بنگال کی ساحرہ۔ رونا لیلیٰ


موسیقی کی دنیا میں رونا لیلیٰ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ بنگال کی ساحرہ رونا نہ صرف پاکستان میں موسیقی کے افق پر چمکتا ہوا ایک انتہائی روشن ستارہ رہی ہیں، بل کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش میں بھی انہوں نے موسیقی کے میدان میں اپنا لوہا منوایا۔

رونا لیلیٰ نومبر 1952 میں ایک بنگالی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سید محمد امداد علی، ایک سوِل سرونٹ، جب کہ ان کی والدہ امینہ لیلیٰ ایک میوزیکل آرٹِسٹ تھیں رونا کے ماموں ہندی اور بنگلہ زبانوں کے مانے ہوئے گلوکار تھے اور رونا کی بہن دینا لیلیِٰ بھی موسیقی سے دل چسپی رکھتی تھیں۔ جنہیں باقاعدہ ایک ٹیوٹر میوزک سکھلانے گھر پر آیا کرتا تھا۔ رونا کی عمر اس وقت چار یا پانچ برس ہی تھی مگر اس کے باوجود موسیقی سے ان کی لگن کسی طرح کم نہ تھی۔ وہ اکثر اپنی بہن کے ساتھ میوزک کی کلاس میں بیٹھتیں اور بہت توجہ سے سب سیکھنے کی کوشش کرتیں۔ اس حوالے سے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ رونا کے رونا لیلیٰ بننے میں ان کے گھریلو ماحول کا بڑا اثر رہا ہے۔

رونا ابھی بارہ سال ہی کی تھیں جب انہیں سلور اسکرین انڈسٹری سے اپنی پہلی گائیکی کی پیشکش ملی۔ یہ پیشکش 1968 میں ریلیز ہونے والی فلم جگنو، جس کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر شوکت حسین رضوی تھے، کے لیے پلے بیک گانے ”گڑیا سی منی میری، بھیا کی پیاری“ کے لئے تھی۔ اس وقت فلمی صنعت کو عام طور پر کیریئر بنانے کی مثالی جگہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ تاہم رونا کی شدید خواہش کو دیکھتے ہوئے ان کے گھر والوں نے رونا کو گانے کی اجازت دے دی۔ ایک مہینے کی تیاری کے بعد رونا نے موسیقی کے ہدایت کار منظور حسین کی رہنمائی میں اپنا پہلا پلے بیک ریکارڈ کروایا۔

اگرچہ یہ رونا لیلیٰ کے پر شکوہ اور کامیاب سفر کا نکتہِ آغاز تھا مگر رونا اس سے پہلے ہی ڈھاکہ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ایک لائیو پروگرام میں شریک ہو کر اپنا نام چکی تھیں۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ ان کی بڑی بہن دینا لیلیٰ جنہوں نے اصل میں اس پروگرام میں گلوکاری کے جوہر دکھانے تھے، آخری لمحے میں بیمار ہو گئیں، تو چھے سالہ رونا جرات سے کام لیتے ہوئے آگے آئیں اور اپنی دلکش گائیکی سے تمام سامعین کو حیرت زدہ کر دیا۔

رونا لیلیٰ مشہور پاکستانی گلوکار احمد رشدی کی بہت بڑی مداح تھیں جنہوں نے پاکستانی میوزک میں راک اینڈ رول، ڈِسکو، اور دیگر جدید موسیقی کے فارمز کو کامیابی کے ساتھ متعارف کروایا۔ رونا احمد رشدی سے اس قدر متاثر تھیں کہ وہ انہیں اپنا استاد سمجھتی تھیں۔ انہوں نے احمد رشدی کے ساتھ کئی نغمے گائے۔ جن میں سے چند مشہور گانے یہ ہیں۔

ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے؟ ابھی پیار میں کیا رکھا ہے۔ (فلم انمول)

یہ ادا یہ ناز یہ انداز آپ کا، دھیرے دھیرے پیار کا بہانہ بن گیا (فلم روڈ ٹو سوات)

زندگی تو آپ کی رعنائیوں کا نام ہے (فلم سوغات)

اِک آنے کی چڑیا اور دو آنے کا مور ہے (فلم گھرانا)
https://www.youtube.com/watch?v=91gmRh25zHQ

دیکھا جائے تو رونا کو پاکستانی فلم انڈسٹری میں پہلا بریک تھرو اردو فلم ”ہم دونوں“ کے لیے گائے گئے گانے ”ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا“ سے ملا۔

اس گانے نے ریکارڈ مقبولیت کے حاصل کی اور رونا کے لئے پاکستانی فلمی صنعت میں مستقل جگہ بنا دی۔ ایسے وقت میں جب پاکستانی میوزک انڈسٹری میں ملکہِ ترنم نورجہاں، مالا، آئرن پروین اور نسیم بیگم جیسی گلوکارائیں موسیقی کے افق پر راج کر رہی تھیں، کسی بھی نئی آواز کے لئے اپنی جگہ بنانا بہت مشکل تھا، مگر رونا لیلیٰ اپنی خوب صورت جادو بھری آواز اور موسیقی پر عبور کے باعث اپنی علیحدہ شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئیں۔ ان کے بارے میں بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ وہ آئیں، انہوں نے گایا، اور دلوں پر راج کرنا شروع کر دیا۔ رونا نے تقریباَ آٹھ برسوں میں کوئِ چار سو کے لگ بھگ گانے گائے جن کی اکثریت ریکارڈ توڑ مقبولیت کی حامل رہی۔

رونا لیلیٰ چھوٹی سکرین پر بھی جلوہ گر رہیں اور اپنی مدھر آواز کا جادو دکھلاتی رہیں۔ پی ٹی وی پر ان کا ایک شو ”بزمِ لیلیٰ“ کے نام سے چلا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ ”ضیا محی الدین شو“ کا حصہ بھی رہ چکی ہیں۔

سال 1968 پاکِستان میں فلم انڈسٹری کے عروج کا سال تھا جب ایک ہی برس میں سو سے زائد فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اسی سال رونا لیلیٰ نے پنجابی گلوکاری میں بھی قدم رکھا۔ انہوں نے اپنا پہلا پنجابی گیت ہدایت کار ایم جے رانا کی فلم ”جگ بیتی“ کے لئے گایا۔ اس گانے کی دھن بابائے موسیقی بابا غلام احمد چشتی، المعروف، بابا جی۔ اے چشتی نے خاص طور پر رونا لیلیٰ کی شوخی بھری آواز کو سامنے رکھ کر ترتیب دی تھیں

”ماہیا وے بنگلہ پوا دے“ کے بول والا یہ گانا سپرہِٹ رہا جس نے رونا کے لئے پنجابی گائیکی کے میدان میں بھی راہ ہموار کردی۔ بنگال کی ساحرہ نے یہ گانا کچھ اس خوبی سے گایا کہ کسی کو محسوس ہی نہیں ہوا کہ گلوکارہ کی مادری زبان پنجابی نہیں بنگالی ہے۔ اسی طرح فلم ذیل دار کا گیت، ”دو دل اِک دوجے کولوں دور ہو گئے“ رونا لیلی کے مقبول ترین پنجابی گیتوں میں سے ایک ہے۔ نغمہ نگار خواجہ پرویز کا دعوی تھا کہ اس گیت کے گراموفون ریکارڈز لاکھ سے زائد کی تعداد میں فروخت ہوئے تھے، جو کہ اس دور میں بہت بڑی بات تھی۔

یوں تو رونا لیلیٰ نے پاکستان میں بہت باکمال فلمی و غیر فلمی گیت، اور غزلیں گائیں۔ ایک طویل فہرست ہے جو اس چھوٹی سی تحریر میں سما نہیں سکتی، مگر مشتے نمونہ از خروارے کے تحت ان میں سے اپنی پسند کے کچھ گیت/غزلیں درجِ ذیل ہیں۔

جانِ من اتنا بتا دو محبت ہے کیا؟ (فلم کمانڈر)

نیناں ترس کر رہ گئے، پیا آئے نہ ساری رات (فلم آسرا)

ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے (فلم احساس)

کاٹے نہ کٹے رے، رتیاں سیاں انتظار میں (فلم امراؤ جان ادا)

دل دھڑکے میں تم سے یہ کیسے کہوں (فلم انجمن)

دِنوا دِنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا ہو (فلم من کی جیت)

میں وہ کنول ہوں جس کو لہریں چنچل موجیں چھونا چاہیں، چھو نہ پائیں (پی ٹی وی)

خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی (غزل)

تیرے ملنے دی آس لے کے، میں ٹر پئی (فلم پنوں دی سسی)

لائیل پوروں منگوایا چھمکا چاندی دا (فلم بھولے شاہ)
https://www.youtube.com/watch?v=48z7c1Fg1AU

رونا لیلیٰ 1974 میں اپنے خاندان کے ساتھ بنگلہ دیش لوٹ گئیں جہاں انہوں اپنی جادو بھری آواز سے بنگالی میوزک انڈسٹری میں ہل چل بچا دی۔ نمونے کے طور پر ان کا یہ بنگالی گیت ”او امر جِبون شاتھی“ سنیں اور سر دھنیں۔

بعد ازاں وہ ہندوستان بھی گئیں اور وہاں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔ 1976 میں انہوں نے کلیان جی آنند جی کے ساتھ فلم ”ایک سے بڑھ کر ایک“ کا مرکزی گانا، ”ایک سے بڑھ کر ایک میں لائی ہوں“ گایا۔

ہندوستان میں ان کی مقبولیت کا آغاز 1985 میں ریلیز ہونے والی فلم گھر دوار کے ایک گانے ”او میرا بابو چھیل چھبیلا“ سے ہوا جو اصل میں ایک پاکستانی فلم ”من کی جیت“ ( 1972 ) کے گانے کا ہو بہ ہو چربہ ہے۔ ( انڈین فلموں میں چربہ شدہ گانوں پر پھر کسی وقت تفصیل سے لکھنے کا ارادہ ہے ) ۔

ہندوستان میں انہوں نے زیادہ تر بپی لہری کے ساتھ کام کیا۔ ان کے ہندوستانی مقبول گیتوں میں سے چند یہ ہیں۔

سنو سنو میری یہ کہانی سنو

دے دے پیار دے، پیار دے، پیار دے دے

گھنگھرو ٹوٹ گئے
https://www.youtube.com/watch?v=Ux2-2FXnxic&list=PLJzYlDvI_iLxg4yQVAMhYsq9fyHUNtctO&index=2

رونا کے انڈین گانوں میں ہمارا سب سے زیادہ پسندیدہ گانا فلم ”گھروندا“ کا ہے۔ ”تمہیں ہو نہ ہو، مجھ کو تو اتنا یقیں ہے“ ۔ یہ گیت ایک ایسی شرارتی، چنچل، اور شوخ محبوبہ کے الفاظ ہیں۔ جو اپنے محبوب کو تنگ کرنے کے لئے صاف الفاظ میں اقرارِ محبت تو نہیں کرتی، مگر باتوں میں اپنی لگاوٹ کا اشارہ بھی دیتی ہے۔ اور یہ چیز اس گانے کی لطافت اور خوب صورتی کو بڑھاتی ہے۔

رونا لیلیٰ کی موسیقی کے میدان میں خدمات کے اعتراف کے طور پر بے شمار ایوارڈز سے نوازا گیا ہے، جن میں سے چند ایک حسبِ ذیل ہیں۔ پاکستان میں انہیں 1968 اور 1970 میں نگار ایوارڈ ملا۔ بنگلہ دیش میں انہیں انڈیپنڈنس ڈے ایوارڈ کے علاوہ بنگلہ دیش نیشنل بیسٹ پلے بیک سنگر کے سات ایوارڈز مختلف برسوں میں ملے۔ ہندوستان میں انہیں ریڈیو مرچی میوزک ایوارڈ کے علاوہ سہگل ایوارڈ بھی دیا گیا۔ یہ سب ایوارڈز ان کی پاکستان، بنگلہ دیش، اور انڈیا میں یکساں مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

رونا لیلیٰ کو جو چیز باقی تمام گلوکارؤں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے وہ کچھ اس سوز و گداز سے اور ڈوب کر گاتی ہیں، گویا الفاظ کو ایک واضح تصویر کی صورت سننے والے کے سامنے لا کھڑا کرتی پیں۔ وہ الفاظ کو مجسم کرنے میں قدرت رکھتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ کہ بنگالی ہونے کی باوجود ان کے اردو گیت سنیں تو لگتا ہے کہ دہلی یا لکھنوی ماحول کی پروردہ ہیں، پنجابی گانے سنیں تو لگتا ہے کہ ٹھیٹھ پنجابن ہیں۔ اور بنگلہ تو خیر ان کی مادری زبان ہے، سو اس میں تو انہیں ملکہ حاصل ہونا ہی تھا۔ کوئی بھی شخص جو رونا کے بنگالی ہونے کے بارے میں نہیں جانتا، اگر ان کے پنجابی یا اردو گانے سنے تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ بنگال سے تعلق رکھتی ہیں۔

ہمارے بہت پیارے دوست جمشید اقبال ہمارے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم رونا لیلیٰ کے حافظ ہیں، جو کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ جب وہ ہمارے ہمسائے میں رہا کرتے تھے تو ہم اکثر ساتھ بیٹھ کر رونا، میڈم نور جہان، مہناز، افشاں، ناہید اختر، آئرن پروین، مسعود رانا، احمد رشدی، اور شازیہ احمد وغیرہم کے نغمے سنا کرتے تھے۔ جمشید کو میڈم کی گائیکی از حد پسند ہے۔ ہم اگر رونا کے حافظ ہیں تو جمشید نور جہان کے۔ یوں تو ہمیں بھی میڈم نور جہاں کے گانے پسند ہیں، مگر رونا لیلیٰ کے بعد ۔ خیال کوئی نہ بھایا تیرے خیال کے بعد ۔

بس اس بات کا انتہائی دکھ ہے کہ ہم شاید وہ آخری نسل رہ گئے ہیں جو اس دور کی موسیقی سنتی اور پسند کرتی ہے۔ نئی نسل موسیقی کے اس عظیم خزانے سے کوئی خاص دل چسپی نہیں رکھتی جو بے حد افسوس ناک امر ہے۔

مظفر حسین بخاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مظفر حسین بخاری

ایم ایچ بخاری ڈیویلپمنٹ پروفیشنل ہیں اور ایک ملٹی لیٹرل ترقیاتی ادارے سے منسلک ہیں۔ کوہ نوردی اور تصویر کشی ان کا جنون ہے۔ مظہر کے تخلص سے شعر کہتے ہیں۔

muzzafar-hussain-bukhari has 24 posts and counting.See all posts by muzzafar-hussain-bukhari

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments