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ خود کو دنیا بھر سے الگ کر لیں اور اپنے گھر میں بھی رابطہ محدود کریں۔

یہ عمل ایسے افراد اختیار کر رہے ہیں جو یا تو کسی ایسے ملک سے آئے ہیں جہاں کورونا موجود تھا یا پھر ان کے کسی قریبی فرد میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔

خود ساختہ تنہائی اختیار کرنے والوں میں عام لوگوں کے علاوہ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹس ٹروڈو اور پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی بھی شامل ہیں۔ جسٹن ٹروڈو نے اپنی اہلیہ میں کورونا کی تصدیق جبکہ شاہ محمود قریشی نے چین کے دورے سے واپسی پر پانچ سے سات دن تک تنہا رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://youtu.be/hXE8Xy0NIR0

اس سلسلے میں ‘عام فہم’ اقدامات میں ایک ہوادار کمرے میں رہنا شامل ہے جس کی کھڑکیاں کھل سکیں۔ اس کے علاوہ آپ کو گھر کے باقی لوگوں سے دور رہنا ہو گا اور آپ سے ملاقات کے لیے مہمان نہیں آ سکتے۔

اگر آپ کو سودا سلف، ادویات یا دیگر سامان کی ضرورت ہو تو کسی کی مدد حاصل کریں۔ دوستوں، خاندان والوں یا سامان پہنچانے والے ڈرائیور کی مدد سے سامان حاصل کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سامان دروازے کے نیچے سے سرکایا جا سکتا ہے۔ اگر سامان وزنی ہے تو دینے والے کو سامان دروازے پر رکھ کر جانا ہو گا۔ آپ ان سے نہیں مل سکتے۔

اگر آپ نے خود کو الگ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور گھر کا کچن مشترکہ ہے تو ایسے اوقات میں کچن استعمال کرنے سے گریز کیجیے جب گھر کا دوسرا فرد وہاں موجود ہو۔ کھانا اپنے کمرے میں لے جا کر کھائیے۔

اگرچہ آپ کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ آپ مکمل طور پر اپنے آپ کو گھر والوں یا ساتھ رہنے والوں سے الگ کر سکیں لیکن ہر ممکن کوشش کریں کہ کم سے کم آمنا سامنا ہو جبکہ گھر میں ساتھ رہنے والوں سے کم از کم چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں اور الگ سوئیں۔

کورونا وائرس

ایسے افراد جو خود ساختہ تنہائی میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں، انھیں اپنے ہاتھ صابن اور پانی کے ساتھ باقاعدگی سے کم از کم 20 سیکنڈ کے لیے دھونے چاہییں۔

آپ کو خود ساختہ تنہائی میں رہنے والے افراد کے تولیے،ضرورت کی اشیا استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہییے۔

ان کے لیے الگ بیت الخلا ہونا چاہیے اور اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو خود ساختہ تنہائی میں رہنے والے شخص کو سب سے آخر میں بیت الخلا استعمال کرنا چاہیے اور استعمال کے بعد اسے اچھی طرح سے صاف کرنا چاہیے۔

یہ بھی خیال رہے کہ سیلف آئسولیشن اور آئسولیشن ایک چیز کے دو نام نہیں۔

سیلف آئسولیشن کے لیے آپ کا بیمار ہونا ضروری نہیں جبکہ طبی سائنس کی زبان میں آئسولیشن کا مطلب کسی متعدی بیماری کا شکار فرد کو مکمل تنہائی میں رکھنا ہے تاکہ اس سے یہ بیماری کسی تندرست شخص کو نہ لگ سکے۔

قرنطینہ کا کیا مطلب ہے؟

کورانٹین یا قرنطینہ کا لفظ انگریزی زبان میں اطالوی زبان سے آیا۔ اطالوی میں 40 کے ہندسے کے لیے کوارنتا کا لفظ ہے جبکہ کوارنتینا کا مطلب 40 دن کا وقت ہے۔

میڈیکل سائنس کی زبان میں قرنطینہ کا مطلب بیرونِ ملک سے آنے والے انسانوں یا وہاں سے لائے گئے جانوروں کو مخصوص مدت کے لیے الگ تھلگ اور تنہائی میں رکھنا ہے۔

People image

ایسے افراد کو قرنطینہ میں رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے جو کسی ایسے علاقے سے آئے ہوں جہاں کوئی وبا یا متعدی بیماری پھیلی ہوئی ہو تاہم ان میں اس بیماری کی علامات ظاہر نہ ہوئی ہوں۔

انھیں دیگر افراد سے الگ رکھنے کی وجہ بیماری کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنا ہوتا ہے۔

ماہرِ وبائی امراض ڈاکٹر ممتاز علی خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قرنطینہ کا تعلق ہسپتال سے نہیں اور یہ سہولت کمیونٹی کے اندر مہیا کی جا سکتی ہے جہاں مشتبہ افراد زیر معائنہ رہتے ہیں جبکہ آئسولیشن کا تعلق ہسپتال سے ہے، جہاں تشخیص کے بعد علاج شروع ہوجاتا ہے۔

ان کے مطابق قرنطینہ کے دوران ایک فرد کو ایک علیحدہ کمرے میں رکھا جاتا ہے جو کسی ایسی جگہ یا ملک سے واپس آیا ہو جہاں یہ وبا پہلے سے موجود تھی۔

ان کے مطابق قرنطینہ میں رکھے گئے افراد میں کورونا کی علامات کو مانیٹر کیا جاتا ہے اور اگر کسی میں اس کی تشخیص ہو جائے تو پھر ایسے فرد کو ہسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے اور اسے آئسولیشن کہا جاتا ہے۔

لاک ڈاؤن کا کیا مطلب ہے؟

کورونا کی وبا کا اثر جن ممالک میں زیادہ ہے وہاں شہروں کے لاک ڈاؤن جیسے اقدامات بھی سامنے آئے ہیں۔

اس وبا کے پھیلنے کے بعد پہلا لاک ڈاؤن چین کے شہر ووہان میں کیا گیا۔ ووہان ہی وہ شہر ہے جہاں سے کورونا کی وبا شروع ہوئی تھی۔

اس کے بعد لاک ڈاؤن کے اعلانات اٹلی، فرانس اور سپین میں سامنے آئے اور اٹلی میں تو پورا ملک ہی لاک ڈاؤن کا سامنا کر رہا ہے۔

سپین

اٹلی میں حکومت نے چھ کروڑ کی آبادی کو گھروں میں رہنے کو کہا ہے۔ وہاں سب سے پہلے ملک کے شمالی حصوں میں سفری پابندیاں عائد کی گئیں جس کے بعد انھیں پورے ملک تک پھیلا دیا گیا۔

اب صرف انتہائی ضرورت کے تحت ہی کوئی گھر سے باہر نکل سکتا ہے اور ایسی صورت میں انھیں اپنے ساتھ ایک فارم رکھنا ہوگا کہ ان کا سفر کرنا کیوں ضروری ہے۔ پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے کو 206 یورو (235 ڈالر) تک کا جرمانہ یا تین ماہ جیل بھی ہو سکتی ہے۔

فرانس اور سپین میں بھی بلاضرورت گھر سے نکلنے پر عوام کو جرمانے ادا کرنے پڑ سکتے ہیں۔ وہاں تمام عوامی مقامات کو بند کر دیا گیا ہے۔ سپین کے وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے عوامی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے لوگوں سے کہا ہے کہ تب تک گھر سے نہ نکلیں جب تک کوئی مجبوری نہ ہو۔

پاکستان میں اب تک صرف سندھ کی حکومت نے جزوی ’لاک ڈاؤن‘ کا اعلان کیا ہے جس کے تحت صوبے بھر میں تمام ریستوران اور شاپنگ مراکز بدھ سے 15 دن کے لیے بند کر دیے گئے ہیں تاہم کریانہ سٹور کے علاوہ سبزی اور گوشت اور دیگر اشیائے ضرورت کی دکانیں کھلی رہیں گی۔

فیصلے کے مطابق صوبے کے عوامی پارک اور کراچی میں ساحلِ سمندر بھی بدھ سے بند کر دیا گیا ہے جبکہ تمام اقسام کی اجتماعات کے اجازت نامے بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق صوبے میں سرکاری دفاتر بھی جمعرات سے بند کر دیے جائیں گے جس کا نوٹیفکیشن چیف سیکریٹری جاری کریں گے۔

سندھ میں کورونا سے بچاؤ کے اقدامات کے تحت صوبے کے تمام نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے پہلے ہی 31 مئی تک بند کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبے بھر میں شادی ہال، سینما گھر، مزار اور درگاہیں تین ہفتوں کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔

ہینڈ سینیٹائزنگ

کورونا وائرس کے حالیہ پھیلاؤ کے بعد فوراً ہی ماہرین کی جانب سے اس بات پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے ہاتھوں کو وائرس سے پاک رکھنے اور اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے انھیں اچھے طریقے سے صابن سے دھوئیں یا ہینڈ سینیٹائزر استعمال کریں۔

مگر ہینڈ سینیٹائزر کیا ہاتھ دھونے کا متبادل ثابت ہوسکتے ہیں؟

امریکی حکومت کے بیماریوں کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ذمہ دار ادارے سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے مطابق الکوحل کے حامل ہینڈ سینیٹائزر ہاتھوں پر موجود جراثیم کو فوراً کم کر سکتے ہیں مگر کچھ صورتوں میں یہ تمام جراثیم ختم نہیں کرتے کیونکہ لوگ اکثر سینیٹائزر زیادہ مقدار میں استعمال نہیں کرتے یا اسے خشک ہونے سے قبل صاف کر دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ ماہرین کے مطابق یہ ہاتھ دھونے کا متبادل یوں نہیں ہوتے کیونکہ جب ہاتھوں پر گریس یا غلاظت لگی ہوئی ہو تو ہینڈ سینیٹائزر اسے صاف نہیں کر سکتے، چنانچہ اگر ہاتھ گندے ہوں تو سی ڈی سی صابن اور پانی سے ہاتھ دھونے کی تجویز دیتا ہے۔

سی ڈی سی کے مطابق وہ کم از کم 60 فیصد الکوحل رکھنے والے ہینڈ سینیٹائزرز کے استعمال کی ہی تجویز دیتے ہیں، مگر وہ بھی تب جب ہاتھ صاف کرنے کے لیے صابن اور پانی موجود نہ ہو، کیونکہ ہاتھوں سے نقصان دہ ذرات، کیمیکلز اور تمام طرح کے جراثیم اور وائرس صرف اسی صورت میں صاف ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32565 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp