دبئی پاکستانیوں کو ویزے کیوں نہیں دے رہا؟


بالآخر دبئی کے ویزوں پر عمر چیمہ کا ولاگ سن لیا جس میں انہوں نے دبئی کے سفارتی اہلکاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ دبئی پاکستانیوں کو ویزے کیوں نہیں دے رہا ہے۔ اعتراضات کی فہرست ہماری قومی فہم سے تو بالاتر ہے۔ بہرحال چند موٹے موٹے اعتراضات کو دور کرنے کے لیے ہمارے پاس کچھ تجاویز موجود ہیں۔

اعتراضات کی بات کریں تو یہ بات تعجب خیز ہے کہ عرب شیخوں کو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ پاکستانی اتنے زیادہ عبادت گزار کیوں ہیں۔ برادران بات یہ ہے کہ ڈیوٹی کے اوقات میں بھی نماز کا وقت آ جائے تو عربوں کی طرح محض فرض نماز ادا کرنے کو ہمارا دل تو نہیں مانتا۔ سنت واجب نفل منت وغیرہ پڑھنے اور بعد ازاں ذکر و اذکار کرنا بھی تو اتنا ہی اہم ہے جتنے فرض۔ یہ عارضی دنیا ہے جس کی حیثیت مکھی کے پر کے برابر بھی نہیں۔ آپ خود سوچیں، کیا ہم اس پر ابدی دنیا کو قربان کر دیں؟ اب آجر اس بات پر بھی ناراض ہو کہ ڈیوٹی پوری نہیں کی تو اسے سمجھانا چاہیے کہ انسان کی تفویض کردہ ڈیوٹی، اللہ کو خوش کرنے کی ڈیوٹی سے زیادہ اہم تو نہیں ہوتی نا۔

اسرائیل سے خارجہ و غیر خارجہ تعلقات بھی امارات والے اپنی ریاست کے مفادات کو دیکھ کر قائم کرنے کے حامی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اس بات پر نالاں ہیں کہ پاکستانی اس معاملے میں ان کی زبردستی راہنمائی کر کے اپنی بیان کردہ صراط مستقیم پر کیوں چلانا چاہتے ہیں۔ تعجب ہے کہ اماراتیوں کو نہی عن المنکر کا زریں اسلامی اصول یاد نہیں۔ نہ وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ حکم ہے کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو۔ انہیں عربی زبان ہم سے تھوڑی سی زیادہ اچھی آتی ہے تو بھلا کیا ہم یہ مان لیں کہ انہیں دین کی سمجھ ہم سے زیادہ ہے؟ ایسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی ہم سے بڑھ کر مسلمان ہو؟

زبان کی بات چلی تو ان کا اعتراض تو دیکھیں۔ یہ نہیں کہتے کہ پاکستانیوں کو عربی نہیں آتی اس لیے عربستان میں کام نہیں چلا سکتے۔ یہ کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کو انگریزی نہیں آتی اس لیے آجر انہیں ملازم نہیں رکھنا چاہتے۔ دیکھیں علما نے ہمیشہ انگریزی تعلیم کی مخالفت کی ہے۔ یہ تو ہماری دینداری ہے کہ ہم انگریزی سے دور رہتے ہیں۔ اس خوبی کو برائی کیوں کہا جا رہا ہے؟

اماراتی یہ بات بھی دل میں رکھے بیٹھے ہیں کہ پاکستانی بہت جھگڑالو ہیں۔ امارات میں ہندوستانیوں کی آبادی پاکستانیوں سے دگنی ہے لیکن جیلوں میں ہندوستانیوں کے مقابلے میں دگنے پاکستانی قید ہیں۔ بھارتی تو دال بھات کھانے والے سبزی خور ہیں جبکہ پاکستانی گوشت خور ہیں۔ دونوں کے رویے میں تو فرق آئے گا ہی۔ اب بھلا بکری کا بھیڑیے یا کبوتر کا شاہین سے کیا تقابل؟

ایسا نہیں کہ یہ سبزی خور ہونے سے نرم خو فطرت ہونا صرف ہماری قوم کی غلط فہمی ہے۔ ہم نے چینی ناول پڑھ کر یہ جانا ہے کہ ہماری ازلی دوست چینی قوم نے کسی کو بزدلی یا کم ہمتی کا طعنہ دینا ہو تو اسے سبزی خور کہتی ہے۔ تو ایسے میں بندہ عزت نفس اور غیرت وغیرہ کا بھلا کہاں خیال رکھتا ہو گا؟ ہماری قوم تو ان دونوں صفات سے اس حد تک لبریز ہے کہ یہ حلق تک آئی ہوئی ہیں۔ عزت نفس پر پاکستانی کسی بھی حال میں سمجھوتہ نہیں کر سکتے، خواہ انہیں جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ اگر اماراتیوں سے بات کر کے سمجھایا جائے کہ پاکستانی بھی عربوں ہی کی مانند ایک مارشل ریس ہیں تو ہمیں کامل یقین ہے کہ وہ اپنے طرز عمل پر غور کریں گے اور اس اعتراض سے دست بردار ہو جائیں۔

اماراتیوں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ پاکستان سے اتنے زیادہ بھکاری کیوں وہاں جاتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ عرب تو بہت امیر ہیں انہیں روپے پیسے کی کوئی حاجت نہیں۔ جبکہ صدقہ خیرات دینا مسلمانوں پر تقریباً فرض ہے۔ ان کے بغیر جنت میں جانا بہت مشکل ہے۔ عرب اپنے امیر عرب بھائیوں کو تو صدقہ خیرات نہیں دے سکتے نا۔ عربوں سے اپنی بے پناہ محبت کے باعث پاکستانی اپنی عزت نفس کی قربانی دے کر ان سے خیرات لیتے ہیں تاکہ وہ جنت میں جا سکیں۔ ورنہ پاکستان میں بھلا کس شے کی کمی ہے۔ یہاں برف زار بھی ہیں، ریگستان بھی، سونا اگلتی دریائے سندھ کے میدانوں کی مٹی بھی۔ دنیا کے بہت کم ممالک کو یہ نعمتیں میسر ہیں۔ اور پاکستانی دنیا کی دوسری ذہین ترین قوم بھی ہیں اور تیسری سب سے زیادہ گڈ لکنگ قوم بھی۔ انہیں بھلا کس چیز کی کمی ہے جو وہ سمندر پار جا کر بھیک مانگیں؟

اماراتی پاکستانیوں کے سوشل میڈیا پر رویے سے بھی شاکی ہیں۔ ابھی حالیہ سیلاب پر ان کا دل اس بات سے بہت دکھا کہ پاکستانیوں نے اسے امارات میں مندر کی تعمیر کا نتیجہ قرار دیا۔ بات یہ ہے کہ پاکستانی حق بیان کرنے سے نہیں چوکتے۔ گزشتہ برسوں میں ترک بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر رہے تھے جب پاکستانیوں نے برادرانہ محبت کے باعث حلیمہ سلطان کا کردار ادا کرنے والی اسرا بلگچ کو نصیحت کی تھی کہ باجی اپنا جسم ڈھانپا کرو، یوں بکنی پہن کر نیم برہنہ نہ گھومو، تم عظیم مسلمان سلطان ارطغرل کی ملکہ ہو، کچھ تو حیا کرو۔ اس پر بھی ترک ناراض ہو گئے اور پاکستانیوں کے خلاف ٹرینڈ چلانے لگے۔ یہاں خلوص اور محبت کی تو کوئی قدر ہی نہیں ہے۔ اب اماراتی بھی خفا ہیں کہ پاکستانی بولنے سے پہلے کچھ سوچتے کیوں نہیں؟ بھائی جو بات سوچے سمجھے بغیر دل سے سیدھی زبان پر آئے، وہی حق ہوتی ہے۔ اس کی قدر کرنی چاہیے بجائے اس کے کہ ناراض ہوں۔

ایک شکایت یہ بھی کی گئی ہے کہ عمران خان کے حامیوں نے امارات میں جلسے جلوس کیوں نکالے ہیں جب کہ ان پر وہاں سخت پابندی عائد ہے۔ تعجب ہے کہ انہیں احساس ہی نہیں کہ امت مسلمہ کا عظیم ترین لیڈر اس وقت بندی خانے میں پڑا ہے اور وہ اس کی رہائی کی کوشش کرنے کی بجائے اپنے قوانین کی خلاف ورزی پر ناخوش ہیں۔ بھائیو تمہیں تو چاہیے تھا کہ اپنے سر منہ پر خاک ڈال کر خود بھی جلوس میں شامل ہو جاتے، الٹا تم نے جلوس کے شرکا پر اپنا قانون لاگو کر دیا کہ قانون کی پابندی سب پر لازم ہے۔ پھر یہ بھی کہتے ہو کہ اتنے زیادہ پاکستانی جیل میں کیوں ہیں؟ وہ حق کی راہ کے راہی ہیں، یہی ان کا جرم ہے۔ شاعر انقلاب حبیب جالب فرما گئے ہیں کہ

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

اماراتی اس بات پر بھی منہ بنائے بیٹھے ہیں کہ پاکستان سے اتنی زیادہ سیکس ورکرز وہاں کیوں جاتی ہیں۔ اگر وہ غور کرتے تو سمجھ جاتے کہ پاکستانی مرد و زن جسم فروش ایسا ان کی محبت میں کرتے ہیں تاکہ عرب تکلیف اٹھائے بغیر جسم و جان کی راحت پا سکیں۔ ورنہ پرانے زمانے میں تو عرب سو تکلیفیں اٹھا کر یہاں سندھ میں اپنا لشکر بھیجتے تھے تاکہ یہاں کے نوخیز لڑکیوں لڑکوں کو اٹھا کر لے جائیں اور لونڈیاں غلام بنا کر بیچیں۔ جنگی مہم پر ہونے والے اخراجات اب بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ اس میں چوٹ چپیٹ کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ یہ جسم فروش مرد و زن تو ان کی خوشی پوری کرنے کی خاطر محض ایک کم خرچ بالانشین حل پیش کر رہے ہیں جس سے عرب نہ صرف مالی بلکہ جانی نقصانات سے بھی بچ جاتے ہیں اور مطلوبہ ہدف بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ کنواں تو خود چل کر پیاسے تک پہنچ رہا ہے کہ اس کی ضرورت پوری کرے۔ اس اعتراض پر بھی وہ نظرثانی کر لیں تو بہتر ہو گا۔

اگر پاکستانی وزارت خارجہ ہمارے اس بلاگ کا معقول سی عربی میں ترجمہ کر کے اماراتیوں کو بھیجے تو ہمیں پورا یقین ہے کہ وہ ہماری قوم کی اپنے لیے محبت اور قربانیوں کو نہ صرف بہتر انداز میں سمجھ پائیں گے بلکہ ان کی تمام غلط فہمیاں بھی دور ہو جائیں گی اور وہ پاکستانیوں کے لیے ویزے کا سسٹم ختم کر دیں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1546 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments