طالبان کا افغانستان: ’اپنے گھر مت جائیں، آپ کے شوہر اور بچے وہاں اب نہیں ہیں، طالبان آ گئے ہیں‘


افغانستان
افغانستان پر طالبان کے حالیہ قبضے کے بعد سے بڑی تعداد میں لوگ پاکستان سمیت دیگر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ طالبان کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گذشتہ دور کے مقابلے میں تبدیل ہو چکے ہیں جبکہ خواتین کی تعلیم و ملازمت سمیت دیگر حقوق کے بارے میں بھی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔

بی بی سی اُردو نے طالبان کے گذشتہ دور اور اُس وقت کے افغانستان کے حالات کا احاطہ کرنے کے لیے قسط وار مضامین کا سلسلہ شروع کیا ہے جس کی چوتھی قسط قارئین کے لیے پیش ہے جس میں ایک خاتون کی کہانی بیان کی جا رہی ہے۔

ان کی شناخت کے تحفظ کے لیے اُن کا نام مخفی رکھا گیا ہے۔


میری ماں اُس وقت پاکستان آئیں جب طالبان نے نوے کی دہائی میں کابل میں ڈاکٹرنجیب کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان سے متصل مشرقی صوبے ننگرہار پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

اُس کے بعد ہم چار بہن بھائی پاکستان میں پیدا ہوئے۔

اب بھی جب وہ ان دنوں کو یاد کرتی ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے ڈراؤنے خوابوں کو یاد کر کے بے چین ہوگئی ہوں۔

ان سب واقعات کو بیتے ہوئے 20 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے لیکن اب بھی جب ان کے سامنے افغانستان میں اس کہانی کے دہرانے یا طالبان کے آنے کا ذکر آتا ہے تو ہم بات کا رخ ہی موڑ لیتے ہیں اور اگر ٹی وی پر ایسی کوئی خبر آ رہی ہو تو یا تو ہم ٹی وی کو بند کردیتے ہیں یا چینل بدل لیتے ہیں۔

اب میری والدہ کی عمر 50 سال سے اوپر ہے اور وہ ہماری خاطر افغانستان چھوڑ کر پاکستان میں رہتی ہیں۔

بچپن سے لے کر 22 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے میں اپنی ماں کی زبانی یہ کہانیاں سینکڑوں نہیں تو درجنوں بار تو سن چکی ہوں اوراب تو ایسے لگتا ہے جیسے میں خود بھی اس دور سے گزر کر آئی ہوں۔

میری ماں کے علاوہ گھر کے بڑے بزرگ مرد اور میرے بھائی جب بھی افغانستان کے حالات کے بارے میں بات کرتے رہے ہوتے تو وہ اپنے خاندان کی کہانی کو ضرور یاد کر کے اس کی یادیں ہمارے سامنے دہراتے۔

ان سب اور خصوصاً میری ماں کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ جب پہلی بار طالبان کابل میں آئے تو میری ماں کا خاندان کابل میں رہتا تھا۔

کابل

وہ خاندان قبیلے کی سرداری کے ساتھ حکومت کے ساتھ بھی شریک تھا اور شہر میں خشک میوہ جات و کراکری کے اچھے خاصے بڑے کاروبار کا بھی حامل تھا۔

یہ ڈاکٹر نجیب کا دور تھا اور اس زمانے میں ہمارے میں خاندان کو بہت عزت ملتی تھی۔

لیکن پھر دن بدلنے لگے، ہمارے آنگن کی خوشیاں ماند پڑنے لگیں اور ایسا لگا جیسے ہم سب کو کسی کی نظر لگ گئی ہو۔

خبریں آنے لگیں کہ طالبان نامی تنظیم وجود میں آئی ہے جو افغانستان میں امن اور اسلام نافذ کرنے کے نعرے پر قبضے کے خواہش مند تھے۔

اس امن کے قیام کے لیے وہ ہر اس شخص کو ختم کرنے کے لیے گھروں اورمحلوں میں داخل ہو رہے تھے جو ان کے راستے میں کسی بھی طرح رکاوٹ بن سکتا تھا۔

ہمارے گھر میں بھی خبریں آنے لگیں کہ ہمارے بزرگوں کی بھی تلاش شروع ہو گئی ہے کیونکہ ان کے نام بھی ان فہرستوں میں شامل تھے جو طالبان کو مطلوب تھے۔

طالبان کی سخت گیری کے قصے ہمارے گھروں میں بھی پہنچے اور میڈیا میں بھی اس کا چرچا ہونے لگا۔

ہمارے خاندان سمیت کابل کے پوش آبادی کے مردوں کی میٹنگز شروع ہوئیں اور اُنھوں نے اس نئی آفت سے بچنے کے لیے منصوبے بنانے شروع کیے، لیکن ساتھ ہی وہ اس بات پر بھی متفق تھے کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں کیونکہ طالبان بہت منظم ہیں اور کابل میں جمع ہونے والے یہ سب متمول لوگ مقابلے کے بجائے یہاں سے نکلنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔

میری ماں کہتی ہیں کہ ایک رات تو جیسے سب پر قیامت ٹوٹ پڑی۔

ارد گرد کے علاقوں سے شور اٹھا کہ طالبان کابل آ چکے ہیں اور اب ان سے بچنا ممکن نہیں رہا۔

بس پھر کیا تھا، ہمارے بھرے پرے گھروں سے لوگوں نے اپنی سب سے قیمتی اشیا یعنی بچوں اور کچھ نقدی و زیورات لیے اور بھاگ لیے۔

سفر

راستے کا سفر کٹھن تھا، اگلے تین دن ہم چھپتے چھپاتے صرف اس قابل ہوئے کہ کابل کی حدود سے ہی نکل سکیں اور ہوتے ہوتے ہم 10 دن کے اندر پاکستان سے لگے صوبے ننگرہار میں اپنے گاؤں پہنچ گئے۔

میری والدہ بتاتی ہیں کہ گاؤں آنے کی بڑی وجہ وہاں کابل سے جدا طرز زندگی اور رہن سہن تھا جس میں ہمیں زیادہ آسانی سے رہنے کا موقع مل سکتا تھا۔

اس سارے عمل کے دوران یعنی کابل کی خوشحال زندگی سے گاؤں کی ایک غریبانہ زندگی کی طرف ہجرت کا سب پر بہت برا اثر پڑا۔

میری ماں ہمیں اکثر کہا کرتی ہیں کہ طالبان جب کابل آئے تو اُنھوں نے حکومتی املاک پر ہاتھ صاف کرنے کو تو اپنا حق سمجھا لیکن اس کے ساتھ ہی اُنھوں نے وہاں رہنے والے لوگوں کے ذاتی کاروباروں پر بھی ہاتھ صاف کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ پہلے ہم جب کابل میں ہوتے تھے تو طالبان کے بارے میں صرف خبروں میں سنتے تھے یا ان کی آمد کی افواہیں اور کہانیاں ہمیں ڈراتی تھیں۔

ہم صرف طالبان کی پیش قدمی کے بارے میں سنتے تھے لیکن پھر جب وہ کابل آئے اور بعد میں ہم نے اُنھیں اپنے گاؤں میں دیکھا تو میں نے خود اُنھیں لوگوں پر ظلم کرتے دیکھا۔

یہ مسلح طالبان گاؤں کے مستقل مکینوں کو کچھ نہیں کہتے تھے۔ ہاں نئے اجنبیوں کے بارے میں بھی ان کی انٹیلیجنس نے اُنھیں بتایا ہوتا تھا کہ کون نیا آیا ہے، اُن کو وہ بہت تنگ کرتے تھے اورہم بھی اُن اجنبیوں میں سے تھے۔

طالبان ان سے بار بار پوچھتے تھے کہ تم لوگ شہر سے یہاں کیسے آ گئے، آخر تم لوگوں کو وہاں کیا تکلیف تھی۔

طالبان

وہ کہتی ہیں کہ طالبان کے آنے سے گاؤں میں بھی لوگ خوش نہیں تھے لیکن وہ جان بچانے کے لیے جھوٹ موٹ ان کی تعریفیں کیا کرتے تھے کہ طالبان کے آنے کے بعد وہ بہت خوش ہیں۔

گاؤں میں مامور طالبان گاؤں کے رہنے والوں کی گاڑیاں اپنے کاموں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ کبھی اسلحہ لانا لے جانا، کبھی پانی لانے کے لیے استعمال کرنا، کبھی کچھ اور کبھی کچھ۔

طالبان لوگوں سے بزور زکوٰۃ اور خیرات کے پیسے لیا کرتے تھے اور وہ ‘اپنے حق’ کے نام پر بھی ان سے پیسے مانگتے تھے حالانکہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ حق کس رشتے سے ان کا بنتا تھا۔

میری والدہ کہتی ہیں کہ ننگرہار میں ہر امیر غریب سے وہ اپنے حق کے نام پر پیسے مانگا کرتے تھے اور جو پیسے نہیں دیتے تھے ان سے ان کے غلے میں حصہ لے لیا کرتے تھے۔

طالبان اکثر اس کام کے لیے اس وقت کا انتظار بھی کرتے تھے کہ کب گندم کو صاف کرنے کا عمل شروع ہو گا تاکہ وہ اس میں سے اپنا حق لے سکیں۔ وہ مکئی میں بھی اپنا حصہ لیتے تھے اور خواہ مخواہ لوگوں کی ذاتی گاڑیاں تباہ کر دیتے تھے۔

طالبان کے دنوں میں عورتوں کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے امی جان کہتی ہیں کہ عورتوں کی باقی ضروریات تو ایک طرف، سب سے بڑا ظلم یہ تھا کہ وہ عورتوں کو علاج کے لیے بھی گھر سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں دیا کرتے تھے کیونکہ طالبان نے مساجد میں اعلانات کیے تھے کہ عورت کو کسی بھی حال میں گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔

طالبان

مرد بھی اپنی عورتوں کو باہر لے جانے کا رسک نہیں لیتے تھے۔ گاؤں میں کوئی ہسپتال تھا بھی نہیں، بس جلال آباد اور نازیان میں ہسپتال تھے۔

مرد راستے میں تلاشی کے خوف سے اپنی عورتوں کو ہسپتال بھی نہیں لے کر جاتے تھے۔ میری ماں کہتی ہیں کہ گاؤں میں بیمار ہونے والی بہت ساری خواتین نے وہیں پر جانیں دیں۔ بہت سارے کیسز میں ماں کے ساتھ بچے کی بھی موت واقع ہوئی۔

لڑکیوں کی تعلیم کیسی تھی کے سوال کے جواب میں امی جی کہتی ہیں کہ لڑکیاں تو چھوڑیں، لڑکوں کی تعلیم کا یہ حال تھا کہ کوئی سکول نہیں تھا اور مدرسوں کی تعداد بڑھ رہی تھی۔

میرے بڑے بھائی کو بھی مدرسے میں داخل کیا گیا حالانکہ ہمارے گھر میں کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ بچے کو مدرسے میں پڑھائیں۔

طالبان نماز کے وقت دروازے کھٹکھٹا کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے بڑوں کے ساتھ بچوں کو بھی ساتھ لے کر جاتے تھے۔

لڑکوں پر یہ پابندی تھی کہ وہ اپنی مرضی کے بال نہیں رکھ سکتے تھے، بلکہ داڑھی لمبی رکھنے اور کپڑے کھلے ڈھلے اور سائز سے بڑے پہننے کا حکم تھا

ننگرہار کے اپنے گاؤں میں پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے میری ماں اکثر رو پڑتی ہیں جو ان کے ایک چچازاد بھائی کے خاندان کے ساتھ پیش آیا جن کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔

طالبان نے ان گاؤں پر حملہ کر دیا۔ گولیوں اور راکٹوں کا تبادلہ ہو رہا تھا تو اس وقت میری والدہ کے وہ چچازاد گھر پر تھے اور اُن کی اہلیہ لکڑیاں لینے پہاڑ کی طرف گئی تھیں۔

افغانستان

وہ پہاڑ سے لکڑیاں لینے کے بعد جب گھر آ رہی تھیں تو لوگوں نے ان کو بتایا کہ گھر مت جائیں، وہاں آپ کے شوہر اور بچے موجود نہیں ہیں کیونکہ طالبان کے حملے کے دوران خوف کا شکار ہو کر وہ کہیں چلے گئے ہیں۔

یہ خاتون اسی خوف کے عالم میں کسی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھیں اور نزدیکی سب سے بڑے شہر جلال آباد پہنچ گئیں اور کئی دن تک اپنے بچوں کو ڈھونڈتی رہیں۔

آخرکار اُن کی ملاقات اپنے ایک بیٹے اور دو بیٹیوں سے تو ہوگئی لیکن وہاں اُن کے شوہر اور دو بیٹے موجود نہ تھے جن میں سے ایک بیٹے کی عمر تین ماہ تھی۔

یوں طالبان کے اس حملے میں یہ پورا خاندان بکھر گیا یعنی ماں گاؤں میں رہ گئی، کچھ بچے جلال آباد پہنچ گئے اور باپ اور دو بچے سرحد پار پاکستان پہنچ گئے جہاں پر اس وقت کی خیبر ایجنسی (موجودہ ضلع خیبر) کی تحصیل لنڈی کوتل کے لوگوں نے ترس کھا کر ان کو ایک عارضی رہائش دی۔

وہ یہاں آئے تو پیچھے سے طورخم کی سرحد ہرقسم کی آمد و رفت کے لیے بند ہو گئی۔ وہ پھر لنڈی کوتل کے علاقے میں تین ماہ تک رہے۔

اس دوران بچوں کے باپ نے واپس افغانستان جانے کا منصوبہ بنایا اور سرحد پار کر کے آخر کار اپنی بیوی کے پاس پہنچ گئے جہاں سے وہ ننگرہار میں اپنے گاؤں واپس چل دیے۔

لغمان اور جلال آباد کے سنگم پر طالبان کی ایک چیک پوسٹ پر ان میاں بیوی اور بچوں کو دیگر بہت سارے لوگوں سمیت روکا گیا اور اُنھیں وہ رات کھلے آسمان تلے طالبان کی چیک پوسٹ کے نیچے سردی میں گزارنی پڑی۔

اسی رات اس عورت کی گود میں موجود چھ ماہ کا بیٹا شدید سردی کی وجہ سے ہلاک ہو گیا۔

طالبان

اسی سلسلے کی مزید اقساط پڑھیے

پہلی قسط: صحافیوں کی دعوت، بغیر داڑھی اور ویزا اینٹری: طالبان کا افغانستان کیسا تھا؟

دوسری قسط: 23 برس قبل جب طالبان نے مزارِ شریف فتح کیا: ’ہمیں نہ مارو، ہم عام شہری ہیں‘

تیسری قسط: داڑھی سے ’استثنیٰ کا سرٹیفیکیٹ‘ اور طالبان کی کاسمیٹکس کی دکان سے بیویوں کے لیے خریداری

اس کے بعد دونوں میاں بیوی نے طالبان سے بہت کہا کہ اُنھیں بچے کو دفنانے کی اجازت دی جائے لیکن اُنھوں نے اجازت نہیں دی۔

اس دوران وہاں قریب رہنے والے کوچی قبائل کے کچھ خانہ بدوشوں سے ان کا رابطہ ہوگیا اور اُنھوں نے ان کی مدد سے بچے کو قبرستان کے بجائے راستے ہی میں کفن کے بجائے باپ کی چادر ہی میں دفنا دیا۔

ضلع نازیان اورجلال آباد کے بیچ گاڑی میں ایک گھنٹے کا فاصلہ ہے لیکن اُنھوں نے اگلے تین دن میں اسے ننگے پاؤں طے کیا اور نازیان پہنچ گئے۔

اس سب کچھ کے بعد خاتون خانہ ذہنی توازن کھو بیٹھی ہیں۔ وہ اب بھی نازیان میں ہیں لیکن چونکہ ذہنی حالت خراب ہے تو خودکشی کی کوشش بھی کر چکی ہے۔

اب بھی یہ عورت راتوں کو اٹھ اٹھ کر چیختی چلاتی ہیں۔ لوگ اس عورت کے سامنے طالبان کی آمد کا ذکر کرتے ہیں تو وہ انتہائی پریشان ہو جاتی ہے۔

اب جب ایک بار پھر طالبان کی آمد کی خبریں نشر ہو رہی ہیں تو میری ماں جیسی عورتیں پھر پریشانی سے دوچار ہیں۔

جیسے جیسے خبریں پھیل رہی ہیں، عورتوں کو ماضی یاد آ رہا ہے۔

میں پشاور میں پلی بڑھی اور یہیں پر سولہ جماعتیں پاس کیں۔ میرے پاس اپنی ماں اور ان کے ذریعے ملنے والی اپنی یادداشتوں کا ایک پورا خزانہ ہے۔

ہمیں افغان میڈیا سے یہ شکوہ ہے کہ وہ اصل صورتحال بھی نہیں بتا رہا ہے۔ لیکن ہم تک اپنے رابطوں کے ذریعے ایسی اطلاعات آ رہی ہیں کہ اب کی بار بھی خواتین شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

عورتوں کے لیے سب سے سخت ترین وقت طالبان کا دور تھا اور اس بار بھی ایسا ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32819 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp