بشکک کی تشکیک و تحقیق اور طلبا کے حالات


احباب میں کون ہے جس نے حالیہ دنوں میں قرغزستان کے دارالحکومت بشکک کا ذکر نہیں سنا؟ یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ بشکک اس خادم کے پسندیدہ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ کچھ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ یہ خادم اپنے ہم کاروں میں عادی مستعفی کے لقب سے مشہور ہے۔ سو سن دو ہزار دس میں بنگلادیش کی بقول شخصے ”پکی نوکری“ سے استعفی دے کر گھر بیٹھا تھا اور ارادہ تھا کہ کچھ عرصہ مکروہات دنیوی سے دور رہا جائے۔ مگر قسام ازل کو منظور نہ تھا چنانچہ قرغزستان کے جنوب میں واقع شہر اوش میں قرغز اور ازبک باشندوں کے درمیان نسلی فسادات پھوٹ پڑے۔ صدر دفتر سے حکم آیا کہ باندھو بوریا بستر اور بلا پس و پیش پہنچو قرغزستان اور وہاں املاک و روزگار کی بحالی اور قیام امن کے اقدامات کی قیادت کرو۔ اس سلسلے میں چند ماہ قرغزستان میں قیام رہا۔ پھر سن دو ہزار سولہ میں ایک بار پھر چند ہفتے کے لیے حکومت کی پالیسی سازی میں مدد کے لیے جانا ہوا۔ گویا دو بار دیکھا ہے، سہ بارہ دیکھنے کی ہوس ہے۔

بارے بشکک کا کچھ بیاں ہو جائے۔ بشکک قدیم ترکی زبان کے لفظ ”پشکک“ سے بنا ہے جس کے معنی ہیں ”مدھانی“ ۔ جی وہی جس سے ہمارے ملک کے اکثر حصوں میں لسی بنتی ہے۔ اس نام کے پیچھے ایک لوک داستان ہے۔ شہر ”تھیان شان“ نامی سلسلہ کوہ کی ایک فرع ”الا تو“ نامی پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ انیسویں صدی کی ابتدا میں یہ محض ایک راغہ تھا جو قدیم شاہراہ ریشم کی ایک شاخ پر واقع تھا۔ موجودہ قرغزستان کے جنوب میں تشکیل پانے والے قوقند نامی رجواڑے کے خان صاحب نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کر کے آتے جاتے سوداگروں، خصوصاً قرغز خانہ بدوش گڈریوں سے خراج وصولنا شروع کر دیا۔ قرغز لوگوں کو اس سے شکایات پیدا ہو گئیں اور دو دہائیوں بعد ہی قرغز قبائل کی باقاعدہ دعوت پر زار روس کی افواج نے قبضہ کر کے قلعے کو مسمار کر دیا اور یہاں چھوٹی سی روسی چھاؤنی قائم کر دی۔ مگر شہر کی قسمت صحیح معنی میں بالشویک انقلاب کے بعد بدلی جب یہاں کی مقامی اشتراکی پارٹی نے سوویت یونین میں شمولیت اختیار کرلی۔

مشرقی یورپ سے شہروں کو ترتیب دینے کے ماہرین بلوائے گئے جنہوں نے ایک وسیع و عریض باغ ترتیب دیا اور شہر اسی باغ کے اندر بسایا گیا۔ یہ خادم کوچہ پشکن میں واقع اپنی جائے قیام سے دفتر، قہوہ خانے، کریانہ فروشی، ریستوران، کہیں جانے کے لیے نکلتا تو راستہ ہمیشہ باغ کی کسی روش سے ہو کر گزرتا۔ شہر کا نقشہ شطرنج کی بساط کے مانند متوازی سڑکوں اور گلیوں پر مبنی ہے۔ الا تو سے آنے والی ندی سے نکالی گئی نہریں گل و شجر کو سیراب کرتی ہیں۔ آبادی میں قرغز اکثریت ہے، اگرچہ تھیان شان پہاڑ کی جنوبی جانب ازبیک بڑی تعداد میں ہیں۔ روسی، تاتار، تاجیک، یہودی، جرمن اور کوریائی نسل بھی قرغزستان کے شہریوں میں شامل ہے۔ سابق سوویت وسط ایشیائی ریاستوں میں یہ واحد ملک ہے جہاں کئی پارٹیوں والا جمہوری نظام کچھ جڑ پکڑ چکا ہے۔

قرغزستان کی سرکاری جامعات کی تکنیکی، اور اس خادم کی حیرت کا سامان بننے والی چیز، فلسفہ کی تعلیم اب تک سوویت یونین کی ڈالی گئی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے اور پورے خطے میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تاجکستان، ازبکستان، قزاقستان، حتی کہ یوکرین تک کے لوگ اس کے مناسب معیار اور کم خرچ کے سبب یہاں پڑھنے آتے ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قرغز لوگوں نے قوم پرستی پر بے جا اصرار کرنے کے بجائے قرغز کے ساتھ ساتھ روسی کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دے رکھا ہے اور ذریعہ تعلیم روسی ہے۔ طب کی تعلیم کے لیے اوش کی نیشنل میڈیکل یونیورسٹی اور بشکک کی اخون بائیف سٹیٹ میڈیکل یونیورسٹی سب سے وقیع سمجھی جاتی ہیں۔ اس خادم کو سرکاری کلینک میں دستیاب مہارتوں اور سہولتوں کا مشاہدہ اور ذرا سا تجربہ بھی کرنے کو ملا اور اسے اطمینان بخش پایا۔

احباب نے دیکھا ہو گا کہ کسی محلے میں کسی چیز کی دکان اپنے معیار یا خدمات کی وجہ سے کامیاب اور مشہور ہو جائے تو آس پاس کھمبیوں کی طرح اس سے ملتے جلتے ناموں والی، اسی چیز کی دکانیں نمودار ہو جاتی ہیں۔ ہندوستان میں بھی یہی چال دیکھنے کو ملی۔ غالباً وطن سے سیکھے ہوئے اسی سبق کی روشنی میں، قرغزستان کی سرکاری میڈیکل یونیورسٹیوں کی شہرت سے فائدہ اٹھانے کی سوجھی تو پاکستان اور بھارت کے کچھ طالع آزما حضرات کو۔ انہوں نے کچھ بدعنوان سرکاری اور نجی عناصر کے ساتھ ساجھے داری میں بھاری بھرکم سابقے مثلا، انٹرنیشنل، ایشین وغیرہ لگا کر فلیٹوں، گوداموں اور تہہ خانوں میں نجی میڈیکل کالج کھول لیے۔

پہلے بشکک میں اس نوع کی صرف ایک دکان تھی، اب سنا ہے کہ مزید ترقی ہو چکی ہے اور نت نئے نجی کالج وجود میں آ چکے ہیں۔ اس خادم کے آخری دورے تک تو صورت حال یہ تھی کہ اس کالج کے پاس نہ تو کوئی تدریسی اسپتال تھا، نہ کوئی تجربہ گاہ۔ سرکاری یونیورسٹی کے کچھ ریٹائرڈ اور کچھ ازکار رفتہ انگریزی دان اساتذہ شام کو یہاں اٹک اٹک کر بولتے لیکچر دیتے تھے۔ اٹک اٹک کر بولنے کا یوں پتا ہے کہ حاضری رجسٹر وغیرہ کا چنداں تکلف نہ تھا۔ سو ایک روز یہ خادم اور ایک بھارتی ہم کار ازراہ آزمائش کمرہ جماعت میں کچھ دیر بیٹھ کر آ گئے۔ طلبا و طالبات سو فی صد پاکستانی اور بھارتی تھے اور کوئی ایک قرغز یا وسط ایشیائی کلاس میں کبھی نظر نہ آیا۔ اب سنا ہے کہ بنگلادیش، مصر، سری لنکا وغیرہ کے شاطروں نے بھی اس نیک کاروبار میں حصہ ڈالا ہے۔

قرغز پولیس والے جنوبی ایشیائی طلبا کو ویزا کی پڑتال کرنے کے بہانے روک کر ہراساں کر کے پیسے بٹورنے کے عادی ہیں۔ ایک دو بار اس خادم اور بھارتی دوست راہل کو بھی روکا، مگر شناخت کروانے پر اپنے افسر اعلی سے جھاڑ کھائی کہ غلط جگہ ہاتھ ڈال کر وقت برباد کیا۔ اس دوران آتے جاتے دس بیس لڑکے لڑکیوں سے صاحب سلامت بھی ہو گئی جن میں سرکاری کالج والے بھی تھے اور نجی گودام والے بھی، کہ ہم نے اپنے پیشہ ورانہ شناختی کاغذات کا رعب دے کر ان کی جان پولیس والوں سے چھڑائی۔

جب ہی اس کاروبار کے ایک اور گھناونے پہلو کا علم ہوا۔ اتفاق سے جتنے بچے بچیاں ملے، سب کا تعلق دونوں ملکوں کے ان علاقوں مثلاً ٹھوکر نیاز بیگ، گڑگاؤں، شیخوپورہ، غازی آباد وغیرہ سے تھا جہاں شہری پھیلاؤ، ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی برکت سے اراضی کی قیمتیں ایک دم آسمان پر چڑھ گئی تھیں۔ اچانک وہاں ان نجی میڈیکل کالجوں کے ایجنٹ راتوں رات امیر بننے والوں کے خیر خواہوں کا روپ دھارے نمودار ہوئے اور لوگوں کو مشورہ دیا کہ اچھا موقع ہے، بچے یا بچی کو ڈاکٹر بنا لیں۔

ظاہر ہے کہ ان کا نشانہ وہ نوجوان تھے جو اپنے ملکوں میں میڈیکل کالجوں میں اہلیت کی بنیاد پر داخلہ لینے سے قاصر تھے۔ کچھ مزید برکت اس دھندے میں آپس کی مقابلے بازی نے جسے پنجاب میں ”شریکا“ اور اس خادم کے وطن میں ”تربور گلوی“ کہتے ہیں، کے باعث بھی آتی۔ ایک دو سمیسٹر گزار لینے پر بچوں کو کہا جاتا تھا کہ انہیں گھر آنے جانے کا ٹکٹ اور فیس میں رعایت مل سکتی ہے اگر وہ دو چار مرغے مزید پھانس لائیں۔ سو چراغ سے چراغ جلتا چلا جاتا تھا۔ فارسی مقولے ”کس نگوید کہ دوغ من ترش است“ کے مصداق، ازراہ خفت اور وہاں کی سماجی اعتبار سے آزادانہ فضا سے محرومی کے خدشے کے پیش نظر، بہت کم لوگ گھر آ کر اس ڈھکوسلے کا اعتراف کرتے تھے۔

سرکاری کالجوں میں امتحان میں شرکت یا طالب علموں والے ویزا کی توسیع کے لیے نوے فی صد حاضری کی شرط ہوا کرتی تھی۔ جبکہ نجی کالج میں اس باب میں بھی خیر و خیریت تھی۔ کچھ ایسے نوجوان بھی ملے جو حاضریاں پوری نہ کر پانے، یا روسی زبان میں بروقت قابلیت بہم نہ پہنچا پانے، یا نالائقی کے سبب سرکاری یونیورسٹیوں سے نکالے گئے تھے اور اب نجی کالج میں داخلے کے بہانے وہاں مقیم تھے اور دیگر درآمدی برآمدی کاروباروں میں، یقیناً مقامی گماشتوں کی شراکت میں، مصروف تھے۔

اس خادم کا یقین کی حد تک پہنچا ہوا گمان ہے کہ اگر نجی میڈیکل کالجوں کی وہی حالت ہے جو تب تھی، تو یہاں کے فارغ التحصیل کسی بھی ملک کا میڈیکل پریکٹس کا امتحان پاس نہیں کر سکتے۔ ویسے تو ”کون سنتا ہے فغان درویش۔ اور وہ بھی بہ زبان درویش“ ، لیکن عمر کا تقاضا کچھ مشورے دینے پر مجبور کر رہا ہے۔

اول، ڈاکٹر بننا ہی کیوں ضروری ہے؟ انہی پیسوں میں اپنے وطن میں دیگر شعبوں میں معیاری تعلیم یا تکنیکی تربیت حاصل کیوں نہیں کرتے؟ دوم، اگر کسی بھی وجہ سے ڈاکٹر ہی بننے کا خبط سوار ہے تو ازراہ کرم، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی ویب سائٹ پر جا کر یہ دیکھنے کی تکلیف کر لیجیے کہ چرب زبان ایجنٹ جس کالج کی تعریفوں کے پل باندھ رہا ہے، اس کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ سوم، ذرا تلخ بات، اگر آپ کسی وجہ سے وہاں پہنچ کر اور اس تعلیم کی حقیقت جان کر بھی ماں باپ کے خرچ پر وہاں ٹکے رہنے پر مصر ہیں تو کچھ حوصلہ پیدا کیجیے۔ کبھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔ اگر معمولی جھگڑا فساد ہو جائے تو حکومت پاکستان کی دہائیاں دینا بند کر دیں۔

خصوصاً قرغزستان کے لیے آپ زرمبادلہ کا اہم ذریعہ ہیں اور وہاں کی حکومت اور آپ کے کالجوں کے مالکان کبھی نہیں چاہیں گے کہ آپ جیسی اپنے خرچ پر انہیں سونے کے انڈے دینے والی مرغیاں ہاتھ سے نکل جائیں۔ وہ ضرور بالضرور آپ کی حفاظت کریں گے۔ اور آخری بات، اگر آپ کے دل کے وسوسے وہاں کے حالات آپ کو واقعی صومالیہ، کانگو، غزہ یا یمن جیسے خطرناک دکھا رہے ہیں تو کان لپیٹ کر گھر آ جائیں۔ اپنے وطن میں سب کچھ ہے پیارے، اور جان ہے تو جہان ہے، وغیرہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments