جنوبی کوریا میں خفیہ کیمروں کا نشانہ بننے والی خواتین: ’مجھ سے بار بار پوچھا گیا کہ کیا آپ کی فلم اس لیے تو نہیں بنائی گئی کیونکہ آپ کو یہ پسند ہے‘

لاؤرا بکر - بی بی سی نیوز، سیئول


عورت
کیونگ می (فرضی نام) کا انٹرنیٹ پر مذاق اڑایا گیا اور ان کی تضحیک کی گئی جبکہ پولیس اور حکام نے ان سے گھنٹوں پوچھ گچھ کی۔ اس کی وجہ تھی کہ کیونگ می نے جنوبی کوریا کے مشہور ’کے پاپ‘ موسیقار اور اپنے بوائے فرینڈ پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے کیونگ می کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے ان کی فلمبندی کی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وہ ایک ڈیجیٹل جرم میں نشانہ بنیں لیکن ’کوئی بھی ان کی بات سننے کے لیے موجود نہیں تھا۔‘

’میں سکول میں تھی، نوجوان تھی اور اکیلی تھی۔ میرے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا۔ میں بس مرنا چاہتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا اور اگر میں مر گئی، تو جُنگ جُون یونگ کے بارے میں کوئی حقیقت نہیں جان سکے گا۔‘

ان کے بوائے فرینڈ ٹی وی پر چلنے والے ایک ٹیلنٹ شو کی مدد سے سٹار بن گئے اور مشرقی ایشیا میں ان کے شائقین کی تعداد بہت زیادہ تھی۔

کیونگ می ان کے بارے میں کہتی ہیں کہ وہ ان پر توجہ دینے والے اور رحمدل بوائے فرینڈ تھے لیکن انھوں نے پھر ان دونوں کے درمیان سیکس کی بغیر اجازت ویڈیو بنائی۔

وہ پہلے تو پولیس کے پاس اگست سنہ 2016 میں گئیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ پولیس جُنگ جُون یونگ کا فون حاصل کرنے میں ناکام رہی اور پھر کیونگ می نے کیس ختم کر دیا۔

وہ جانتی تھیں کہ کسی معروف شخصیت کے خلاف کیس کرنا مشکل ہو گا لیکن انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کے ساتھ ایسا رویہ برتا جائے گا کہ جیسے ان پر الزام لگایا گیا ہو، نہ کہ انھوں نے الزام لگایا ہو۔

’پولیس افسر نے مجھے کہا کہ اس واقعے کی رپورٹ نہ کرو۔ انھوں نے کہا کہ ایک سیلبریٹی کے خلاف کیس بنانا مشکل ہو گا۔ پھر پراسیکیوٹر نے اسے نہیں بلکہ مجھے تفتیش کے لیے بلایا۔ مجھ سے بار بار یہ پوچھا گیا کہ کیا آپ کی فلم اس لیے تو نہیں بنائی گئی کیونکہ آپ کو یہ پسند ہے؟‘

’مجھے بے عزت کیا گیا، مجھے ڈرایا گیا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ کیا میں نے کسی معصوم شخص کے خلاف تو مقدمہ نہیں دائر کر دیا۔‘

جُنگ جُون یونگ کے بارے میں سچ سامنے آنے میں مزید تین سال لگے جب ان کی حقیقت ایک جج کے سامنے پیش کی گئی۔

سنہ 2019 میں پولیس کو ان کے فون پر ویڈیوز کے بارے میں اطلاع ملی اور آخر کار ان کے فون کو ضبط کرنے کا وارنٹ جاری کیا گیا۔

پولیس کو پتا چلا کہ جُنگ جُو نے 12 خواتین کی خفیہ تصاویر بنا رکھی تھیں اور ایک چیٹ روم میں اپنے دوستوں کے ساتھ انھیں شیئر بھی کیا تھا۔

جُنگ جُون اب پانچ برس کے لیے جیل میں ہیں۔

پولیس کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ کیونگ می کے کیس میں شامل آفیسروں سے تحقیقات بھی ہو رہی ہیں۔

جُنگ جُون یونگ

’یہ نفرت آمیز جملے خواتین کو مار سکتے ہیں‘

بوائے فرینڈ کی قید کے بعد کیونگ می کو کچھ حمایت ملی لیکن سنہ 2016 میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی جنھوں نے ان پر اعتبار کیا تھا۔ انھیں آن لائن ہراساں کیا گیا اور ان کے لیے دوست ڈھونڈنا مشکل تھا۔

’میرے دوستوں نے کہا کہ میں اس کی زندگی تباہ کر رہی ہوں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ میں نے کتنا نقصان اٹھایا اور میڈیا سارا دن میرے بارے میں بات کرتا۔ پورا ملک میرے بارے میں بات کر رہا تھا۔ کسی نے مجھے تحفظ نہیں دیا۔‘

انھوں نے بی بی بی کو بتایا کہ ’یہ نفرت آمیز جملے خواتین کو مار سکتے ہیں۔‘

بدقسمتی سے جنوبی کوریا میں حکام کو ڈیجیٹل جنسی جرائم کی اطلاع دینے کی کوشش کرنے کا ان کا یہ تجربہ کوئی انوکھا نہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے ملک میں ایسے متاثرین کے بارے میں ایک تفصیلی سروے مرتب کیا ہے جس سے پتہ چلا ہے کہ انھیں انصاف کی راہ میں بڑی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دنیا بھر میں ڈیجیٹل جنسی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان واقعات میں زیادہ تر مرد ملوث ہوتے ہیں جو خواتین اور لڑکیوں کی خفیہ تصاویر اور ویڈیوز بناتے اور فوٹیج شیئر کرتے ہیں۔‘

ٹیکنالوجی میں پیشرفت کا مطلب ہے کہ یہ کیمرے سائز میں انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں، قمیض کے بٹن کے سائز کے اور انھیں عوامی مقامات پر غسل خانوں، ہوٹل کے کمروں اور کپڑے تبدیل کرنے کے کمروں میں لگایا جا سکتا ہے۔

جنوبی کوریا میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ تصاویر جلدی سے ڈاؤن لوڈ اور شیئر ہو جاتی ہیں اور کبھی کبھی فروخت بھی کر دی جاتے ہیں۔

سنہ 2013 سے 2018 کے درمیان جنوبی کوریا میں پولیس کو خفیہ کیمروں سے فلم بنانے کے 30 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ کیے گئے۔

رپورٹ کی مصنف ہیتھر بار نے ہمیں بتایا کہ ’جن متاثرہ افراد کے ہم نے انٹرویو کیے ان کے پولیس کے ساتھ تجربات خوفناک تھے۔‘

’انتہائی حساس معاملات پر متاثرین سے پوچھ گچھ کھلے مقامات پر کی جاتی، ان سے گھنٹوں پوچھ گچھ کی جاتی، انھیں بتایا جاتا کہ سارے ثبوت جمع کرنا ان کا کام تھا، انھیں ایک دفتر سے دوسرے دفتر بھیجا جاتا، انھیں مقدمہ ختم کرنے کے لیے ہراساں کیا جاتا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان پر مجرمانہ ہتک عزت کا مقدمہ چلانے کی دھمکی دی جاتی۔‘

’ہم نے یہ بھی سنا کہ پولیس متاثرین کی قابل اعتراض تصاویر ثبوت کے طور پر لے لیتی اور اپنے دوستوں کے ساتھ ہنسنے کے لیے انھیں پولیس سٹیشن میں پھیلایا جاتا۔‘

’اس طرح کے برتاؤ کے بارے میں تصور کریں جب شاید آپ پہلے سے ہی اپنی زندگی کے بدترین دور سے گزر رہے ہوں۔

بی بی سی نے اس بارے میں ردعمل کے لیے جنوبی کوریا کی پولیس سے رابطہ کیا اور ایک ترجمان نے ہمیں ایک تحریری بیان جاری کیا جس میں ان مسائل کو حل کرنے کے لیے متعدد اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

انھوں نے ہمیں بتایا کہ سائبر سیکس جرائم کی تحقیق کے لیے ملک کے ہر صوبے اور شہر میں ایک ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ہم تفتیش اور ضابطے کے لیے اور اس کے ساتھ ساتھ متاثرین کے تحفظ اور مدد کے لیے ایک سے زیادہ حل تشکیل دے رہے ہیں۔‘

پولیس نے باقاعدہ طور پر اپنے افسران کو اس بارے میں تعلیم دینے اور متاثرین کو اپنی ہی صنف کا تفتیش کار دینے کا وعدہ کیا تاکہ وہ زیادہ آرام دہ محسوس کریں۔ اس کے علاوہ ایک امدادی مرکز بھی قائم کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سیول: ٹوائلٹس میں خفیہ کیمروں کے لیے روزانہ کھوج

ٹرائل روم میں خفیہ کیمرہ: ’کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے‘

’بیٹی کو خفیہ کیمرے کے ذریعے ہوئے جنسی جرم سے شدید تکلیف پہنچی’

عورت

’آپ ہتھیاروں کے بغیر بھی کسی کو مار سکتے ہیں‘

لیکن کچھ لوگوں کے لیے یہ صدمہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ، جس میں 500 متاثرین کا آن لائن کیا گیا سروے شامل ہے، کے مطابق اس جرم کی اذیت اتنی شدید تھی کہ متاثرہ افراد میں اس سے ڈپریشن اور خودکشی کے خدشات پیدا ہوئے۔

میں نے گذشتہ چار برس کے دوران اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر خفیہ کیمروں کا نشانہ بننے والے کئی افراد اور ان کی فیملی کے انٹرویو بھی کیے۔ ان میں ایک ایسی خاتون کے والدین بھی شامل ہیں جنھوں نے اپنی جان لے لی کیونکہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک ساتھی نے دفتر کے کپڑے بدلنے والے کمرے میں ان کی خفیہ ویڈیو بنائی تھی۔

انھوں نے محسوس کیا ہو گا کہ وہ اس بدسلوکی کے بدنما داغ سے کبھی آزاد نہیں ہو سکیں گی۔

اس خاتون کے والد نے مجھے سنہ 2019 میں بتایا کہ ’آپ ہتھیاروں کے بغیر بھی کسی کو مار سکتے ہیں۔‘

’اس کی وجہ سے ہونے والا نقصان شاید سب کے لیے ایک جیسا ہو لیکن ہر شخص پر اس کا مختلف اثر پڑ سکتا ہے۔ کچھ لوگ شاید آگے بڑھنے کے قابل ہو جاتے ہیں لیکن میری بیٹی جیسے دیگر لوگ شاید ایسا نہیں کر پاتے۔‘

کیونگ می چاہتی ہیں کہ جنوبی کوریا کا معاشرہ ڈیجیٹل سیکس جرائم کا نشانہ بننے والے افراد کو دیکھنے کے بارے میں اپنی سوچ پر نظر ثانی کرے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’متاثرین ایسے لوگ نہیں ہوتے جن کے ساتھ آپ برا سلوک کر سکیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ اس جرم کا نشانہ اس لیے بنے کیونکہ وہ بے وقوف تھے یا انھیں کچھ خبر نہ تھی۔‘

’یہ بس ایسا ہے کہ وہ خوش قسمت نہیں تھے۔ اگر آپ خوش قسمت نہیں تو آپ بھی نشانہ بن سکتے ہیں۔‘

دیہی علاقوں میں کیونگ می کو کچھ سکون ملا۔

’نفسیاتی مدد حاصل کرتے ہوئے میں نے سکول چھوڑ دیا۔ میں دیہی علاقوں میں چلی گئی جہاں مجھے کوئی نہیں جانتا تھا اور یہ سوچتے ہوئے کہ دنیا کو بدلنا ہو گا، میں نے خاموشی سے ہزاروں کتابیں پڑھیں۔ جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے دیگر افراد سے بات چیت نے بھی میرے زخم کو بھرا۔‘

’میں نے درد کو اس امید کے ساتھ برداشت کیا کہ ایک دن حقیقت سامنے آئے گی اور معاشرے میں آگاہی میں اضافہ ہو گا۔‘

احتجاج

AFP/Getty

معاشرے میں بڑھتا شعور

جنوبی کوریا کا دارالحکومت سیئول کافی متحرک نظر آتا ہے لیکن یہ ملک انتہائی قدامت پسند ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے کئی حصوں میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا جاتا جتنی اس کی ضرورت ہے اور خواتین سے اکثر توقع کی جاتی ہے کہ وہ معاشرے کے کچھ معیاروں کو برقرار رکھیں اور صنف کے دقیانوسی ڈھانچے میں خود کو ڈھال لیں۔

ڈیجیٹل جنسی جرائم کے شکار افراد کو کچھ لوگ ’گندگی‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔

میں نے سنہ 2018 میں ایک خاتون کا انٹرویو کیا جن کے بوائے فرینڈ نے ان کے کمرے میں ایک چھوٹا خفیہ کیمرہ لگا رہا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب انھوں نے اس بارے میں اپنے والدین کو بتایا تو ان کی والدہ نے ان کے لباس کو مورد الزام ٹھہرایا۔

تاہم رویوں میں آہستہ ہی صحیح لیکن اب تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے۔

نوجوان خواتین کو خاص طور پر یہ احساس ہو رہا ہے کہ وہ اس بارے میں کھل کر بات کر سکتی ہیں۔ سنہ 2018 میں ہزاروں خواتین خفیہ کیمروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں اور ’میری زندگی آپ کا پورن نہیں‘ کی ریلیوں میں شرکت کی۔

ان مظاہروں کے جواب میں کچھ قوانین میں ترمیم کی گئی لیکن مجرموں کو دے جانے والی سزائیں اکثر کم ہی ہوتی ہیں۔

ہیتھر بار کہتی ہیں کہ ’ہر متاثرہ شخص اور ماہر جس سے ہم نے بات کی، وہ سب ججز کی جانب سے مجرموں کو ملنے والی کم سزاؤں پر مایوس تھے اور ہم نے محسوس کیا کہ وہ ٹھیک تھے۔‘

سنہ 2020 میں بغیر رضا مندی کے فلم بنانے والے مجرموں میں سے 79 فیصد کو معطل کیا گیا یا جرمانے کی سزا سنائی گئی یا کبھی کبھی دونوں سزائیں بھی سنائی گئیں۔

’سیکس کرائم ایکٹ کے تحت بغیر رضامندی کے فلم بندی کرنا اور اسے پھیلانے پر زیادہ سے زیادہ سات برس تک قید کی سزا ہے جبکہ اس میں کم سے کم سزا کا تعین نہں کیا گیا اور یہ بات واضح ہے کہ اب جو سزائیں سنائی جا رہی ہیں وہ اکثر متاثرین کو پہنچنے والے نقصان سے کہیں کم ہیں۔‘

ہیتھر بار حکومت سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ موجودہ سزاؤں کی مناسبت اور ڈیجیٹل جنسی جرائم کے حل کے لیے ایک کمیشن تشکیل دے۔

اس میں متاثرین کو کسی سول مقدمے میں عدالت میں ہرجانے کی اجازت دینا شامل ہو گا، ایک ایسی چیز جو متاثرین اس وقت نہیں کر سکتے ہیں۔

کیونگ می بھی متاثرین کے قانونی تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہیں تاکہ انھیں آن لائن بدسلوکی سے بچایا جا سکے۔

انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’کوریائی معاشرے کو اب متاثرین کے دکھوں کو جاننے اور قانونی طور پر متاثرہ افراد کی حفاظت کے لیے ایک نظام کی ادارہ سازی کرنے کی ضرورت ہے۔‘

کوریا کی وزارت انصاف نے بی بی سی کو بتایا کہ متاثرین کی تکلیف کی صحیح عکاسی کے لیے سزا کے حوالے سے گائیڈ لائنز میں تبدیلی لائی گئی جو اس برس جنوری سے لاگو ہیں۔

ہیتھر بار نے کہا کہ ’یہ جنوبی کوریا میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے ایک بہت اہم معاملہ ہے۔‘

’ڈیجیٹل سیکس جرائم اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ جنوبی کوریا میں خواتین اور لڑکیوں کی زندگیاں کیسی ہیں، وہ عوامی مقامات پر، نقل و حمل کے دوران، ٹوائلٹ استعمال کرتے وقت، لباس پہنتے ہوئے اور کسی پر اعتبار کرتے ہوئے کیسا محسوس کرتی ہیں۔‘

’یہ فوری طور پر اہم ہے کہ حکومت ان جرائم کی روک تھام اور متاثرین کے لیے انصاف اور معاوضے کو یقینی بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ اقدامات کرے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32607 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp