عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تو مگر کہاں


رب کائنات نے ہر زمانے میں ایسے مردانِ کار پیدا کیے ہیں، جنھوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی جیسے سائنس، طب، سیاست، ادب اور سماجی بہبود کے میدانوں میں ایسے محیر العقول اور نادر کارنامے انجام دیے ہیں، جنھیں نہ صرف ان کے زمانے میں خراجِ تحسین پیش کیا گیا بلکہ ان کے بعد کے زمانے بھی ان کے معترف اور باج گزار رہے ہیں۔ اُن کے کارنامے اُن کے اخلاص اور ایثار سے معمور ہوتے ہیں اس لیے ان کی افادیت ایک عہد سے دوسرے عہد میں سفر کرتی ہے۔

جن کی حکمت و دانش سے لوگ مستفید ہوتے ہیں ان کے کارنامے ہمیشہ بنی نوع ِآدم کے لیے مشعلِ راہ ہوتے ہیں اور ان کی دانش اندھیروں میں روشنی کا مینار بن جاتی ہے، وہ خود کئی نشیب و فراز سے گزر چکے ہوتے ہیں اور اپنی دانش اور زیست کے تجربوں کے پیش نظر نئی نسل کو زندگی کی حقیقتوں، تلخیوں اور سچائیوں سے روشناس کراتے ہیں۔ وہ خود محنت کرتے ہیں، سیکھتے ہیں اور پھر اس عمل کو آگے بڑھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، یہ معاشرے کے استاد ہیں جو صرف با علم نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے عمل و کردار سے بھی منفرد حیثیت کے حامل ہوتے ہیں ان کا کردار اور عمل انھیں ممتاز مقام عطا کرتا ہے :

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

کوئی بھی شخص ہو، جو کسی بھی شعبہ زندگی سے منسلک ہو اُس کے قصرِ زندگانی کی تعمیر و تشکیل میں کسی نہ کسی استاد کا دست ِمعجز نما ضرور شامل رہا ہے۔ زمانے کی ترقی و ترویج اور انسانوں کو زمین سے آسمان کی سیر کروانے اور چاند تک پہنچنے کی اس ساری جد و جہد کے پیچھے استاد ہی کارفرما رہے ہیں۔ انہی معاشروں نے ترقی کی جنھوں نے اپنے مشاہیر اور استادوں کی قدر کی اور وہی طالب علم کامیابی سے سرشار ہوئے جو استادوں کی عظمت و عزت سے واقف تھے۔

راقم کا شمار بھی ایسے ہی طالب علموں میں ہوتا ہے، جسے مختلف اساتذہِ کرام کی زیر نگرانی سیکھنے کا موقع ملا اور اس نے اپنے اساتذہ کے فیضانِ نظر سے کسب ِضیا کیا۔ تمام اساتذہ میرے لیے روشنی کا مینار ہیں جنھوں نے راقم کی علمی و ادبی حوالے سے سرپرستی کی اور صحیح معنوں میں میری آبیاری کی۔ انہی قابلِ احترام اساتذہ میں میرے قابل ِفخر اور ہمہ پہلو استاد اور راہ نما ڈاکٹر عبدالصبور بلوچ بھی ہیں۔ اُن کی شخصیت کی ہم آہنگی اور اُن کے علم و فضل کے بارے میں کچھ لکھنا مجھ جیسے طالب علم کے بس کی بات نہیں تا ہم اُن سے اپنی قلبی عقیدت و محبت کے باعث کچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

میرے لیے یہ باعث صد افتخار بھی ہے اور انتہائی مشکل بھی؟ کہ کہاں سے شروع کروں؟ کیسے شروع کروں؟ کن لفظوں کا سہارا لوں؟ کیسا جمُلہ تراشوں اور خیال کو کن لفظوں کی مالا میں پرونے کی سعی کروں؟ شخصیت کے کس کس رُخ کی صورت گری کروں؟ ان کی محبتوں، شفقتوں اور عنایتوں کی کہانی لکھوں یا ان کے بوئے ہوئے اُن بیجوں کی کتھا بیان کروں جو اُن کی شفقت کی فضا میں پھل پھول کر آج تناور درخت بن گئے ہیں۔ میں اُن کی محبت اور علم پروری کی داستان تراشوں، علمی و ادبی سفر کی روداد بیان کروں، یا جا بجا بکھرے ہوئے ان کے شاگردوں کی کامیابی کی باتیں کروں، یقیناً مجھ جیسے طالب علموں کے لیے یہ مرحلہ انتہائی کٹھن ہے۔

یہ 23 سال پہلے کی بات ہے جب میں بی اے کے بعد ایک نجی اسکول میں بطور استاد فرائض سر انجام دے رہا تھا اور ریڈیو اور پی ٹی وی سے منسلک تھا۔ ایک دن پی ٹی وی کے پروڈیوسر نے کہا کہ اگر آپ بلوچی میں ایم اے کر لیں تو پی ٹی وی میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کی آسامیاں نکلنے والی ہیں، ایم اے بلوچی کے بعد آپ درخواست دینے کے اہل ہوں گے، اس حوالے سے مجھے شعبہ بلوچی، جامعہ بلوچستان جانے کا مشورہ دیا۔

اگلے دن میں تقریباً 11 بجے شعبہ بلوچی پہنچا، وہاں معلومات کے بعد مجھے ایک کمرے میں بھیجا گیا۔ اجازت لینے کے بعد جب میں اندر گیا تو دیکھا کہ ایک کشادہ پیشانی، گھنے سیاہ بالوں، چہرے کی خوبصورتی میں چار چاند لگائے ہوئے کالی مونچھیں، روشن آنکھیں، خوش لباس، شاداب چہرے کے ساتھ ایک شخص براجمان ہے۔

یہ میری پہلی ملاقات تھی، انتہائی محبت اور شفقت سے جب وہ محو گفتگو ہوئے تو میں انگشت بدنداں رہ گیا کہ پہلی ملاقات میں کوئی اتنا بھی شفیق ہو سکتا ہے؟ یقیناً ایک اچھے استاد کی یہی پہچان ہے۔ یہ ڈاکٹر عبدالصبور بلوچ تھے۔ وہ دن اور آج کا دن انھوں نے کتابیں عنایت کیں، ایم اے بلوچی کروایا اور میرا اوڑھنا بچھونا، بلوچ، بلوچی اور بلوچیت ہے تو یہ سب اُن کی حوصلہ افزائی اور سمت نمائی کا کرشمہ ہے۔

ڈاکٹر عبدالصبور بلوچ بلوچی علم و ادب کے اہم مرکز کیچ کے علاقے آ بسر میں عبدالخالق کے گھر 15 دسمبر 1967 میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کیچ میں حاصل کی۔ 1983 میں گورنمنٹ ہائی سکول کیچ سے میٹرک 1985 میں گورنمنٹ ڈگری کالج تربت (موجودہ عطا شاد کالج) سے ایف ایس ای کی سند حاصل کی، جامعہ بلوچستان سے 1988 میں بی اے اور 1993 میں ایم اے بلوچی کی ڈگریاں حاصل کیں۔

صبور بلوچ نے 2002 میں جامعہ بلوچستان سے جدید بلوچی شاعری کے سرخیل میر گل نصیر پر تحقیقی کام کر کے ایم فل کی تکمیل کی۔ یہ گل خان نصیر پر پہلی سندھی تحقیق تھی۔ آپ نے 2009 میں ”بلوچی کسہی لبزانک“ کے موضوع پر جامعہ بلوچستان سے پروفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق صاحب کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا اور سند فضیلت سے سرفراز ہوئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی ایچ ڈی کی سطح پر بلوچی میں لکھا گیا یہ پہلا مقالہ تھا۔

بطور استاد آپ نے اپنے کیرئیر کا آغاز یکم جنوری 1994 کو شعبہ بلوچی میں بطور لیکچرار کیا اپنی لگن اور محنت سے 2004 میں اسسٹنٹ پروفیسر جبکہ 2008 میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور 2011 میں پروفیسر کے منصب پر متمکن ہوئے۔ اس مدت ملازمت کے دوران میں آپ دو مرتبہ تین تین سال کے لیے شعبہ بلوچی کے صدر نشین رہے جبکہ مزید براں جینڈر اینڈ ڈویلپمنٹ شعبہ کی سربراہی کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر صبور بلوچ 12 جون 2013 کو جامعہ تربت کیچ کے پرو وائس چانسلر تعینات ہوئے اور 2016 تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ اس کے بعد تاحال جامعہ تربت کیچ میں بطور ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف بلوچی لینگوئج اینڈ کلچر اور ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز اینڈ ہیومینیٹز کے عہدے پر تعینات ہیں۔

ڈاکٹر عبدالصبور بلوچ نے علمی ادبی دنیا میں بطور مترجم، کالم نگار، افسانہ نگار، محقق اور ادیب شہرت حاصل کی اور ان متعدد شعبوں میں ایسے کارنامے انجام دیے جن سے ان شعبوں کے وقار میں اضافہ ہوا۔

اگرچہ بلوچی افسانے کی عمر اتنی زیادہ نہیں ہے مگر بلوچی ادب میں اگر کسی ادبی صنف نے دوسری اصناف کی نسبت زیادہ ترقی کی ہے تو وہ بلوچی افسانہ ہے۔ بلوچی افسانہ نگاروں کی فہرست اگرچہ طویل ہے مگر نمایاں تر نام بہت تھوڑے ہیں، جن میں ایک جگمگاتا نام ڈاکٹر عبدالصبور بلوچ کا بھی ہے جنھوں نے اب تک کل 10 افسانے لکھے ہیں جو بلوچی زبان کے مختلف رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1۔ واھگانی ہون ماہنامہ سوغات جنوری 1985 ء
2۔ نسر پتگیں پل ماہنامہ بلوچی مار چ 1989 ء
3۔ چٹ ماہنامہ بلوچی جون 1991 ء
4۔ ارواح چہیال ماہنامہ بلوچی جون 1992 ء
5۔ فیس ماہنامہ بلوچی جولائی 1992 ء
6۔ اسٹریلٹی ماہنامہ آساپ اکتوبر 1992 ء
7۔ من باج برت بلئے ماہنامہ آساپ 1995 ء
8۔ ہنیاریں درد ہو شام ماہنامہ لبزانک حب دسمبر 1995 ء
9۔ دلپل مہناز ماہنامہ زندان جولائی، اگست 1996 ء
10۔ مے نیاد پر شت انت ماہنامہ زند نوشکی جنوری 2004 ء

مختلف ناقدین کی رائے کے مطابق اُن کے افسانے، افسانوی تکنیک اور فن کے حوالے سے عمدہ اور اچھے افسانے ہیں مگر افسانہ اُن کا بنیادی حوالہ نہیں ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے افسانوں کے ساتھ ساتھ صبور بلوچ نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے کئی ڈرامے بھی تحریر کیے ہیں جو نشر ہوئے ہیں۔

ترجمہ ایک مشکل فن ہے جس کے لیے دونوں زبانوں کو سمجھنا اور جس تخلیق کا ترجمہ کیا جا رہا ہے، تخلیق کار کی سوچ، فکر اور اس وقت کے حالات و واقعات سے آگاہی کے بغیر یہ کام انجام نہیں دیا جا سکتا۔ بطور مترجم آپ بلوچی کے صف اول کے ترجمہ نگاروں میں شامل ہیں، اس بات پر ہمارے سارے ناقدین، محققین متفق ہیں کہ ڈاکٹر صبور بلوچ نے ترجمہ کے لیے جو سلیکشن کی ہیں وہ بُہت عمدہ ہیں۔ اب تک آپ نے مختلف زبانوں کے 15 افسانے تراجم کیے ہیں جن میں ن م دانش، نورالہدی شاہ، عذرا یوسف، سعیدہ گزدر، حنان اللہ مہر، ابو جعفر شمس الدین، میلان کنڈیرا اور دھرپ چندر گوتم (نیپال) کے افسانے شامل ہیں۔

اُن کے تراجم کیے ہوئے افسانے بلوچی کی مختلف رسالوں میں شائع ہوئے ہیں۔ انھوں نے پہلا ترجمہ سعیدہ گزدر کے افسانے کا ”مسیت سیا ہگ“ کے نام سے کیا جو اپریل 1991 کے ماہنامہ بلوچی کوئٹہ کے شمارے میں شائع ہوا ہے، ان کا ترجمہ کیا ہوا آخری افسانہ (اس مضمون کے تحریر ہونے تک) دھرپ چندر گوتم کا ہے جن کا تعلق نیپال سے ہے، جن کا افسانہ آپ نے ”آکجیگ ات“ کے نام سے ترجمہ کیا۔ یوں ملکی اور بین الاقوامی زبانوں سے بلوچی میں ترجمے کی روایت اور ارتقا کے حوالے سے آپ کا کام قابلِ تعریف ہے۔

قلم اور قلم کار کی اہمیت ہر عہد میں نمایاں رہا ہے اس کی بدولت انسان غاروں سے مہذب بنا، اسی نے قوموں کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دنیا کی کئی تحریکوں میں قلم کاروں نے اپنا کردار نبھایا ہے اور تحریکوں میں جان ڈال دی ہے۔ ان قلم کاروں میں کالم نگار و کالم نویس بھی شامل ہیں۔ مغرب سے شروع ہونے والا کالم نگاری کا سلسلہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ پاکستان میں بھی ممتاز کالم نگار پیدا ہوئے جن میں پیشتر ادبی دنیا سے منسلک تھے اور مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے رہے ہیں۔

بلوچی میں بطور خاص ادبی کالم نویسی کی روایت اتنی توانا نہیں ہے مگر پھر بھی بہت نامور کالم نویس پیدا ہوئے ہیں، کچھ دارِ فانی سے رحلت فرما گئے اور کچھ حیات ہیں، جن میں ایک نام ڈاکٹر عبدالصبور بلوچ کا بھی ہے، جنھوں نے روزنامہ کوہستان، کوئٹہ کے ہفتہ وار میگزین میں یکم اپریل 2001 کے شمارے اپنے کالم نویسی کے سفر کا آغاز کیا اور مختلف موضوعات پر کالم لکھتے رہے۔ اس کے بعد 2004 میں روزنامہ آساپ کوئٹہ کے لیے ادبی کالم لکھتے رہے۔

اسی طرح مئی 2015 میں ”آتار“ کے عنوان سے روزنامہ مشرق کوئٹہ میں ادبی کالم لکھے۔ یوں مختلف اخبارات و رسائل میں آپ نے مختلف علمی و ادبی موضوعات پر کالم لکھے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے مختلف اخبارات جیسے روزنامہ انتخاب روزنامہ رہبر حب اور روزنامہ جنگ میں اردو میں مختلف مضامین لکھتے رہے جن میں تخفیف اسلحہ اور انسانیت کی بقا، پاکستان میں جمہوری عمل، اکیسویں صدی اور ہماری ذمہ داریاں جیسے مضامین شامل ہیں۔

کسی بھی زبان کی ترقی و ترویج میں تحقیق و تنقید کا بڑا اہم کردار ہے۔ زبان و ادب کے ارتقا اور ترقی و ترویج میں محققین اور ناقدین کے کردار سے روگردانی نہیں کی جا سکتی۔ یہ زبان اور اس کے ادب کو مضبوط بنیادیں فراہم کرتی ہیں گو کہ یہ ایک مشکل کام ہے مگر زبان کی نئی وسعتوں اور بلندیوں تک پہنچانے کے لیے ناگزیر ہے۔ آپ بلوچی تحقیق و تنقید میں اہم نام ہیں، تحقیق و تنقید کے حوالے سے آپ کی کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں جن میں ”شرک وپال“ 1999، بلوچ عورت 2001، ورثہ نصیریات (ایوارڈ یافتہ) 2005 کہنین بلوچی شاعری 2006 (آغاز و ارتقا) بلوچی قصہی لبزانک (تحقیقی و تنقیدی مطالعہ) 2009 شامل ہیں جس پر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے آپ کو خصوصی ایوارڈ سے نوازا تھا۔

”اتکگاں ترندیں درد رگامانی“ 2012، ”رجنتگیں قصہ“ 2012 اور بلوچی ”گیدی وعہدی لبزانک“ 2012 شامل ہیں۔ اسی طرح 2015 میں ”نوکیں عہد و بلوچی زبان لبزانک و دو دوربیدگ“ جو بلوچی اکیڈمی کوئٹہ سے شائع ہوا۔ اسی طرح انسٹی ٹیوٹ آف بلوچی لینگوئج کلچر جامعہ تربت سے 2018 میں بلوچی پٹ پولی تاک بندانی اشاریہ، 2020 میں ڈیوا اور 2020 میں دوسری کتاب ”گالبند زانتی وبلوچی گالبند“ شائع کروایا۔ مذکورہ بالاتمام تحقیقی و تنقیدی کتابیں مختلف جامعات کے نصابات کا حصہ ہیں اس کے علاوہ تحقیق و تنقید کے حوالے سے مختلف موضوعات پر ملک کی مختلف تحقیقی و تنقیدی رسائل و جرائد میں اب تک آپ کے 40 مقالہ جات شائع ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر صبور بلوچ ان چند اساتذہ کرام میں شامل ہیں جو اپنے طالب علموں کے ساتھ تحقیقی سفر میں مکمل ساتھ رہتے ہیں انھیں ہر حوالے سے علمی و ادبی رہنمائی کے ساتھ ساتھ کتابیں اور تحقیقی مواد بھی فراہم کرتے ہیں۔ بطور سپروائزر ان کے زیر نگرانی کام کرنے والے طلبہ و طالبات ان کی راہ نمائی اور علمی و ادبی کردار سے ہمیشہ خوش نظر آتے ہیں۔ اُن کی زیر نگرانی اب تک 16 طالب علموں نے اپنا ایم فل مکمل کیا ہے جبکہ 4 ریسرچ اسکالر پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔

آپ ایک کثیر الجہت شخصیت کے مالک ہیں، ایک اچھے استاد کے ساتھ ساتھ ایک اچھے منتظم بھی ہیں۔ آپ نے بلوچی اکیڈمی کوئٹہ شعبہ بلوچی جامعہ بلوچستان، انسٹی ٹیوٹ آف بلوچی لینگوئج اینڈ کلچر جامعہ تربت، بلوچستان اکیڈمی اور دیگر علمی و ادبی اداروں میں 25 سے زائد سیمی ناروں، ورکشاپوں اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا ہے علاوہ ازیں 46 ملکی و بین الاقوامی سیمینار اور کانفرنسز میں بلوچی، اردو اور انگریزی میں تحقیقی و تنقیدی مقالات پیش کر چکے ہیں۔ آپ 80 سیمینارز اور کانفرنسز میں بلوچی اور بلوچستان کی نمائندگی کر چُکے ہیں۔

کسی بھی تحقیق کار، محقق اور استاد کے لیے سب سے بڑا ایوارڈ اسی کا کام اور اُس کے شاگرد ہیں، اس کے ساتھ ساتھ جب محنت، لگن اور خلوص نیت سے کیے گئے کام کو جب سراہا جائے تو تخلیق کار اور محقق مزید جان فشانی سے کام کر نے کی سعی کرتا ہے اور یقیناً ایسے کام کو سراہا جانا چاہیے۔ جس سے معاشرے میں ایک مثبت سوچ پیدا ہو۔ ”ڈاکٹر صبور بلوچ کو بھی ان کی محنت اور علمی و ادبی کاموں کی وجہ سے مختلف ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

جن میں بہترین استاد کا ایکسی لینسی ایوارڈ، بلوچستان کے ادارہ ثقافت کی جانب سے 2005 میں بہترین اردو تحقیقی کتاب کا ایوارڈ، اس طرح حکومت بلوچستان کی جانب سے بہترین بلوچی تحقیقی کتاب کا ایوارڈ بھی شامل ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی کا اسٹار ایوارڈ 2007، حکومت بلوچستان کی جانب سے مست توکلی ایوارڈ 2008 اور ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کی طرف سے 2005۔ 2006 کی بہترین تحقیقی کتاب کا ایوارڈ جو آپ کو 2009 میں ملا، شامل ہیں۔

اس کے علاوہ مختلف علمی و ادبی اداروں کی جانب سے کئی تعریفی اسناد سے بھی آپ کو نوازا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالصبور بلوچ کی مثالی علمی و ادبی تحقیقی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں رواں سال“ تغمہِ امتیاز ”سے نوازا، جس سے یقیناً اس اعزاز کی قدروقیمت میں اضافہ ہوا ہے اور ایک عالم، محقق، ادیب اور استاد کی تکریم علم و ادبی حلقوں کی فعالیت میں اضافے کا سبب ٹھہرے گی۔

آپ نے اب تک مختلف ملکی و بین الاقوامی علمی و ادبی اداروں کے 8 بڑے بڑے تحقیقی منصوبے مکمل کیے ہیں جن میں مست توکلی اور صوفی ازم، بلوچستان اسٹڈی سنٹر، جامعہ بلوچستان، بلوچی کہنین شاعری، ہائر ایجوکیشن کمیشن، پاکستان۔ بلوچی معاشرے میں عورت کا کردار یونیسف، اقوام متحدہ، بین الاقوامی لغات کا منصوبہ میری لینڈ یونیورسٹی امریکہ، بلوچی ادب اور تراجم ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان اور اسی طرح جامعہ تربت کا تحقیقی منصوبہ ”توہم پرستی اور اس کے منفی اثرات“ مکمل کر چکے ہیں۔

اپنی علمی و ادبی استعداد کار اور صلاحیتوں کی بدولت آپ 13 ملکی اور بین الاقوامی تحقیقی مجلوں کی ایڈیٹوریل اور ایڈوائزری بورڈز میں شامل ہیں، جس میں تحقیق مجلہ، میری، ہینکین، بلوچستان ریویو، بلوچستانیات، پولی گلاٹ، ال باھی، ساساکلمت بلوچی شامل ہیں، اس علمی و ادبی معاونت کے ساتھ ساتھ آپ مختلف جامعات اور اداروں کی سلیکشن بورڈز، فنانس کمیٹی، ایگزیکٹیو باڈی، سینڈیکیٹ بورڈ آف ایڈوانسڈ اسٹڈی اور بورڈ آف گورنرز کے علاوہ دیگر کئی اداروں اور بورڈز میں بطور ممبر کام کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر صبور بلوچ نے 2015 میں چیئرمین شعبہ بلوچی کی حیثیت سے جب ذمہ داری سنبھالی تو انھوں نے پہلی مرتبہ بلوچی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کا آغاز کیا یہ ایک ایسی کاوش تھی جس کی کمی کافی عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی۔ یوں آپ نے 2009 میں پہلا بلوچی تحقیقی مجلہ ہنکین بھی شروع کیا جو بلوچی تحقیق و تنقید کی جانب ایک اہم پیش رفت تھی۔ اسی طرح بلوچی کا پہلا نیوز لیٹر ”سال حال“ بھی آپ کی محنت کا ثمر ہے۔ اس دوران مختلف کالجوں میں فارسی بطور اختیاری مضمون کے طور پر شامل تھا آپ کی کوششوں سے کالجوں میں بلوچی کا بھی آغاز ہو اور اس کے علاوہ 2 سو نمبروں کا بلوچی پیپر کا آغاز بھی آپ کے سر ہے۔

جس سے کالجوں میں بلوچی کی اساتذہ کی بہت سی آسامیاں در آئیں۔ بطور چیئرمین شعبہ بلوچی میں آپ نے ایک ریفرنس لائبریری اور کمپیوٹر لیب بھی بنوایا۔ اس کے علاوہ میر گل خان نصیر چیئر کی بنیاد بھی آپ نے ڈالی۔ علاوہ ازیں جب تربت یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو آپ پہلے پر وائس چانسلر بنے اس دوران میں آپ نے انسٹی ٹیوٹ آف بلوچی لینگوئج اینڈ کلچر کی داغ بیل ڈال دی جو اب ایک مکمل فعال ادارہ ہے، جہاں بی ایس بلوچی، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کی تعلیم دی جا رہی ہے۔

آپ کا شمار کئی ادبی تنظیموں کی بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے جو اب باقاعدہ علم و ادب کی دنیا میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ انسٹیٹیوٹ آف بلوچی لینگوئج اینڈ کلچر میں ملا فاضل چیئر، ایبسڑیکٹنگ اینڈ انڈیکسنگ ایجنسی، سنٹر فارمیشن اسٹنڈرڈائزیشن اینڈ کلاسیفکیشن آف ٹرمنالوجیز، ریسرچ سنٹر فار پروموشن آف اور ل ٹریڈیشنز، دارالترجمہ، ثقافتی مرکز، لینگوئج سنٹر (بلوچی، انگلش، فارسی، عربی اور چائینز) جنرل آرکائیوز، میوزیم کا قیام آپ کی کوششوں کا ثمر ہیں۔

دُعا ہے کہ یہ شجر اسی طرح سر سبز و شاداب رہے اور علم و ادب کے مسافر اس کی گھنیری اور ٹھنڈی چھاؤں سے مستقلاً لذت گیر ہوتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments